آج کل یاسین ملک کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے جانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ باتیں کرنے والوں میں سرکاری شخصیات کے علاوہ غیر سرکاری شخصیات اور تنظیمیں بھی شامل ہیں۔قانون کے اس ادنیٰ طالب علم نے بین الاقو امی قانون کے چند جانے پہچانے ماہرین‘ جن میں چند ایک یونیورسٹی پروفیسرز بھی شامل ہیں‘ سے سوال کیا کہ عالمی عدالت کا دائرۂ اختیار کیا ہے؟ اور کیا یاسین ملک کا مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف میں اٹھایا جا سکتا ہے ؟ سب کا جواب ناں میں تھا۔ قانون کی دنیا سے منسلک لوگ جانتے ہیں کہ کسی بھی عدالت میں مقدمہ دائر کرنے سے پہلے اس بات کا تعین ضروری ہوتا ہے کہ کیا وہ مقدمہ اس عدالت کے دائرہ ٔاختیار میں آتا ہے یا نہیں۔ یہ ''جیورسڈکشن‘‘ کا سوال ہے۔ کسی بھی عدالت کا دائرہ اختیار‘ جس کو قانونی زبان میں '' جیورسڈکشن‘‘ کہا جاتا ہے‘ مقدمے کی سماعت کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اس جیورسڈکشن کے بغیر مقدمہ دائر ہو جائے تو عدالت اس مقدمے کو اپنے دائرۂ اختیار سے باہر قرار دے کر خارج کر دیتی ہے۔ ہر عدالت کی طرح عالمی عدالت انصاف کے لیے بھی کسی مقدمے کی سماعت سے پہلے اس بات کا تعین کرنا پڑتا ہے کہ وہ مقدمہ اس کے دائرۂ سماعت میں آتا ہے یا نہیں۔
قانون کے طالب علم جانتے ہیں کہ بنیادی طور پر اقوام متحدہ کے آرٹیکل 93 کے تحت اقوام متحدہ کے تمام اراکین خود بخود عالمی عدالتِ انصاف کے ممبر بن سکتے ہیںلیکن ممبر ہونے کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وہ ملک اس عدالتِ انصاف کے دائرہ سماعت میں بھی آ جاتا ہے یا عدالت خود بخود ممبر ریاستوں کے درمیان کسی تنازع کی سماعت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کا آرٹیکل 36 عدالت کی جیورسڈکشن کا تعین کرتا ہے‘ جس کے تحت عدالت کے دائرہ اختیار کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلی قسم دو ریاستوں کے درمیان متنازع مسائل پر عدالت کا دائرۂ اختیار یا سماعت ہے۔ اس طرح کے مقدمات میں عدالت کو صرف اس وقت اختیار حاصل ہوتا ہے جب دو ملک اپنے درمیان کسی تنازع کی صورت میں عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلانے اور اس کا فیصلہ ماننے پر اتفاق کرتے ہیں۔ یہ عدالت کے دائرہ سماعت اور اختیار کی پہلی شرط ہے۔ اگر ایک ممبر ریاست کوئی ایسا مقدمہ کسی دوسری ریاست کے خلاف دائر کرے ‘ جس کی سماعت کے لیے دوسری ریاست رضامندی نہ دے تو یہ معاملہ عدالت کے اختیار سے باہر ہے اور وہ اس کی سماعت نہیں کر سکتی۔
عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کرنے کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس طرح کے مقدمات میں صرف ریاست فریق ہو سکتی ہے۔ یعنی افراد‘ شخصیات‘ پارٹیاں ‘ گروپ اور این جی اوز وغیرہ عدالتِ انصاف میں مقدمہ دائر نہیں کر سکتے۔ البتہ افراد یا تنظیموں کے ایما پر ریاست مقدمہ دائر کر سکتی ہے‘ اور جس ریاست کے خلاف دائر کر رہی ہے اس کی رضامندی لازم ہے۔ یعنی تحریری طور پر دونوں فریق عدالت کو سماعت کا اختیار دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ فریقین عدالت کے فیصلے کو بھی بلا چون و چرا تسلیم کریں گے۔ عدالتی جیورسڈکشن یا دائرہ اختیار کا دوسرا طریقہ عالمی معاہدے ہیں‘ جن میں ایسی دفعات شامل ہوتی ہیں کہ فریقین تنازع کی صورت میں عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کریں گے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایران میں امریکی یرغمالیوں کا مقدمہ عدالت انصاف میں دائر کر دیا تھا۔ دائرہ اختیار کے لیے اس نے و یانا کنونشن کا سہارا لیا تھا لیکن ایران نے دائرۂ سماعت ماننے سے انکار کر دیا۔ گویا کسی عالمی معاہدے کی دفعات کے باوجود ریاستوں کو اختیار ہے کہ وہ عالمی عدالت میں تنازع کی سماعت چاہتی ہیں یا نہیں۔ عالمی معاہدے کے اندر ایسی دفعات کے باوجود اگر ریاست رضامندی نہ دے تو عدالت دائرہ اختیار نہیں رکھتی۔ عام حالات میں دائرہ سماعت کی بنیاد وہ ڈیکلریشن ہے جو ریاستیں داخل کرتی ہیں‘ لیکن ریاستوں کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اس ڈیکلریشن کے باوجود سماعت پر رضامندی دینے سے انکار کر دیں۔ ا س کی ایک واضح مثال ''امریکہ بنام نکارا گوا یا‘‘ یا آسٹریلیا اور ایسٹ تیمور کے درمیان مقدمہ تھا۔ اگر ایک ریاست دوسری کے خلاف اس کی رضامندی کے بغیر مقدمہ دائر کرتی ہے تو دوسری ریاست کو اختیار حاصل ہے کہ وہ مقدمے کے شروع ہونے سے پہلے دائرہ اختیار کے سوال پر اعتراض کرے۔ اس صورت میں عدالت پابند ہے کہ وہ مزید کارروائی سے پہلے دائرہ اختیار کا فیصلہ کر لے۔ جیسا کہ ظاہر ہے دائرہ اختیار کے سوال پر ریاستوں کو مطلق اور لا محدود اختیارات حاصل ہیں اور عدالت ریاستوں کی واضح اور غیر مشروط رضامندی کی پابند ہے۔
عدالت انصاف کے ریکارڈ پر بے شمار ایسے مقدمات ہیں‘ جو صرف دائرہ اختیار اور سماعت کی بنیاد پر خارج کیے گئے ہیں۔ اس لیے اس عدالت کو دائرہ سماعت کی بنیاد پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عدالت کی آزادی اور خود مختاری پر بھی سوال اٹھایا جاتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ عالمی عدالت سکیو رٹی کونسل کے اراکین کے اثر و رسوخ اور اختیارات سے باہر نہیں ہے۔ سکیورٹی کونسل کے اراکین عدالت کے ان فیصلوں کے خلاف بھی ویٹو کا استعمال کر سکتے ہیں‘ جو عدالت نے فریقین کی رضامندی سے طے کیے ہوں۔ اس کی مثال بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ بنام نکارا گوا مقدمہ ہی ہے۔ ان حالات میں جو لوگ بار بار یاسین ملک کا مقدمہ عدالت انصاف میں لے جانے کی بات کرتے ہیں‘ ان کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کام صرف پاکستان بطور ریاست کر سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے بھارت کی رضامندی بھی ضروری ہے‘ جو ظاہر ہے بھارت نہیں دے گا‘ یعنی دوسرے الفاظ میں ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
یاسین ملک کا معاملہ تنازع کشمیر کے ساتھ جڑا ہے اور تنازع کشمیر کے حوالے سے ہمارے ہاں جعلی‘ خوش کن اور گمراہ کن دعووں کی ایک طویل روایت رہی ہے۔ ان میں سے بیشتر دعوے اور وعدے بے بنیاد اور ناقابل عمل ہیں‘ جو صرف عوام کی سادگی سے سیاسی فوائد اٹھانے کے لیے کیے جاتے رہے ہیں۔ یاسین ملک کے حوالے سے قانونی طور پر صرف دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ بھارت کی اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے ذریعے ان کی سزا میں کچھ تخفیف ہو سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارتی صدر کے پاس سزا میں تخفیف یا معافی کا اختیار ہے‘ جو کسی بڑے سیاسی دبا ؤیا ''بارگیننگ‘‘ کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہ اتنا بڑا ٹا سک ہے‘ جس کے لیے مختلف کشمیری گروہوں میں اتحاد ضروری ہے‘ لیکن بری طرح تقسیم کشمیری گروہوں میں اتحاد اس سے بھی بڑا اور مشکل ٹا سک ہے۔ یاسین ملک اور مسئلہ کشمیر پر پوائنٹ سکو رنگ کے بجائے اب وقت آگیا ہے کہ کشمیری عوام سے پورا سچ بولا جائے اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ مسئلہ کشمیر اور اس سے جڑے مسائل پر ہم قانونی اور سیاسی طور پر کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔ اور ان حقائق کی روشنی میں خوش کن خوابوں ‘جھوٹے اور گمراہ کن دعووں کے بجائے باہم متحد ہو کر جدوجہد کے ٹھوس راستوں اور سمتوں کا تعین کیا جائے‘ جو عوام کے بیچ سے ہو کر ہی گزرتے ہیں۔ عوام کا حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت صرف عوام کے ذریعے ہی ممکن ہے‘ یہ کام کوئی عدالت نہیں کر سکتی۔