اسلام آباد میں کیا ہونے والا ہے؟ یہ ایک واضح اور دوٹوک سوال ہے، لیکن کوئی سنجیدگی سے اس کا واضح جواب دینے کیلئے تیار نہیں؛ البتہ حکومت اور حزب اختلاف کے پاس اس کا دوٹوک جواب ہے، جو وہ کئی دنوں سے عوام کو دے رہے ہیں۔ حزب مخالف کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے خلاف جو قرارداد انہوں نے قومی اسمبلی میں پیش کی ہے، وہ سو فیصد کامیاب ہو گی۔ حکومت کا جواب یہ ہے کہ یہ تحریک ناکام ہو گی۔ دونوں فریق عوام کو جس اعتماد کے ساتھ اس سوال کا جواب دے رہے ہیں، اتنا اعتماد اور یقین ان کو اپنے آپ پر نہیں ہے۔ اس کی ایک جھلک ان کی حرکات و سکنات، اندازِ گفتگو اور بدن بولی میں نظر آ رہی ہے‘ مگر یہ سوال اب اتنا اہم نہیں رہا کہ عدم اعتماد کی قرارداد کامیاب ہوتی ہے یا ناکام، کیونکہ اس قرارداد کا مقصد اگر تبدیلی تھا، تو اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ اب صورت حال جس نہج پر پہنچ چکی ہے اس کے پیش نظر حزب اقتدار کے لیے حسبِ معمول کاروبار حکومت جاری رکھنا ممکن نہیں رہا ہے‘ لیکن جس تبدیلی کا آغاز ہوا ہے، اس کی شکل کیا بنتی ہے، اس بات کا انحصار ملک کے اہم اداروں پر ہے۔ ان میں سے دو ادارے قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ ہیں۔ اس تبدیلی کی شکل کا تعین ان اداروں کے فیصلے کریں گے۔ اداروں کے لیے یہ مشکل مگر ناگز یر فیصلے ہیں، جو پاکستان کی جدید تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرے گی، اس پر رائے دینے سے گریز ہی بہتر ہے چونکہ اس وقت یہ معاملہ زیر سماعت ہے‘مگر اس ادارے کے معزز اراکین کی ''آبزرویشنز‘‘کو دیکھتے ہوئے اگر کوئی اندازہ لگایا بھی جائے تو اس میں غلطی کی گنجائش کم ہی ہو گی۔
آنے والے چند دنوں میں دونوں کے فیصلے سامنے آ جائیں گے‘ اور مذکورہ بالا سوال کا جواب مل جائے گا، جس کے لیے کئی لوگ سانس روکے بیٹھے ہیں‘ لیکن اس سارے ہنگامے سے جو اصل سوال ابھرتا ہے وہ سب سے اہم ہے‘ مگر اس وقت نہ کوئی یہ سوال اٹھا رہا ہے اور نہ ہی کوئی اس جواب کے بارے میں فکر مند ہے۔ وہ سوال یہ ہے کہ حکومت کی اس تبدیلی سے پاکستان کے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے‘ اور وہ عام لوگ جو اس تبدیلی کے نام پر ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے پر اتر آئے ہیں، ان کی زندگی پر اس تبدیلی سے کیا مثبت اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سوال کا جواب دو ہزار اٹھارہ کے منظر یاد دلاتا ہے۔ اس وقت اسلام آباد کی سڑکوں پر تبدیلی کی بات اتنی بلند آواز اور گھن گرج سے ہو رہی تھی کہ عوام کے پاس اس پر یقین نہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ ان دنوں بنیادی طور پر عوام کو ایک بڑے انقلاب کی خوشخبری سنائی جا رہی تھی، مگر اس کے لیے انقلاب کی جگہ تبدیلی کا نرم لفظ استعمال کیا جا رہا تھا۔ جوشیلے نعرے، جذباتی گانے، اور دل کو چھو جانے والے ترانے سن کر لوگوں کے جذبات بے قابو ہو رہے تھے۔ وہ یہ باور کر بیٹھے تھے کہ ان کی زندگی کے سارے دکھ درد دور ہونے کا وقت آ گیا ہے، اور اس وقت کو دیکھنے کے لیے وہ مرنے مارنے پر اتر آئے تھے‘ مگر اس وقت بھی بے شمار سنجیدہ لوگ ایسے تھے، جنہوں نے کچھ مشکل سوالات اٹھائے تھے، اور ان کے ہوش مند جوابات بھی فراہم کرنے کی کوشش کی تھی، جو تبدیلی کے جوش میں مدہوش لوگوں کو سنائی نہیں دیتے تھے۔
