حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن اور چینی لیڈر شی جن پنگ کے مابین طویل ملاقات ہوئی، جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ امریکہ کے لیے یہ ایک اہم ترین سٹریٹیجک ملاقات تھی۔
اس وقت امریکہ کو درپیش سب سے بڑا سٹریٹیجک مسئلہ چین اور روس کا اتحاد ہے۔ یہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی ان کو ایک دوسرے پر زیادہ بھروسہ ہے، لیکن یہ دونوں موجودہ ورلڈ آرڈر کی جگہ ایک نئے عالمی نظام کے خواہش مند ہیں، اور اس مقصد کے تحت اتحاد کے لیے تیار ہیں، گو کہ اس طرح کے نئے عالمی نظام کے لیے ان کے پاس مشترکہ نظریاتی بنیادیں موجود نہیں ہیں۔
چین نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے بجائے، اس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ''شعلوں کو ہوا دینے‘‘ کا الزام لگایا ہے۔ چین کا روس کی مذمت سے انکار چین روس ہم آہنگی کے وسیع نمونے کا ایک حصہ ہے۔
جنوری 2022 میں، چین نے عوامی طور پر قازقستان میں روس کی مداخلت کی حمایت کی تاکہ دونوں ممالک کے گھر کے پچھواڑے میں ''رنگین انقلاب‘‘ کو ناکام بنایا جا سکے۔ فروری کے اوائل میں، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ نے ایک طویل مشترکہ بیان جاری کیا، جس میں امریکی اثر و رسوخ کو اپنے قریبی ملکوں سے دور رکھنے کا عہد کیا گیا اور امریکہ کے زیر سرپرستی نیٹو اتحاد کو سرد جنگ کی باقیات قرار دیا۔ دونوں نے اپنے اپنے داخلی ماڈل کا دفاع کیا، اور یہ اعلان کیا کہ چین اور روس کی دوستی کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دونوں کے مابین قابلِ ذکر فوجی، اقتصادی، سفارتی اور تکنیکی تعاون ہے۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ کو اب دو الگ الگ تھیٹرز مشرقی یورپ اور مغربی بحرالکاہل میں قریبی حریفوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
موجودہ صورتحال نے جدید دور کے عظیم جغرافیائی سیاسی ڈراؤنے خواب کو زندہ کر دیا ہے۔ ڈرائونا خواب یہ ہے کہ روس اور چین جیسی طاقتیں یوریشیا میں اپنا تسلط قائم کر سکتی ہیں، جو دنیا کا مرکزی سٹریٹیجک تھیٹر ہے۔
اس ڈراؤنے خواب کا پتہ سیاسی جغرافیہ دان ہالفورڈ میکینڈر کی تحریروں سے ملتا ہے، جس نے 1904 میں خبردار کیا تھا کہ آنے والے دور میں یوریشیا اور اس کے آس پاس کے سمندروں پر حکمرانی کیلئے کانٹے دار مقابلہ اور سخت جدوجہد ہوگی۔ یہ پیشگوئی دو تباہ کن گرم جنگوں اور اس کے بعد ہونے والی ایک عالمی سرد جنگ کی شکل میں سچ ثابت ہوئی۔ میکینڈر کا نظریہ اکیسویں صدی میں نئی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حریف بنیادی طور ایک نیا عالمی نظام قائم کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
میکینڈر کو بہت سے لوگ جغرافیائی سیاست کا باپ مانتے ہیں۔ اس نے سیاسی جغرافیہ کے بارے میں اپنی مشہور ''ہارٹ لینڈ‘‘ تھیوری میں دلیل دی کہ تین انقلابات یوریشیا کو عالمی معاملات کا مرکز بنا رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ ایشیا اور افریقہ میں نوآبادیاتی نظام سے ظاہر ہورہا تھاکہ سامراجیت کا آسان پھیلائو اب ممکن نہیں رہا ہے۔ یوریشیا، جو کہ دنیا کا جغرافیائی سیاسی مرکز ہے، میں بڑی طاقتوں کے درمیان شدید لڑائیوں کا امکان بڑھ رہا تھا۔ دوسرا، ریل روڈز کا پھیلاؤ وسیع خطوں میں طاقت بڑھانے کے نئے مواقع پیدا کرنا ممکن بنا رہا تھا۔ تیسرا، غیر لبرل ریاستیں اندرون ملک خوفناک جبر اور بیرون ملک ڈرامائی توسیع کیلئے تیزی سے صنعتی معیشتوں کا استعمال کر رہی تھیں۔ اگر ایسی ریاستیں یوریشیا پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں تو عالمی بالادستی ان کی دسترس میں ہوگی۔
