پاکستان کی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہونے کے بعد ملک کی سیاست ایک ڈرامائی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جس وقت میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، اس وقت یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ سپریم کورٹ کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تحلیل شدہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی قرارداد کے بارے میں رولنگ آئین و قانون کے مطابق تھی یا نہیں۔ حزب مخالف نے عدالت میں یہ عرض گزاری ہے کہ قرارداد کے بارے میں ڈپٹی سپیکر کا فیصلہ غیر آئینی اور غیر قانونی تھا۔ انہوں نے داد رسی کے لیے درخواست گزاری ہے کہ اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جائے‘ اسمبلی کو بحال کیا جائے، اور قومی اسمبلی کی کارروائی کا سلسلہ وہاں ہی سے شروع کیا جائے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ ظاہر ہے کہ حکومت کا موقف اس کے برعکس ہے۔ اربابِ اختیار کا خیال ہے کہ سب کچھ ملک کے دستور اور قانون کے مطابق ہوا ہے، اس لیے حزب مخالف کی درخواست کو خارج کر دیا جانا چاہئے۔
اب اس انتہائی حساس اور اہم ترین سوال پر سپریم کورٹ کیا فیصلہ کرتی ہے، بہتر ہو گا کہ اس پر کوئی تبصرہ کیے بغیر عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جائے۔ دریں اثنا یہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کہ ماضی میں اس سے ملتے جلتے مقدمات میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے جج حضرات کیا فیصلے کرتے رہے۔ ضروری نہیں کہ یہ فیصلے موجودہ مسئلے پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اثر انداز ہوں، لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ ایسا ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
ملک کی عدالتی تاریخ میں پہلا فیصلہ اس وقت سامنے آیا تھا، جب انیس سو چون میں اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے ایک حکم کے ذریعے آئین ساز اسمبلی کو برخاست کر دیا تھا۔ برخاست شدہ اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ نے گورنر کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ معاملہ وفاقی عدالت میں چلا گیا۔ جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں وفاقی عدالت یعنی اس وقت کی سپریم کورٹ نے گورنر کے حکم کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے سے پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نظریہ ضرورت کا عنصر داخل ہوا۔
اس سلسلے کا دوسرا بڑا مقدمہ دوسو کیس تھا۔ دوسو کیس بنیادی طور پر ایک قتل کے مقدمے میں اپیل تھی۔ یہ اپیل پہلے مغربی پاکستان کی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں دائر کی گئی۔ ہوا یہ تھا کہ بلوچستان کے ایک لویہ جرگہ نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک شہری دوسو کو ایف سی آر کے تحت قتل کے مقدمے میں سزا سنائی تھی۔ دوسو کے لواحقین نے لویہ جرگہ کے فیصلے اور دائرۂ اختیار کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ ہائی کورٹ نے لویہ جرگہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ایف سی آر کو آئین پاکستان 1956 کے آرٹیکل 5 اور 7 کے خلاف قرار دے دیا۔ اس فیصلے نے 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد ایف سی آر کے تحت منظور کیے گئے بہت سے دوسرے احکامات پر سنگین سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے تھے۔
وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور کیس 13 اکتوبر 1958 کو سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ اسی دوران سات اکتوبر انیس سو اٹھاون کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس پیشرفت نے پوری توجہ دوسو کیس کی سماعت کی طرف مبذول کر دی، کیونکہ ہائی کورٹ نے 1956 کے آئین کے تحت لویہ جرگہ کے فیصلے کو تبدیل کر دیا تھا‘ جسے7 اکتوبر 1958 کو مارشل لاء آرڈر اور 10 اکتوبر 1958 کے نئے قانونی حکم کے نفاذ کے ذریعے بے کار کر دیا گیا تھا۔ اس طرح دوسو کیس بالواسطہ مارشل لاء کے نفاذ کو چیلنج کر رہا تھا اور 1956 کے آئین کو برقرار رکھنے کا باعث بننے والا تھا؛ تاہم سپریم کورٹ نے 27 اکتوبر 1958 کو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف متفقہ طور پر کیس کا فیصلہ کیا، 10 اکتوبر 1958 کے نئے قانونی حکم نامے کو تسلیم کرتے ہوئے، وفاقی حکومت کے مقدمات اور اقدامات کے خلاف اپیلیں سننے کے لیے عدالتوں کا اختیار چھین لیا۔ نتیجتاً 1956 کا آئین، جو ملک کا پہلا آئین تھا، منسوخ ہو گیا۔ میری نظر میں یہ ملک کی عدالتی تاریخ کا سب سے المناک واقعہ تھا، کیونکہ اس فیصلے کے بعد ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کو معزول کر کے اقتدار پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ 1958 کا مارشل لاء ایک پرامن انقلاب تھا‘ عام لوگوں نے اس کی مخالفت نہیں کی، جس کا مطلب ہے کہ وہ اس سے خوش ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے حکم میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ فیصلہ مشہور فلسفی ہنس کیلسن کے پیش کردہ 'نظریہ ضرورت‘ پر مبنی تھا۔
اس سے ملتا جلتا تیسرا کیس بیگم نصرت بھٹو کیس تھا۔ نصرت بھٹو نے 5 جولائی 1977 کو ضیاالحق کے مارشل لاء کے دوران اپنے شوہر ذوالفقار علی بھٹو کی قید کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا تھا۔ یہ کیس بھی جنرل ضیا کی طرف سے مارشل لا کے نفاذ اور آئین کی معطلی کو چیلنج کرتا تھا۔ جنرل ضیا کی طرف سے آئین کی خلاف ورزی کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا تھا۔
اس سلسلے کا چوتھا مقدمہ محمد خان جونیجو کیس تھا۔ محمد خان جونیجو کیس کا پس منظر یہ تھا کہ ضیاالحق نے 29 مئی 1988 کو محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا۔ خواجہ محمد شریف بنام فیڈریشن آف پاکستان کے نام سے جانے جانے والے اس کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے صدر کے حکم کو غیر قانونی قرار دیا، لیکن قومی اسمبلی کو بحال نہیں کیا جبکہ سپریم کورٹ نے 1989 میں قرار دیا کہ یہ مردہ معاملہ ہے، کیونکہ نئی اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہیں۔
اس سے ملتا جلتا مقدمہ بے نظیر بھٹو کا تھا۔ یہ کیس خواجہ احمد طارق بنام فیڈریشن آف پاکستان تھا۔ اس کیس میں صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے تحلیل کردہ اسمبلیوں کی بحالی کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی، مگر ہائی کورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا، اور سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔ اپنے ہی منتخب کردہ صدر کی طرف سے برطرفی کے بعد، بے نظیر بھٹو نے صدر لغاری کے اس عمل کے خلاف سپریم کورٹ کا رخ کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں صدر لغاری کے حکم کو درست قرار دیا اور اس کی توثیق کی۔
12 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی برطرفی کے بعد ایک مقدمہ ''ظفر علی شاہ بنام جنرل پرویز مشرف‘‘ کے نام سے عدالتوں میں دائر کیا گیا۔ اس وقت کی سپریم کورٹ نے اس پٹیشن کو مسترد کر دیا تھا۔
یہ چند مقدمات کا مختصر ذکر ہے، مگر پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اس نوعیت کے کچھ اور مقدمات بھی موجود ہیں، جن کا گہرائی تک جائزہ لے کر پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے رجحانات کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں ہے۔ اب کی بار وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر نے ایک ایسی قومی اسمبلی کو تحلیل کیا ہے، جس میں قبل ازیں عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہو چکی تھی، اور عام طور پر باور کیا جاتا تھا کہ اس دن اس تحریک پر ووٹنگ ہونا تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس اہم مقدمے میں کیا فیصلہ کرتی ہے اور اس کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