مہنگائی ان چند اہم چیزوں میں سے ایک ہے جو عوام کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔ افراطِ زر سے یقینا ہر طبقہ متاثر ہوتا ہے‘ لیکن نچلے طبقے کے افراد اور غریب عوام اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مہنگائی غربت زدہ خاندانوں پر بہت گہرے اور بسا اوقات ناقابلِ برداشت اثرات مرتب کرتی ہے۔ افراطِ زر ایک ایسا عمل ہے جس سے کوئی حکومت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ مہنگائی کی شرح اوپر نیچے ہونے سے حکمران اشرافیہ کی مقبولیت کا گراف بھی لازمی طور پر اوپر نیچے ہوتا ہے؛ چنانچہ مہنگائی بسا اوقات کسی حکومت کی صلاحیتوں اور عوام کے ساتھ اس کی ہمدردی کی ایک لٹمس ٹیسٹ بن جاتی ہے۔ پاکستان میں حکمران اشرافیہ کے لیے ایسا ہونا تو نا گزیر ہے کہ یہاں آبادی کی بہت بڑی تعداد خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت روٹی کپڑا ‘ مکان‘ علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے دن رات تگ و دو میں ہوتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیںجن کے لیے قیمتوں میں معمولی اضافہ ''بم شیل‘‘ سے کم نہیں ہوتا۔ پاکستان میں حکمران افراط ِزر میں اضافے کے حوالے سے طرح طرح کے بہانے بناتے ہیںاور اس کی براہ راست ذمہ داری قبول کرنے اور عوام سے سچ بولنے کے بجائے دوسرے راستے اختیار کرتے ہیں۔ اس میں اعداد و شمار میں ہیر پھیر سے لے کر مہنگائی کی ذمہ داری اگلی حکومتوں کے علاوہ عالمی حالات‘ قدرتی آفات اور دوسرے عوامل پر ڈال دیتے ہیں۔ حال ہی میں اقتدار سے رخصت ہونے والی حکومت نے بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا تھا۔ مہنگائی کے مسئلے پر پہلے تو انہوں یہ موقف اختیار کیا کہ مہنگائی ہے ہی نہیں اور پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے‘ لیکن جب مہنگائی کو لے کر عوام کی چیخ و پکار ذرائع ابلاغ کا پسند یدہ موضوع بن گیا تو اس موقف میں تبدیلی کرتے ہوئے یہ دلیل اپنا لی گئی کہ مہنگائی تو پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے ‘ اور نہ ہی مقامی طور پر اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہونے والے موجودہ حکمرانوں کا طرزِ عمل بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ وہ مہنگائی کی ساری ذمہ داری سابقہ حکومت پر ڈال کر اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کے بارے میں یہ عام مغالطہ ہے کہ مہنگائی ساری دنیا میں یکساں طور پر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس موضوع پر کئی دوسرے مغالطے موجود ہیںجو یا تو حکمران اشرافیہ نے جان بوجھ کر پھیلائے ہیںیا عوام خود ہی ان گمراہ کن نظریات کا شکار ہیں۔ مہنگائی خود بخود نہیں ہوتی۔ معاشی اصطلاح میں افراطِ زر وہ شرح ہے جس پر کسی ملک میں گڈز اور سروسز یعنی اشیااور خدمات کی عمومی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کا دارومدار میٹرکس پر ہوتا ہے۔ ایک غیر مستحکم میٹرکس میں افراطِ زر بڑھ سکتا ہے یا تیزی سے گر سکتا ہے۔ یہ سب ان اقتصادی حالات اور ان اقدامات پر منحصر ہے جو حکومت ان کو کنٹرول کرنے یا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے کرتی ہے۔ افراطِ زر طلب اور رسد کے معاشی اصولوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے اور اسے مخصوص صورت حال اور تبدیلی کی شرح کے لحاظ سے مثبت بھی ہو سکتا ہے‘ اور اسے منفی طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پرمہنگائی میں تھوڑے سے اضافے کو بعض حالات میں اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت بڑھ رہی ہے اور اس کے باشندوں کی مناسب آمدنی ہے اور ان کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو رہا ہے؛ تاہم اضافی افراط زر اس وقت ہوتا ہے جب قیمتیں اجرت سے زیادہ تیزی سے بڑھ جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے۔ کرنسی کی ایک اکائی جیسے روپیہ اورڈالر وغیرہ کی مالیت پہلے سے کم ہو جاتی ہے اور ملک کی کرنسی کی قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے۔ اس کے برعکس‘ بہت کم افراط زر بھی ایک پریشان کن اشارہ ہو سکتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت جمود کا شکار ہے ‘ ملک میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور کافی لوگوں کے پاس کام نہیں ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ افراطِ زر کی شرح کے ساتھ سرفہرست دس ممالک وینزویلا ‘سوڈان ‘ لبنان ‘شام ‘ سورینام ‘ زمبابوے ‘ ارجنٹائن‘ترکی‘ ایرن اورایتھوپیا ہیں۔
مہنگائی کی شرح کے ساتھ‘ جو حالیہ برسوں میں بہت زیادہ زیادہ بڑھ گئی ہے‘ وینزویلا دنیا میں سب سے زیادہ افراط ِزر کی شرح رکھتا ہے۔ بعض اوقات وینزویلا میں قیمتیں اتنی تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں کہ سٹورز سامان پر قیمتوں کے ٹیگ لگانا بند کر دیتے ہیں اور صارفین کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ ملازمین سے استفسار کریں کہ اس دن اشیا کی قیمت کیا ہے۔ بھاگتی ہوئی افراط زر کی اس سطح کو ''ہائپر انفلیشن‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک معاشی بحران جو عام طور پر حکومت کے زائد اخراجات‘ مثال کے طور پر جنگ کے نتیجے میں‘ حکومت کی تبدیلی یا سماجی اقتصادی حالات کے نتیجے میں ہوتا ہے‘ اس بحران کی وجہ سے ٹیکس ریونیو سے فنڈنگ کم ہوجاتی ہے اور حکمران اخراجات پورے کرنے کے لیے بڑی مقدار میں اضافی رقم چھاپتے ہیں۔وینزویلا کی معیشت کبھی جنوبی امریکہ کے لیے قابلِ رشک تھی۔ اس میں سوشلسٹ نظام بھی رہا ہے اور دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہونے کی وجہ سے فی کس بڑی دولت سے بھی نوازا گیا تھا؛ تاہم پٹرولیم کی آمدنی پر اس قدر زیادہ انحصار نے ملک کو خاص طور پر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار بنا دیا۔
سوڈان میں دوہزار بائیس کے آغاز میں افراطِ زر کی شرح 340 فیصد تھی جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سوڈان میں مہنگائی حالیہ برسوں میں بہت زیادہ بڑھی ہے جس کی وجہ خوراک‘ مشروبات اور امریکی ڈالر کی بلیک مارکیٹ ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اتنی خراب ہو گئی کہ اس نے احتجاج کو جنم دیا اور بالآخر اپریل 2019 ء میں صدر عمر البشیر کو معزول کر دیا گیا۔ سوڈان کے عبوری حکام کو اب برسوں کی بدانتظامی سے دوچار معیشت کا رخ موڑنے کا کام سونپا گیا ہے۔دوسری طرف دنیا میں سب سے کم افراطِ زر کی شرح والے ممالک میں اکثر منفی افراطِ زر کی شرح ہوتی ہے‘جسے ڈیفلیشن کہا جاتا ہے۔ اچانک افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ کسی ملک کے پیسے کی قدر میں اضافہ کرتا ہے جس سے زیادہ سامان اور خدمات اسی رقم کی کرنسی سے خریدی جا سکتی ہیں۔ افراط زر عام طور پر مخالف منظر نامے سے پیدا ہوتا ہے‘ دوسرے لفظوں میںجب اشیا اور خدمات کی فراہمی معیشت میں دستیاب رقم کی فراہمی سے آگے بڑھ جاتی ہے‘ جس کے نتیجے میں قیمتیں کم ہوتی ہیں جبکہ کرنسی کی سپلائی میں کمی اور کریڈٹ کی سپلائی میں کمی کی وجہ سے قوتِ خرید میں اضافہ ہونے پر بھی افراطِ زر واقع ہو سکتا ہے۔
اس وقت دنیا میں سب سے کم افراط زر کی شرح کے ساتھ سرفہرست دس ممالک میں روانڈا‘ چاڈ ‘ مالدیپ ‘ گیبون ‘ جاپان ‘ بحرین‘ فجی ‘ Vanuatu، بولیویا اور سعودی عرب جیسے ممالک شامل ہیں۔ پاکستان میں اپریل کے مہینے میں افراط زر کی شرح 13.4فیصد تک پہنچ چکی تھی یہ 2011 ء کے بعد مہنگائی کی سب سے بلند شرح ہے۔ اس بلند شرح کا تعلق عالمی منڈی سے بھی لازمی جڑتا ہے‘ مگر حکومتی اقدامات اور پالیسیاں بھی اس شرح کے اتار چڑھاؤ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں‘ جس سے حکمران اشرافیہ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے کر دامن نہیں بچا سکتی۔