حالیہ سیاسی بحران کے دوران پاکستان کی پارلیمنٹ میں ایسے نعرے کی گونج سنائی دی‘ جو اقتدار سے بے دخل ہونے والی جماعت تحریک انصاف کے پُرجوش ممبران نے بلند کیا تھا۔ اس کی گونج اسلام آباد کے ایوانوں میں سنائی دی‘ مگر یہ ممبران جوش و خروش کے باوجود اس نعرے کے ذریعے وہ تاثر نہیں پیدا کر سکے، جو عموماً ایسے جادوئی نعرے سے پیدا ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک طاقتور اور پُر اثر نعرہ ہے۔ اس نعرے سے سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کا خون جوش مارنے لگتا ہے۔ اس نعرے سے ایک سماں بندھ جاتا ہے، جس کے سحر میں لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں۔
نعرے بھی شاعری کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کا تاثر قائم رکھنے کے لیے ان کا ایک مخصوص لب و لہجہ اور اسلوب ہوتا ہے۔ شاعری کی طرح اس میں بھی حرکات و سکنات، بحر اور وزن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ نعرے کا تاثر پیدا کرنے کے لیے اس کا دل سے لگانا اور دل سے جواب دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نعرہ مکمل اور با معنی ہو۔ مثال کے طور پر اگر آپ آزادی کا نعرہ لگائیں گے تو ساتھ میں یہ بھی بتانا پڑتا ہے کہ آپ کو کس سے آزادی چاہیے مثلاً ظلم سے آزادی، یا جبر سے آزادی‘ یا مہنگائی اور عدم مساوات سے آزادی وغیرہ بھی کہنا ضروری ہوتا ہے، تاکہ سننے والوں کو سمجھ آئے کہ آپ آزادی کس سے مانگ رہے ہیں، اور کیوں مانگ رہے ہیں‘ لیکن اقتدار سے رخصت ہونے والی جماعت کے جن لوگوں نے یہ نعرہ لگایا، انہوں نے یہ تو کہا کہ ہم چھین کے لیں گے آزادی، مگر یہ نہیں بتایا کہ یہ کس سے چھین کر لیں گے۔
یہ صورت حال دیکھ کر اندیشہ ہوتا ہے کہ تبدیلی کے نعرے کی طرح یہ نعرہ بھی بے مقصد ہے‘ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ رومانس بھی ضائع ہو جائے جو اس نعرے کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ نعرہ ستر کے آخر اور اسی کی دھائی کے ابتدا میں پہلی بار متعارف ہوا، اور بڑے پیمانے پر نوجوانوں میں مقبول ہوا تھا؛ چنانچہ اس نعرے کے ساتھ بہت لوگوں کا رومانس اور یادیں ہیں۔ یہ نعرہ آہستہ آہستہ وہاں سے نکل کر پورے بر صغیر میں پھیل گیا۔ جو لوگ آج یہ نعرہ لگا رہے ہیں وہ یہ نہیں بتا رہے کہ وہ تبدیلی کس سے مانگ رہے ہیں۔
یہ وہی لوگ ہیں، جنہوں نے چند سال قبل تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا، اور اس سے بھی زیادہ جوش و خروش سے لگایا تھا۔ اس وقت بھی بہت سارے لوگوں نے توجہ اس طرف دلائی تھی کہ تبدیلی کا نعرہ ایک سنجیدہ نعرہ ہے‘ اور یہ نعرہ لگانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ کیا تبدیلی چاہتے ہیں، اور کس چیز میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ اگر وہ صرف حکومت میں تبدیلی کے خواہش مند ہیں، محض چہرے بدلنا چاہتے ہیں، اور ایک پارٹی کو ہٹا کر دوسری پارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں، تو اس عمل کو اس نعرے کے تناظر میں تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔ محض حکومت بدلنے سے ایک شخص کی جگہ دوسرا شخص اور ایک پارٹی کی جگہ دوسری پارٹی آ جاتی ہے، مگر اس سے ملک کے اندر اور عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی؛ چنانچہ یہ ایک گمراہ کن نعرہ بن جاتا ہے، جو عوام کو خواب دیکھنے کی دعوت تو ضرور دیتا ہے، مگر عملی طور پر ان کی زندگی میں کسی قسم کی تبدیلی سے قاصر ہوتا ہے۔ اس طرح کے نعروں سے وقتی طور پر لوگ بہل کر یا جذبات میں آ کر آپ کی حمایت تو کر سکتے ہیں، لیکن زیادہ عرصہ تک آپ کے ساتھ کھڑے نہیں رہ سکتے۔ ایک خاص وقت گزرنے کے بعد وہ مایوس ہو جاتے ہیں، یہ ایک ناگزیر صورت ہوتی ہے، جس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں دیکھنے کو ملا۔
