کچھ دانشوروں کا خیال ہے کہ یوکرین پر روسی حملے نے دنیا میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ رد عمل میں کئی مغربی حکومتوں کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کا اعلان ہوا ہے۔ روس کے خلاف یہ مشترکہ رد عمل اس عالمی اتحاد کو مضبوط کر سکتا ہے جو روس اور چین کے خلاف جمہوریتوں کو متحد کرنے کی کوشش کر رہا ہے‘ اور اس طرح شاید آنے والی نسلوں کے لیے ''آزاد دنیا‘‘ کو محفوظ بنانے کے لیے مشترکہ کوششوں کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ جنگ مطلق العنانیت اور جمہوریت کے درمیان عالمی کشمکش میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس جنگ کے دوران جمہوریتیں لبرل بین الاقو امی نظام کی مضبوطی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اور زیادہ قریبی طور پر وابستہ ہو جائیں گی، جس سے اس نظام کو تقویت ملے گی۔ کچھ دوسرے دانشوروں کا خیال ہے کہ اس کے برعکس یہ جنگ موجودہ عالمی نظام کو تباہ کرنے کا موجب بن سکتی ہے، جس کے بطن سے ایک نیا عالمی نظام جنم لے سکتا ہے۔
دونوں کی سوچ خواہشات پر مبنی ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ بلاشبہ ایک طوفانی واقعہ ہے، جس کے روس اور اس کے قریبی پڑوسیوں اور باقی یورپ کے لیے گہرے نتائج ہوں گے‘ لیکن یہ واقعہ نہ تو عالمی نظام کو از سر نو تشکیل دے گا، اور نہ ہی چین اور روس کے خلاف جمہوریتوں کے نظریاتی اتحاد کو آگے بڑھا سکے گا۔ اس وقت دنیا کی بہت سی جمہوریتوں نے روس کے خلاف امریکہ کی زیر قیادت اقتصادی مہم میں شمولیت اختیار نہیں کی ہے، اور نہ ہی واضح طور پر اس حملے کی مذمت کی ہے۔ ''آزاد دنیا‘‘ کو مضبوط کرنے کے بجائے اس جنگ نے آزاد دنیا کی بنیادی عدم مطابقت اور تضاد ات کو واضح کیا ہے۔ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ عالمی نظام کے مستقبل کا فیصلہ یورپ کی جنگوں سے نہیں، بلکہ ایشیا میں ہونے والے مقابلے سے ہو گا، جس پر یوکرین جیسے واقعات کا اثر محدود ہے۔
روس یوکرین جنگ کو لے کر بہت سے ممالک نے روس پر تنقید کی ہے‘ لیکن یہ مذمت عالمگیر نہیں۔ جنگ کے خلاف ہونے والے مختلف رد عمل نے روس کی ہمنوا مطلق العنان حکومتوں کے خلاف امریکہ کی اتحادی جمہوریتوں کے تصور کو غلط ثابت کیا ہے۔ کئی بڑی جمہوریتوں، خاص طور پر بھارت اور جنوبی افریقہ نے اس سال دو مارچ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ووٹ سے اجتناب کیا۔ برازیل اور میکسیکو سمیت لاطینی امریکہ کی بڑی جمہوریتوں نے پابندیوں میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ تقریباً نصف ایشیائی اور افریقی ممالک نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، یا اس کارروائی کے دوران غیر حاضر رہے‘ اور صرف تین ایشیائی ممالک جاپان، سنگاپور اور جنوبی کوریا نے روس پر امریکی اور یورپی یونین کی پابندیوں میں شمولیت اختیار کی۔
ایشیا میں اس جنگ کو بالکل الگ نقطہ نظر سے دیکھا گیا ہے۔ ایشیائی دارالحکومتوں میں زیادہ تر اس تنازع کو ہمارے عہد کے عالمی تصادم کے بجائے یورپی سکیورٹی آرڈر پر یورپیوں کے درمیان آپس کی جنگ کے طور پر دیکھا ہے۔ اس تنازع نے بنیادی طور پر یورپی سکیورٹی کے نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مغربی یورپی ممالک نے اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جرمنی نے دوبارہ اسلحہ سازی کا اعلان کیا ہے۔ نیٹو پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہوا ہے۔ بحر اوقیانوس کے اس فوجی اتحاد کو پھر سے تقویت ملی ہے۔ روس پر یورپی یونین اور سخت امریکی اقتصادی پابندیاں اس کی واضح عکاس ہیں۔
