سمندر پار پاکستانیوں سے سابق وزیر اعظم کے وڈیو خطاب کا نقطہ ماسکہ یہ تھا کہ ''حقیقی آزادی‘‘ کے خواب کی تکمیل کے لیے ان کا دوبارہ اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ اس آزادی کے دو پہلو ہیں: خارجی اور داخلی۔ خارجی پہلو ''امریکی بالا دستی‘‘ سے آزاد ہونا ہے۔ امریکہ کے باب میں انہوں نے دو چیزوں کی وضاحت کی ہے۔ ایک یہ کہ امریکہ دنیا میں جن حکومتوں کو ناپسند کرتا ہے، ان کے خاتمے کے لیے سازش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایران کے صدر مصدق کی مثال دی، اور اس مثال کا اپنی صورت حال سے تقابل کیا۔
پچاس کی دہائی کے ایران میں امریکہ نے وہاں تبدیلی کے لیے میڈیا خریدا۔ اس میڈیا کے ذریعے صدر مصدق کو غیر مقبول بنوایا۔ پھر ایران کے اندر میر جعفر اور میر صادق پیدا کیے‘ اور بالآخر انیس سو تریپن میں صدر مصدق کا تختہ الٹ دیا۔ ان کے خیال میں پاکستان میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔ پاکستان میں بھی ان کے خلاف میڈیا کو خریدا گیا۔ ان کی صفوں میں میر جعفر و صادق پیدا کیے گئے اور اس طرح ان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ ان کے خیال میں ایسا امریکہ نے اس لیے کیا کہ ماضی کے حکمرانوں کی روایات کے برعکس انہوں نے امریکہ کے مفادات کو نظر انداز کیا، اور ایک خود مختار پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ خود مختار پالیسی تین بڑے مسائل کے تناظر میں تھی۔ پہلا‘ افغانستان اور دہشتگردی کی جنگ کا مسئلہ تھا۔ دوسرا‘ روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور نسبتاً سستے داموں روسی گندم اور تیل خریدنے کی خواہش یا کوشش تھی۔ اور تیسرا‘ چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے ساتھ پاکستان کے قریبی تعلقات کا تناظر تھا۔
ماضی کے حکمرانوں کی روایت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے جنرل مشرف کی مثال دی، جنہوں نے بقول ان کے ایک ٹیلی فون کال پر امریکی احکامات مان لیے تھے‘ مگر اس باب میں محض صدر مشرف کی مثال دینے سے پاک امریکہ تعلقات کے اس پہلو کی پوری عکاسی نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ کے کہنے پر جو اقدامات کیے، وہ جنرل مشرف سے زیادہ سنجیدہ تھے، اور ان کے کہیں زیادہ سنگین نتائج تھے، جن کی وجہ سے پاکستان عالمی سامراجی لڑائی میں شامل ہوا؛ چنانچہ یہ کہانی اگر جنرل مشرف سے شروع کی جائے تو اس المناک کہانی سے انصاف نہیں ہو سکتا، بلکہ ایسا کرنے سے اس کہانی کے اہم ترین کرداروں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا کیے بغیر بری کرنے اور بے گناہ قرار دینے والی بات ہے‘ لہٰذا یہ بات تاریخ کے اس مقام سے شروع کرنا زیادہ مناسب ہوگا، جب حکمرانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دو سپر پاورز کے درمیان سرد جنگ میں پاکستان امریکی بلاک کا حصہ بنے گا‘ اور دنیا کی اس سیاسی تقسیم میں اس حد تک جائے گا کہ امریکی اور مغربی بلاک کے لیے ''فٹ سولجر‘‘ یعنی پیادے کا کردار ادا کرنے پر بھی تیار ہو جائے گا‘ اور سوشلزم کے خلاف مغربی لڑائی میں اگلے مورچوں پر لڑے گا۔
بغداد پیکٹ، سیٹو اور سینٹو کوئی سوشل کلب نہیں تھے، بلکہ امریکی ایما پر کھڑے کیے گیے فوجی اتحاد تھے، جن کا بنیادی مقصد سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ جن حکمرانوں نے ان اتحادوں میں شامل ہونے اور سرگرم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا‘ ان کو کہانی میں شامل کیے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ اگرچہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ فوجی اتحاد کا معاہدہ انیس سو چوّن میں ہوا، جب محمد علی بوگرہ وزیر اعظم کی کرسی پر فائز تھے‘ اور انیس سو پچپن میں پاکستان بغداد پیکٹ جیسے فوجی معاہدے کا حصہ بنا، لیکن پاکستان کی امریکہ نواز پالیسی میں لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہد سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر، ملک فیروز خان نون جیسے لوگوں کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا؛ اگرچہ ان میں سے اکثر کا عرصہ اقتدار اور اختیار اتنا محدود تھا کہ ان کو شک کا فائدہ دیا جا سکتا ہے۔