تبدیلی کے نام پر اس وقت سب سے بڑا دعویٰ یہ کیا گیا تھا کہ تبدیلی کیلئے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم بدلنا ضروری ہے، اور یہ کام صرف چھ ماہ میں کر دیا جائے گا۔ بہت لوگوں نے اس دعوے کو چیلنج کیا اور عرض کیا کہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں تبدیلی کی خواہش بڑی عظیم اور مقدس ہے، مگر اس کا دعویٰ کرنے والوں کو دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ان کو اس بات کا مکمل ادراک اور شعور ہی نہیں ہے کہ جس فر سودہ نظام تعلیم کی وہ بات کر رہے ہیں، اس میں فرسودگی کی اصل وجہ کیا ہے‘ اور اس کو بدل کر اس کی جگہ کون سا نیا نظام تعلیم لایا جائے گا، جو فرسودگی کی جگہ ایک جدید سماج تشکیل دے سکتا ہو، اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ ان کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ ان کو اس بات کا ادراک نہیں تھا کہ اس نظام کی جگہ جو بھی نظام لایا جائے گا، اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے کم از کم وقت اور وسائل درکار ہوں گے۔ اس باب میں کئی دانشوروں نے ان کی خدمت میں عرض کی کہ تعلیم دنیا میں کوئی نیا کام نہیں ہے۔ جب سے انسان تہذیب یافتہ ہوا ہے، تب سے دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں تعلیم و تدریس کا کام جاری ہے۔ قدیم یونان، چین اور مصر کی تہذیبوں سے لے کر آج تک انسان تعلیم کے باب میں لاکھوں تجربات کرچکا ہے۔ ان تجربات کی روشنی میں دنیا کا ایک ایسے نظام تعلیم پر اتفاق پایا جاتا ہے، جو ہمارے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے، اور جدید سائنسی اور منطقی اصولوں پر استوار ہے۔ اس باب میں کسی نئے تجربے کی ضرورت نہیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید نظام تعلیم کو اپنی مقامی حالات اور ثقافتی ضروریات کے مطابق اپنایا جائے۔ اس باب میں اگر غور کرنے یا فکر مند ہونے کی کوئی بات ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس تبدیلی کیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ جو اصل اور بڑا سوال ہے، اس کا جواب سب سے پہلے ضروری ہے۔
یہ سوال تبدیلی کے ہر دعوے کے ساتھ جڑا ہے‘ خواہ وہ صحت کا مسئلہ ہو، لاکھوں کروڑوں لوگوں کے روزگار کا مسئلہ ہو یا رہائش، صاف پانی اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات فراہم کرنے کا سوال ہو‘ مگر اس وقت تبدیلی کے نام پر حکمرانی کی خواہش میں مبتلا رہنماؤں اور فریب مسلسل کا شکار ہونے والے ان کے پیروکاروں کو وسائل پر اٹھایا جانے والا کوئی سوال پسند نہیں آتا تھا کیونکہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے یہ ماننا ضروری تھا کہ جب تک پاکستان کے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلی نہیں لائی جاتی، اس وقت تک یہاں پر تعلیم صحت، اور رہائش و خوراک اور سماجی انصاف جیسے منصوبوں کے لیے مطلوبہ وسائل مہیا نہیں کیے جا سکتے۔
یہ کام چند ملکوں کی سخاوت سے، غیر ملکی بینکوں سے قرضے مانگ کر یا چند بدعنوان لوگوں سے پیسے واپس لے کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ملک کے فرسودہ نظام میں بنیادی تبدیلی لا کر ایک ایسا نظام رائج کرنا ہوگا، جس کے ذریعے دولت کی منصفانہ تقسیم ممکن ہو سکے‘ لیکن یہ لوگ نظام میں تبدیلی کے بغیر ملک میں تبدیلی اور عوام کی زندگی میں تبدیلی کے دعوے پر بضد رہے، جس کا انجام سب کے سامنے ہے۔ اس تلخ تجربے کے بعد بھی ایک بار پھر افسوسناک بات یہ ہے کہ عام لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک نئے سراب کے پیچھے چل پڑی ہے، اور حکومت میں تبدیلی کے عمل میں اپنی زندگی میں کسی خوش کن تبدیلی کے آثار دیکھتے ہوئے سڑکوں پر آنے کیلئے تیار ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس وقت اس ملک میں کوئی ایسی قوت موجود نہیں، جو عوام کو یہ بتا سکے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر ان کی زندگی میں کسی قابل ذکر تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