لیکن ایشیائی نقطہ نظر سے یوکرین میں جنگ کسی نئی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیتی، بلکہ یہ اس تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے، جو پہلے ہی ہو چکی ہے۔ یہ حقیقت کہ یورپیوں کے درمیان یورپی سرزمین پر ایک جنگ لڑی جا رہی ہے، اس بات کی عکاسی ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے عالمی جغرافیائی سیاست کتنی بدل چکی ہے۔ اس سے پہلے جب یورپ سپر پاور کے مقابلے میں مرکزی فالٹ لائن تھا، اس خطے میں کوئی جنگیں نہیں لڑی گئیں۔ سرحدیں منجمد رہیں، اس خوف سے کہ کئی ایسا نہ ہو کہ کوئی تبدیلی دو جوہری ہتھیاروں سے لیس سپر پاورز کے درمیان جنگ چھیڑ دے۔ اب اصل ڈرامہ ایشیا میں ہونے والا ہے، اور یورپ اس عظیم ڈرامے کا ایک سائیڈ شو ہے۔ آج عالمی معیشت کی کشش ثقل کا مرکز بحر اوقیانوس سے کوہ یورال کے مشرق میں منتقل ہو گیا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تنازعات اور سلامتی کے مسائل جو عالمی نظام کو متاثر کر سکتے ہیں، وہ ایشیا کے سمندروں میں مرکوز ہیں‘ اور دنیا چین کے عروج کے مقابلے میں ایک نئے توازن کی تلاش میں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین کی جنگ کے ایشیا کے ممالک پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔ جب بات توانائی، قیمتی اور سٹریٹیجک دھاتوں، کھادوں اور اناج کی فراہمی کی ہو گی، تو ان کے اقتصادی امکانات بھی متاثر ہوں گے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں عالمی معیشت میں سست روی خاص طور پر ایشیا کے ممالک کو متاثر کرے گی، جن کا عالمی معیشت میں خام تیل کی درآمدات میں تقریباً ساٹھ فیصد حصہ ہے۔ توانائی پر مبنی کھاد کی پیداواری لاگت میں اضافے کے نتیجے میں روسی اور یوکرینی گندم کے بازار سے انخلا کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران میں اضافہ ہو جائے گا۔ ان کی گندم دنیا میں گندم کی کل تجارت کا پچیس فیصد سے زیادہ ہے۔
چین ایک ایسی ایشیائی معیشت ہے جس کا خوراک، توانائی اور دیگر مصنوعات اور چینی برآمدات کے لیے ایک منڈی کے طور پر روس کے ساتھ سب سے زیادہ گہرا اقتصادی تعلق ہے۔ یہ روس اور فرانس کو ہتھیاروں کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ بھی سمجھتا رہا ہے۔ اب تک، چین نے اپنے عوامی موقف میں روس کی حمایت کی ہے، لیکن روس کے ساتھ اس کے تعلقات کا کسی بھی طرح مغرب پر چین کے اقتصادی انحصار سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ چین ممکنہ طور پر مغربی اقتصادی پابندیوں سے بچنا چاہے گا، اور اس کے لیے وہ روس پر امریکی اور یورپی یونین کی پابندیوں کا نفاذ کر سکتا ہے۔ چین کے علاوہ باقی ماندہ ایشیا کی روس کے ساتھ تجارت کافی کم ہے‘ اور جنوب مشرقی اور مشرقی ایشیا میں روسی سرمایہ کاری بہت کم ہے، یا بالکل نہیں ہے۔
یہ جنگ ایشیا میں بنیادی جغرافیائی سیاسی حرکیات کو تبدیل نہیں کرے گی، جب تک کہ امریکہ اپنی انڈوپیسیفک حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں لاتا۔ امریکہ کے اتحادیوں سمیت کئی ایشیائی ممالک اقتصادی طور پر چین کے ساتھ جڑے ہیں، پھر بھی اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرتے ہیں۔ بھارت اس کی ایک مثال ہے۔ چین کے ساتھ اس کی تجارت نے گزشتہ دو سالوں میں سرد سیاسی تعلقات اور مشترکہ سرحد پر فوجی جھڑپوں کے باوجود نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے سکیورٹی اور انٹیلیجنس تعلقات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ روس کا 2002 میں ہندوستانی اسلحے کی درآمدات میں اٹھاسی فیصد حصہ تھا۔ 2020 تک یہ حصہ کم ہو کر پینتیس فیصد رہ گیا تھا جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا حصہ پینسٹھ فیصد تھا۔ ہندوستان کے پاس قدیم روسی ہتھیاروں کا بڑا ذخیرہ ہے، لیکن دوسری طرف اس کے ہتھیاروں کی درآمد میں تنوع کی طرف رجحان واضح ہے۔ ان حالات میں پاکستان کا روس یوکرین جنگ میں غیر جانبدار ہونا کوئی ریڈیکل فیصلہ نہیں ہے، جس کی وجہ سے دنیا پاکستان میں حکومتی تبدیلی کے لیے کوئی سازش تیار کرنے پر مجبور ہو یا حکمرانوں کو سزا دے۔ اسی طرح اس جنگ کے بطن سے کسی انقلاب کے پھوٹ پڑنے کی امید بھی محض خواہشات پر مبنی سوچ ہے۔