وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعظم عمران خان کا اصرار بڑھتا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت کے خاتمے کی وجہ امریکی سازش یا مداخلت ہے۔ ان کے ہزاروں پیروکار ان کی اس بات کا یقین کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں، جو اس کو ایک بے بنیاد الزام قرار دے رہے ہیں۔ خود امریکہ اور پاکستان‘ دونوں کی ہیئت مقتدرہ اس کی تردید کر چکے ہیں‘ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ امریکہ دوسرے ممالک میں ''رجیم چینج‘‘ کے لیے مداخلت یا سازش نہیں کرتا۔
امریکہ کی طرف سے دوسرے ممالک میں مداخلت کی تاریخ پرانی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں امریکہ کی فوجی اور سیاسی مداخلت کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک‘ سرد جنگ سے قبل کا دور جو طویل عرصے پر محیط ہے۔ یہ دور اٹھارہ سو تیئس سے شروع ہو کر انیس سو چونتیس تک چلتا ہے۔ دوسرا‘ سرد جنگ کا دور، جو دوسری جنگ عظیم سے شروع ہو کر نوے کی دہائی تک جاتا ہے۔ اور تیسرا‘ سرد جنگ کے بعد کا دور، جو ہمارا دور ہے، اور اس وقت چل رہا ہے۔ دو سو سال قبل، دو دسمبر اٹھارہ سو تئیس کو امریکی صدر جیمز مینرو نے امریکہ کی فارن پالیسی پر ایک اہم اعلامیہ جاری کیا تھا۔ یہ اعلامیہ ''مینرو ڈاکٹرائن‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ وہ وقت تھا، جب براعظم امریکہ میں تمام ہسپانوی نوآبادیاں یا تو آزاد ہو چکی تھیں، یا پھر آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف تھیں۔ اس وقت صدر جیمز مینرو نے اعلان کیا کہ آج کے بعد براعظم امریکہ کے کسی ملک میں یورپی مداخلت کو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ تصور کیا جائے گا۔ معتبر تاریخ دانوں کے خیال میں اس ڈاکٹرائن کا مقصد تو یورپ کی امریکہ میں نوآبادیاتی مداخلت کو روکنا تھا، لیکن عمل کی دنیا میں اس ڈاکٹرائن کی وجہ سے ہی امریکہ کی خارجہ پالیسی میں دوسرے ممالک میں مداخلت کا جارحانہ عنصر داخل ہوا، جو لاطینی امریکہ سے نکل کر پوری دنیا تک پھیل گیا۔
مشہور تاریخ دان جے سیکسٹن نے لکھا ہے کہ اس ڈاکٹرائن کے عملی اطلاق کے لیے امریکہ نے وہی انداز اور طریقے اپنائے جو سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں یورپی نوآباد کاروں نے اختیار کیے تھے۔ امریکی تاریخ دان ولیم ایپل مین نے اس پالیسی کو امریکی سامراجیت کی ابتدا قرار دیا، جو ''امپیریل کالونیل ازم‘‘ کی ایک شکل ہے۔ نوم چومسکی کے مطابق امریکی حکومتوں کی طرف سے اس ڈاکٹرائن کو مختلف ریاستوں میں مداخلت کا حق سمجھ کر استعمال کیا گیا۔ اس سوچ کے زیر اثر اٹھارہ سو اٹھانوے میں ہسپانوی سول وار کے خاتمے سے لے کر انیس سو چونتیس کے درمیانی عرصہ میں امریکہ کی طرف سے لاطینی امریکہ اور کریبین ریاستوں میں فوجی کارروائیوں، پولیس ایکشن اور سیاسی مداخلت کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہا۔
اٹھارہ سو اٹھانوے میں ٹریٹی آف پیرس کے بعد امریکہ نے کیوبا، پورٹوریکا، اور فلپائن سے سپین کو نکالنے کے لیے ان ممالک میں اپنی فوجیں داخل کیں۔ اس کے علاوہ پانامہ، ہنڈراس، نکاراگوا، میکسیکو، ڈومینیکن ریپلک میں فوجی مداخلت کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں نئی صف بندیاں ہوئیں، اور سرد جنگ کا آغاز ہوا مگر امریکہ نے اس بدلتی ہوئی صورتحال میں بھی مینرو ڈاکٹرائن میں تھوڑی بہت تبدیلی کے بعد اسے جاری رکھا۔ لاطینی امریکہ میں اس کا واضح اطلاق کیوبا پر ہوا۔ کیوبا نے انیس سو تریپن کے انقلاب کے بعد سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے۔ اس پر امریکی پالیسی سازوں نے یہ پوزیشن لی کہ کیوبا میں سوویت مداخلت اور اشتراکیت کو روکنے کے لیے مینرو ڈاکٹرائن کا استعمال کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ کیوبا کی اندرونی سیاست میں مداخلت، باغیوں کی امداد، ان کو پناہ دینے اور سیاسی مخالفین کی سیاسی و معاشی مدد کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ کی دیگر ریاستوں کو کمیونزم سے بچانے کے بہانے ان میں کھلی فوجی اور سیاسی مداخلت کی گئی۔ اس کی ایک مشہور مثال آپریشن کنڈور تھا۔ یہ امریکہ کی مدد سے سیاسی مخالفین پر ریاستی جبر اور تشدد کی مہم تھی، جس میں سیاسی مخالفین کو قتل کیا جاتا تھا۔