اگرچہ جولائی انیس سو اٹھاون میں پاکستانی وزیر اعظم ملک فیروز خان نون امریکی صدر آئزن ہاور کے کہنے پر امریکہ کو پاکستان کی سرزمین سے سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے یو ٹو جاسوس طیارے اڑانے کے لیے جگہ فراہم کرنے پر رضا مندی ظاہر کر چکے تھے، لیکن اس سلسلے کو آگے بڑھانے میں بڑا کردار ایوب خان کا ہے۔ صدر ایوب خان نے امریکی مفادات اور منشا کو کچھ اس طرح اپنے ذاتی مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کر لیا تھا کہ امریکہ کو بسا اوقات ڈکٹیشن کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔
ایوب خان نے روس اور چین کے خلاف امریکی جاسوسی کے لیے پشاور میں اڈے دینے کے علاوہ کمیونزم دشمنی کی آڑ میں پاکستانی عوام کی جو نظریاتی لام بندی کی اس سے خود امریکی حیران اور متاثر تھے، اور کھلے عام ایوب خان کے اس کردار کی تعریف کرتے تھے؛ اگرچہ ایوب خان نے بڑی چابکدستی سے اپنی آمرانہ حکومت کی طوالت اور بقا کو ان پالیسیوں کے ساتھ مشروط کر رکھا تھا‘ لیکن اس سے بھی بڑا کردار ضیاالحق نے ادا کیا، جن کا ذکر کیے بغیر یہ کہانی ادھوری ہے۔ سابق وزیر اعظم نے یہ ذکر ضرور کیا، لیکن بہت سرسری انداز میں حالانکہ پاکستان کے موجودہ بیشتر مسائل کی ابتدا ہی وہاں سے ہوتی ہے، جب ضیاالحق نے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے نام پر امریکی لڑائی لڑنے کا اعلان کیا، اور مذہب کے نام پر ملک کو اس جنگ میں جھونک دیا۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شمولیت کا فیصلہ مشرف کا تھا، لیکن اس تباہی اور بربادی کا آغاز انیس سو اناسی میں ہو چکا تھا، جب ضیاالحق نے امریکی لڑائی لڑنے کی ہامی بھری تھی۔
سابق وزیر اعظم نے حقیقی آزادی کا دوسرا محاذ داخلی قرار دیا، جہاں ان کے خیال میں ایسے بدعنوان لوگوں کو بطور حکمران مسلط کر دیا گیا ہے، جن کو ان کے خیال میں جیلوں میں ہونا چاہیے تھا۔ ان کی اس بات سے اختلاف کی بہت کم گنجائش ہے کہ اگر ان کی حکومت کو ہٹا ہی دیا گیا تھا تو کچھ ایسے لوگوں کو لایا جاتا، جن پر بدعنوانی کے الزامات نہ ہوتے اور ان کے پاس کوئی نیا ایجنڈا ہوتا۔ ظاہر یہ ایک مثالی صورت ہوتی‘ لیکن بدقسمتی سے جس طرح عمران خان کا خیال ہے کہ پاکستان کی بھلائی و بہتری کے لیے ان کا اقتدار میں ہونا نا گزیر ہے، اور پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے لیے ان کا کوئی متبادل نہیں ہے‘ اسی طرح موجودہ حکمران اشرافیہ کا بھی یہی خیال ہے کہ پاکستان میں ان کے خاندان سے بہتر کوئی حکمرانی کا حق دار نہیں۔ اسی خیال کے زیرِ اثر جس طرح اقتدار ایک ہی خاندان میں بانٹا گیا، یہ پاکستان کا ایک بہت بڑا المیہ ہے، جو پاکستان کے عوام کیلئے لمحۂ فکریہ ہے‘ لیکن عوام بھوکے پیاسے رہنے کو تو گوارا کر لیتے ہیں، مگر اپنے حکمرانوں کے بارے میں اس انداز میں غوروفکر کی زحمت نہیں کرتے، اور نہ ہی ان کی اس طرح کی حرکات پر سوال اٹھاتے ہیں۔
جمہوریت میں حق حکمرانی عوام کو حاصل ہے، مگر عملی طور پر عوام اس بندوبست میں کہیں نظر نہیں آتے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی ایسی قوت نہیں جو عوام کے حق حکمرانی کے لیے لڑ سکے۔ جو اس طرح کی سوچ رکھنے والے ہیں، وہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ وہ ہمہ وقت اپنی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بنا کر ان میں گروپنگ کرنے اور اس گروپنگ کو ختم کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور اس عمل میں ان کی زندگی کی شام ہو جاتی ہے۔