پاکستان میں سیاست جدید قبیلہ پرستی کی ایک شکل بن چکی ہے۔ یہاں سیاسی پارٹیاں‘ اب سیاسی پارٹیاں نہیں رہیںبلکہ جدید سیاسی قبائل کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ یہ ایک نئی اور مایوس کن صورتحال ہے‘ مگر اس کی خطرناکی کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہے۔ اس صورتحال کی گمبھیر تا کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جو نفسیاتی ساخت اور رویے بن چکے ہیں وہ کسی طرح بھی قدیم قبائلی نظام اور قبیلہ پرستی کی ساخت اور نفسیات سے مختلف نہیں ہیں۔ سیاسی ماحول اس حقیقت کا اظہار ہے کہ سیاسی جماعتوں کا وجود اپنے نظریات کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسری جماعتوں کی دشمنی اور نفرت پر قائم ہے۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قبائلی دور کی اجتماعی نفسیات میں فرد کی اپنے قبیلے کے ساتھ وابستگی اور وفا داری غیر مشروط ہوتی تھی۔ دوسرے قبائل کے ساتھ دوستی اور دشمنی کا راستہ جب ایک بار طے کر لیا جاتا تھا تو پھر قبیلے کے کسی فرد کے پاس اس سے اختلاف کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ دشمن قبیلے کے بارے میں دشمنی اور بے رحمی پر مبنی رویہ اپناتے وقت قبیلے کا کوئی فرد آزادانہ اور منصفانہ سوچ اپنانے کا حقدار نہیں ہوتا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں سچ ‘ جھوٹ‘ انصاف و نا انصافی‘ اور درست و غلط کے بارے میں سوچنے کا کوئی تصور نہیں تھا‘یعنی یہ امر طے شدہ تھا کہ دشمن قبیلہ کبھی سچ اور حق پر ہو ہی نہیں سکتا اور خدا صرف ہمارے ساتھ ہے‘ اُن کے ساتھ نہیں ہو سکتا‘ دشمن قبیلے میں کسی فکر و عمل میں اچھائی کے کسی پہلو کی موجودگی کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔ اس طرح دشمن قبائل کے ساتھ تعلق بھی اپنے قبیلے کے طے کردہ حقائق اور طے شدہ سچ کی روشنی میں قائم کیا جاتا تھا۔ کسی فرد کو اس قبائلی سچائی کی طے کردہ حدود سے باہر نکل کر سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ ارتقائی عمل میں قبیلہ پرستی کا یہ نظام کمزور ہوتا گیا‘ اور بہت سے خطوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کمزور ہو کر ٹوٹ گیا‘ مگر اس قدیم قبائلی نظام کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس نظام کے تحت جو ایک خاص قسم کی نفسیات اور سوچ پیدا ہوئی تھی‘ وہ ہمارے سماج سے مکمل طور پر ختم ہو گئی ہے۔ اس کے برعکس اس نفسیاتی ساخت نے کچھ نئی شکلیں اختیار کر لی ہیں؛ چنانچہ قبائلی تعصب اور برتری کی سوچ نے کچھ نئے رنگ اور روپ اختیار کر لیے ہیں۔ مثال کے طور پر جس قبیلے سے آپ کا تعلق ہے وہ ہر بات میں درست ہے والی سوچ تو موجود رہی لیکن اب اس نے نیا انداز اختیار کر لیا۔ حق اور سچائی پر اجارہ داری کی اس سوچ نے قدیم قبائل کی جگہ نئے سیاسی ‘ سماجی اور مذہبی گروہ پیدا کیے۔ ان گروہوں کی نفسیاتی ساخت اور سوچ اسی طرح کی تھی جو قدیم قبائل کی تھی۔ ایک ہی طرح سوچنے اور مشترکہ مفادات رکھنے والے لوگوں نے قبائل کی جگہ نئے سرے سے نئے نئے گروہوں کی شکل میں منظم ہونا شروع کر دیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گروہ اور فرقے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماجی تقاضوں‘ گروہی مفادات اور ضروریات کے پیش نظر سیاسی پارٹیوں کی شکل میں منظم ہو گئے۔ بظاہر ان سیاسی پارٹیوں کی بنیاد نظریات پر رکھنے کا دعویٰ کیا گیا‘ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ نظریات مختلف گروہوں کے مشترکہ طبقاتی مفادات کا اظہار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ دانشور سیاسی پارٹیوں اور نظریات کو بھی گروہی اور طبقاتی تعصب کی ایک جدید شکل قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک امریکی لکھاری نے سیاسی پارٹیوں کو جدید قبائل کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ ''سیاسی قبائل: گروہی نفسیات اور قوموں کا مقدر‘‘ نامی کتاب کی مصنفہ ایمی چوہا (Amy Chua)نے اس صورتحال کی ایک پیچیدہ اور خطرناک تصویر کشی کی ہے۔ اس کتاب پر بے شمار مباحثے ہوئے ہیں ‘ مگر بیشتر لوگوں نے اس کتاب میں پیش کئے گئے دلائل سے اتفاق ہی کیا ہے۔ اس مباحثے میں '' خفیہ قبائل ‘‘کی مصنفہ مریم جون ٹورس (Míriam Juan-Torres)نے بھی بڑی تفصیل سے حصہ لیا ہے۔ لوگ قبیلہ پرستی کی نفسیات کا شکار کیوں ہو رہے ہیں ؟یہ ایک اہم سوال ہے ‘ جس کا جواب پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہرِ بشریات لارنس روزن نے بھی دینے کی کوشش میں بہت کچھ لکھا ہے۔
ساری دنیا میں سیاسی پارٹیاں قبیلہ پرستی کی جدید شکل نہیں ہیں۔ خصوصاً مغرب کے کچھ ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں شاید یہ بات درست نہ ہو‘ لیکن اس حقیقت سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں قدیم قبائل کی طرح کا طرزِ فکر اور طرزِ عمل رکھتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی سیاست میں گروہی اور قبائلی تعصبات کی نفسیات غالب ہے۔ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے مابین سیاسی کشمکش یا تصادم کا موجودہ انداز اس بد قسمت صورتحال کا عکاس ہے۔ اقتدار میں آنے سے پہلے سیاست دان عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیںکہ آپ کی مخالف پارٹی جو کام بھی کر رہی ہے وہ غلط ہے‘ اور اس میں اچھائی کا کوئی پہلو ہی نہیں ہو سکتا‘نہ اس سلسلے میں کوئی دلیل سننے یا اس پر غور کرنے کی گنجائش ہے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد وہ وہی کام کرتے ہیںجو اُن کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ کام تھا۔ اس کے باوجود قبائلی نفسیات کے زیر اثر ان کے پیروکار ان کے اس طرزِ عمل پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔ عمران خان کا اقتدار میں آنے سے پہلے خطابت کا سارا زور اس بات پر تھا کہ پاکستان کے مسائل کی ایک سب سے بڑی وجہ بیرونی قرضے ہیںاور پاکستان کا سب سے بڑا المیہ ہی یہ رہا ہے کہ حکمران طبقات باہر سے قرض مانگ کر گزارہ کرتے رہے ہیں‘ لیکن خود اقتدار میں آ کر انہوں نے مختصر وقت میں قرض لینے کے نئے ریکارڈ قائم کئے۔ جو لوگ اس وقت حکومت میں بیٹھے ہوئے ہیں‘ کل تک ان کا واضح مؤقف یہ تھا کہ عمران خان نے ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا ہے‘ اور پاکستان میں مہنگائی کی وجہ یہ قرضے اور ان کی ناجائز شرائط ہیں‘ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے سب سے پہلے آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو لوگ کل تک آئی ایم ایف کے قرضوں کے خلاف تھے وہ انقلابی تھے یا سامراجی قرضوں کے مخالف تھے بلکہ وہ تعصب و تنگ نظری کا شکار تھے اور ان کے لیے مسئلہ آئی ایم ایف یا دیگر بیرونی قرضوں کی شرائط کا نہیں تھا‘مسئلہ یہ تھا کہ یہ کام ان کی مخالف پارٹی کر رہی ہے۔
اس قبائلی تعصب اور تنگ نظر پارٹی بازی کا شکار لوگ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان کے رہنما اقتدار سے باہر ہو کر جن پالیسیوں اور اقدامات کو ملک کے لیے زہریلا اور تباہ کن قرار دیتے ہیں‘ اقتدار میں آنے کے بعد وہ چپکے سے انہی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر وہی اقدامات شروع کر دیتے ہیںجو ان کے خیال میں تباہ کن تھے۔ اس طرح یہ لیڈر قبائلی نفسیات کا استعمال کرتے ہوئے عوام میں ایسی جنونی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر اتر آتے ہیں۔ یہ طرزِ سیاست اس وقت پاکستان میں رائج ہے۔ لوگ جمہوریت کو قبائلی جنگ سمجھ کر لڑ رہے ہیں۔ یہ صورت حال جمہوریت‘ جمہوری طرز زندگی اور‘ جمہوری ثقافت سے متصادم ہے۔