یہ خدشہ اپنی جگہ، مگر یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں آزادی کی بہت گنجائش اور ٹھوس جواز موجود ہیں‘ لیکن یہ آزادی کس طرح لینی ہے، اس بات کا انحصار آزادی مانگنے والی پارٹی کے نظریات اور طریقہ سیاست پر ہے۔ اگر پارٹی انقلابی سیاست پر یقین رکھتی ہے تو ایک بھرپور نعرہ اس کے لیے پسندیدہ ٹھہرے گا۔ نسبتاً کم انقلابی اور اصلاح پسند پارٹیاں اس سے نرم نعرے کو ترجیح دیں گی، لیکن آپ جو بھی راستہ اختیار کریں پاکستان کے سماج میں آزادیوں کی ضرورت موجود ہے کہ یہاں بہت سی سماجی پابندیاں ۔ اس نقطہ نظر سے اس نعرے کی اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ہمارے ہاں آزادیوں پر کئی قدغنیں ہیں، اور اس کے لیے ایک طویل لڑائی کی ضرورت ہے۔ آزادی کے مطالبے کا آغاز معاشی آزادی سے کیا جا سکتا ہے۔ معاشی آزادی کے دو پہلو ہیں۔ پہلا خارجی پہلو ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی ملک یا ریاست اپنے آپ کو بین الاقوامی معاشی زنجیروں سے آزاد کروا کر خود کفالتی پر مبنی معاشی نظام قائم نہیں کر لیتی اس وقت تک اس قوم یا ریاست کو مکمل خود مختار یا آزاد ریاست نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس طرح کی معاشی آزادی کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے۔
عالمی سامراجی اور مالیاتی نظام سے آزادی کا تصور تیسری دنیا کے کئی ممالک میں ایک مقدس جدوجہد اور عظیم کاز کے طور پر اپنایا گیا، جس کو کہیں معاشی انقلاب اور کہیں خود مختاری کا نام دیا گیا؛ چنانچہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے، جو دنیا میں معاشی انقلابوں اور انقلابی جدوجہد سے جڑی ہے۔ اس جدوجہد کا نقطہ ماسکہ تیسری دنیا کے غریب ممالک کو عالمی سامراجی زنجیروں، قرضوں، معاشی لوٹ کھسوٹ اور غیر منصفانہ تجارتی اور معاشی رشتوں سے نکالنا رہا ہے؛ چنانچہ اس تناظر میں پاکستان میں معاشی آزادی کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان کو بطور ریاست غیر ملکی ریاستی دبائو اور مالیاتی اداروں کی لوٹ کھسوٹ سے آزاد کرایا جائے، جن کو ہمارے حکمران طبقات مجبوریاں کہتے ہیں۔ اسی طرح داخلی محاذ پر معاشی آزادی سے مراد بھوک ننگ، غربت اور بیروزگاری سے آزادی ہے۔ طبقاتی لوٹ کھسوٹ اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے آزادی ہے۔ اسی طرح داخلی سطح پر معاشی آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی آزادی کی ضرورت ہے تاکہ آگے بڑھنے کے جوہر کھل کر سام آ سکیں اور افراد کے ساتھ ملک اور معاشرے کو مستفید کر سکیں۔
سماجی پسماندگی اور سماجی جبر سے آزادی مانگ کر سماجی انصاف پر مبنی سماج کا قیام بھی آزادی کی جدوجہد کا ایک بنیادی نکتہ ہے۔ ظلم، جبر اور نا انصافی سے پاک سماج کے قیام کا مطلب ایک ایسا سماج ہے، جس میں ہر شخص کو سماجی و معاشی انصاف میسر ہو۔ سماج میں سوچ و فکر کی آزادی ہو۔ ذرائع ابلاغ آزاد ہوں۔ سماج میں ہر شخص کو اپنی بات کہنے اور سننے کی آزادی میسر ہو۔ بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کو ناصرف قانونی اور آہنی تحفظ حاصل ہو، بلکہ عملی طور پران چیزوں پر عمل کرنے کی ضمانت میسر ہو۔ اسی طرح پاکستان میں معاشی و سماجی آزادی کے لیے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی موجودگی میں نعروں کی گنجائش بھی موجود ہے‘ مگر ان نعروں کا حشر تبدیلی کے نعروں کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔ سیاست میں تبدیلی کا مطلب صرف نئے نعرے اپنانا نہیں ہوتا، بلکہ پرانے‘ ناکام اور تلخ تجربات کی روشنی میں ایک نئے وژن کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بغیر ہر نعرہ بیکار ہے، خواہ وہ کتنا انقلابی ہی کیوں نہ ہو۔