میکینڈر نے نشاندہی کی کہ یوریشیا دنیا کی زیادہ تر آبادی اور صنعتی صلاحیت کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک طاقت یا اتحاد جس نے یوریشیا کے وسائل پر کنٹرول حاصل کر لیا، وہ پھر بے مثال بحری افواج بنا سکتا ہے اور سمندروں میں اپنی سلطنت کو بڑھا سکتا ہے۔ آنے والے جیو پولیٹیکل ڈرامے اس اہم لینڈ ماس پر اور اس کے آس پاس چلیں گے۔
لیکن میکینڈر کی بہت سی باتیں غلط نکلیں۔ یوریشین توازن کو درپیش بڑے چیلنجز ابتدا میں روس کی طرف سے نہیں، جیسا کہ اس نے توقع کی تھی، بلکہ جرمنی اور جاپان سے آئے تھے۔ بیسویں صدی کی تین عظیم جھڑپیں پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ دراصل مطلق العنان ریاستوں کے درمیان جھگڑے تھے، جنہوں نے یوریشیا اور اس سے ملحقہ سمندروں کے بڑے حصے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان مقابلوں کی شکلیں بدلتی رہیں۔
امریکی پالیسی ساز، ووڈرو ولسن سے لے کر جارج کینن تک، سمجھ گئے تھے کہ ایک مخالف یوریشیا بنیادی طور پر دنیا کو نئی شکل دے گا اور سرد جنگ کے بعد کی ایک مختصر مہلت کے بعد، امریکہ آج پرانے ڈراؤنے خواب کے ایک نئے ورژن کا سامنا کر رہا ہے۔ چین اور روس کی شراکت قدرتی طور پر سرد جنگ کے دوران چین سوویت اتحاد کی طرح دکھائی دیتی ہے‘ لیکن ایک بہتر مشابہت دوسری جنگ عظیم سے پہلے جرمنی اور جاپان کی ہو سکتی ہے۔ ٹوکیو اور برلن‘ دونوں اس وقت کے ورلڈ آرڈر کو ختم کرنے کیلئے پُرعزم تھے، اور ہر ایک نے دوسرے کی پیش قدمی سے پیدا ہونے والے انتشار سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
اس وقت صورت یہ ہے کہ فی الحال چین یا روس نے دوسری جنگ عظیم کے پیمانے پر جارحیت نہیں کی ہے‘ لیکن دونوں ممالک بنیادی طور پر امریکی زیرقیادت بین الاقوامی نظام سے ناراض ہیں، کیونکہ امریکی اثرورسوخ کو وہ عالمی تسلط قرار دیتے ہیں، جوعالمی معاملات میں ان کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ اسی طرح موجودہ ورلڈ آرڈر میں موجود لبرل اصول ان غیر لبرل احکامات سے متصادم ہیں، جو وہ داخلی سطح پر اپنے اپنے ممالک میں چلا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ چین اور روس الگ الگ ایجنڈوں پر عمل پیرا ہوں، لیکن وہ مل کر یوریشیا اور اس سے آگے کے جغرافیائی سیاسی توازن کے حوالے سے ایک جامع چیلنج پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔
بیجنگ کا مقصد امریکی طاقت کو ایشیا کی سمندری حدود سے نکالنا ہے تاکہ مغربی بحرالکاہل کے زیادہ تر حصے پر محیط چینی اثرورسوخ کو مضبوط کیا جا سکے۔ چین بیک وقت سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے کے پروگراموں کے ذریعے یوریشیا تک پہنچ رہا ہے، جیسے کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور ڈیجیٹل سلک روڈ، اور جنوب مشرقی ایشیا، وسطی ایشیا، اور دوسرے خطوں میں اپنا اقتصادی، سیاسی اور فوجی اثر ڈال رہا ہے۔ اس طرح بیجنگ زمین اور سمندر پر ہائبرڈ بالادستی کی تلاش میں ہے۔
دوسری طرف برسوں سے پوٹن وسطی ایشیا سے مشرقی یورپ تک روس کی بالادستی کو بحال کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پوٹن ایک ایسے یورپ کا تصور کرتے ہیں، جس میں نیٹو کو مؤثر طریقے سے سرد جنگ کی سرحدوں پر واپس لایا جائے اور واشنگٹن کے ساتھ اس کے تعلقات کی وہ شکل نہ رہے جو اس وقت موجود ہے۔ چونکہ روس نے ابتدائی سرد جنگ کے دور کے بعد اپنی طاقت بحال کی ہے، ماسکو نے آرکٹک، شمالی بحر اوقیانوس، مشرق وسطیٰ اور دیگر کشیدگی والے علاقوں میں بھی اپنی طاقت آزما کر دیکھی ہے۔ ماسکو کو روس پر مرکوز عالمی نظام کی تعمیر کی کوئی امید نہیں ہے، لیکن یہ موجودہ نظام کو کمزور ضرور کر سکتا۔ اس طرح موجودہ ورلڈ آرڈر کو لے کر روس اور چین کے اہداف میں بہت کچھ مشترک ہے‘ اور یہ دونوں ملک مل کر ایک نئے عالمی نظام کیلئے راستہ ہموار کر سکتے ہیں‘ لیکن اس کیلئے مشترکہ نظریاتی بنیادوں کی ضرورت ہے، جو اس لڑائی کو اخلاقی جوازیت مہیا کر سکے۔ نظریاتی جواز کے بغییر یہ محض بڑی طاقتوں کے مفادات کی لڑائی ہے۔