یہ آپریشن نومبر انیس سو پچھتر میں جنوبی امریکہ کی دائیں بازو کی آمریتوں کی طرف سے شروع کیا گیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آپریشن کنڈور کے دوران ساٹھ ہزار لوگوں کو قتل کیا گیا۔ تیس ہزار لوگ غائب کر دئیے گئے اور تقریباً چار لاکھ لوگوں کو پابند سلاسل کیا گیا۔ جن لوگوں نے بھاگ کر دوسرے ممالک میں پناہ لی، ان کو اغوا کر کے واپس اپنے ملکوں کو دیا گیا، جہاں ان کو تشدد کے ذریعے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ اس مہم کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے انقلابی تھے، مگر ان میں کسان رہنما، پادری، طلبہ اور اساتذہ بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ یہ آپریشن ارجنٹینا، چلی، یوراگوئے، پیراگوئے، بولیویا، برازیل، ایکواڈور اور پیرو تک پھیلایا گیا۔ میکشری پیٹرس نے اپنی کتاب ''شکاری ریاستیں، آپریشن کنڈور اور لاطینی امریکہ میں خفیہ جنگ‘‘ میں لکھا ہے کہ امریکہ نے اس ساری جنگ کی منصوبہ بندی کی، اور تشدد کے لیے مقامی فورسز کو تربیت فراہم کی۔ یہ کتاب سی آئی اے کے ریکارڈ میں موجود دستاویزات کی بنیاد پر لکھی گئی۔
سرد جنگ کے دوران کیے گئے اس آپریشن کی تفصیلات جنرل رابرٹ ڈبلیو پوٹر نے بھی اپنی کتاب میں فراہم کی ہیں۔ اس آپریشن کے دوران انیس سو پچھتر سے لے کر انیس سو پچاسی تک جو لوگ مارے گئے، غائب کر دیے گئے، یا جیلوں میں ڈالے گئے، ان کی تفصیلات کئی کتابوں اور سرکاری دستاویزات میں محفوظ ہیں۔ آپریشن کنڈور تو محض ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا، دوسری درجنوں ریاستوں میں اس طرح کی امریکی مداخلت یا حکومت میں تبدیلی کی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ صدر اوبامہ کے دور میں ان کے سیکرٹری آف سٹیٹ جان کیری نے اعلان کیا تھا کہ مینرو ڈاکٹرائن کا دور ختم ہو چکا ہے‘ لیکن اس کے چند سال بعد دو ہزار سترہ میں صدر ٹرمپ نے مینرو ڈاکٹرائن کے تحت وینزویلا میں فوجی مداخلت کی بات اس بنا پر کی کہ سی آئی کے ڈائریکٹر نے کہا کہ وہاں ایران اور روس کی مداخلت ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے دو ہزار اٹھارہ میں اقوم متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مینرو ڈاکٹرائن پر عمل کا عزم دہرایا۔ کارنیج میلو یونیورسٹی کی دو ہزار سولہ کی ایک رپورٹ کے مطابق انیس سو چھیالیس سے لے کر دو ہزار تک امریکہ نے دنیا کے اکیاسی ممالک میں انتخابات میں خفیہ مداخلت کی۔ دی ہینڈ بک آف اکنامکس میں دو ہزار اکیس کے ایک تجزیے کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی ریاستوں میں مداخلت اور رجیم چینج کے کئی واقعات ہوئے۔ ان حالات میں کسی بھی ملک میں امریکی مداخلت یا رجیم چینج کے لیے سازش یا مداخلت کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے‘ لیکن اس کے لیے یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ جس حکومت کے خلاف اس طرح کا عمل کیا گیا ہے، کیا وہ امریکی مفادات کے لیے کوئی سنجیدہ چیلنج تھی؟ یا اس نے کوئی ایسا انقلابی عمل کیا تھا، جو امریکہ کی عالمی بالا دستی کے راستے میں رکاوٹ بن سکتا تھا، جس کو دور کرنے کے لیے امریکہ کے لیے رجیم چینج کا انتہائی قدم اٹھانا ناگزیر ہو گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے تعاون سے پاکستان میں نیو لبرل ازم کی پالیسیوں پر گامزن ایک حکومت امریکہ کے لیے کیا خطرہ تھی، جس کی تبدیلی کے لیے سازش ضروری تھی۔