پاکستان میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا سوال بڑا پیچیدہ ہے۔ اس باب میں صرف انسانی حقوق کے علم برداروں اور صحافیوں کو ہی شکایات نہیں بلکہ بسا اوقات خود وہ لوگ بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں جو مقبول سیاست دان ہیں اور ان کا شمار حکمران اشرافیہ میں ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خود بر سر اقتدار ہوتے ہیںتو ان کو پاکستان دنیا کا آزاد ترین ملک نظر آتا ہے‘ جس میں ہر شخص کو اظہارِ رائے سمیت تمام بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں کا تو اپنے دور حکومت میں یہ دعویٰ رہتا ہے کہ پاکستان میں پریس کو یورپ اور امریکہ سے زیادہ آزادی اور یہاں کے رہنے والے لوگوں کو مغربی ممالک سے زیادہ انسانی حقوق حاصل ہیں‘لیکن اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد ان کو صورتحال اس کے برعکس دکھائی دینے لگتی ہے۔ اقتدار سے باہر آ کر ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر سخت قدغن ہے‘ اکثر صحافی جانبدار یا بکے ہوئے ہیں اور حکمران جابر اور ظالم ہیں اور اپنے آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے ان کو سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں حالیہ لانگ مارچ اور اس دوران رونما ہونے والے واقعات ایک دلچسپ کیس ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے جب اس پارٹی کی حکومت کے خلاف حزب مخالف جلسے اور دھرنے کر رہی تھی تو اس وقت ان کا لب و لہجہ مختلف تھا‘ وہ ان کو اظہار ِرائے کی حدود و قیود پر لیکچر دیتے تھے اور انسانی حقوق اور اظہارِ رائے جیسی آزادیوں کے سوال پر ان کے جوابات لگ بھگ وہی تھے جو آج کی حکومت کے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں سے ہو کر حکمران اشرافیہ کو اپنے سب سیاسی مخالفین شر پسند ‘ غیر محب وطن اور تخریب کار لگنے لگتے ہیں۔ یہ صورت حال اس بات کی عکاس ہے کہ پاکستان کا آئین تحریری طور پر شہریوں کو اظہارِ رائے سمیت تمام انسانی حقوق کی ضمانت تو دیتا ہے لیکن عملی طور پر حکمران طبقات کا طرزِ عمل بالکل مختلف ہوتا ہے اور سیاسی پارٹیوں اور سیاسی رہنماؤں کے لیے عوامی حمایت اور طاقت حاصل کرنے کے باوجود حکومتِ وقت سے آئین میں دیے گئے حقوق حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جن طبقات کی پشت پر عوام کا جم غفیر اور سیاسی طاقت نہیں ہے‘ ان کو اپنے آئینی حقوق کے حصول کے لیے کس طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا مسئلہ صرف سیاست کاروں اور پریس والوں کو ہی درپیش نہیں ہے‘ اس باب میں پاکستان کی اکیڈیمیا کہیں زیادہ مشکلات کا شکار ہے ۔ پاکستان کا آئین دوسرے شہریوں کی طرح اساتذہ کو بھی اظہارِ رائے کی برابر ضمانت دیتا ہے لیکن عملی طور پر اس شعبے میں صورت حال نا گفتہ بہ ہے۔ کسی چینی نقاد نے کہا تھا کہ ہم چین میں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی کی گارنٹی تو دے سکتے ہیںمگر بات کہنے کے بعد اس کی جان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ پاکستان کے ماحول میں یہ بات اساتذہ پر صادق آتی ہے۔ اساتذہ کرام رائے کا اظہار کریں تو ان کی ملازمت کی کوئی ضمانت نہیں رہتی۔ گزشتہ چند برسوں میں چند نامور پروفیسر اس قسم کی صورتحال سے گزر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں جو ماحول ہے‘ وہ شاید سو سال پہلے مغرب کے کچھ ملکوں میں رائج تھا جہاں ایسے افراد منتخب ہو کر آتے تھے جن کی اپنی تعلیم واجبی یا نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی اور وہ اساتذہ کو بتاتے تھے کہ یونیورسٹی اور کالج میں کیا پڑھانا چاہیے اور کیا نہیں‘ اور اس سلسلے میں قانون سازی کرتے تھے۔ اس قانون سازی کی وجہ سے دلچسپ واقعات پیش آتے تھے‘ جن کو آج نصاب میں پڑھایا جاتا ہے اور امریکہ کی نئی نسل ان کو حیرت و افسوس سے پڑھتی ہے۔ اس طرح کا ایک دلچسپ واقعہ جولائی 1925ء میں رونما ہوا۔ جان ٹی سکوپ امریکی ریاست ٹینیسی میں ہائی سکول ٹیچر تھا۔ سکوپ پر الزام لگایا گیا کہ اس نے سکول کے بچوں کو ارتقا کی تھیوری پڑھائی ہے۔ اس مقدمے کا پس منظر ریاست ٹینیسی کا ایک قانون تھا‘ جسے ''بٹلر ایکٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ قانون سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو انسان کے ارتقا کے بارے میں مروجہ بیانیے سے انکار کرنے سے منع کرتا تھا۔ یہ اس مروجہ کہانی کے مقابلے میں انسانی ارتقا کا کوئی نیا سائنسی یا عقلی نظریہ پڑھانے سے بھی منع کرتا تھا۔ یہ قانون ٹینیسی کی مجلسِ ایوان نمائندگان کے ممبر جان واشنگٹن بٹلر نے پیش کیا تھا جس کی وجہ سے یہ قانون'' بٹلر ایکٹ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس ایکٹ کی عبارت یہ تھی کہ ریاست کے پبلک سکول یا کسی یونیورسٹی‘ جس میں سرکاری فنڈنگ ہوتی ہے‘ کے کسی استاد کے لیے یہ غیر قانونی ہو گا کہ وہ کوئی ایسی تھیوری پڑھائے جو انسانی تخلیق کے بارے میں بیان کردہ کہانی سے انکار کرتی ہو‘ یا کوئی ایسا نظریہ پڑھائے جس میں یہ بیان کیا گیا ہو کہ انسان کی موجودہ شکل ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس قانون میں خاص بات یہ تھی کہ انسان کے علاوہ یہ قانون جانوروں ‘ چرند پرند‘ کیڑوں مکوڑوں اور دوسری مخلوقات میں ارتقا کے نظریے کو پڑھانے سے نہیں روکتا تھا۔ یہاں تک کہ بندروں کے بارے میں ارتقا کی تھیوری پڑھانے پر بھی پابندی نہیں تھی‘ یعنی آپ ارتقا کا نظریہ تو پڑھا سکتے تھے‘ مگر اس میں انسان کا ذکر کرنے پر پابندی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ قانون لانے والا ممبر مسٹر بٹلر خود ایک کسان تھا‘ جو سائنس اور مذہب کے بارے میں واجبی سی معلومات رکھتا تھا۔ ایک رپورٹر کے سوال کے جواب میں اس نے بڑی دیانت داری سے تسلیم کیا کہ جس وقت میں نے یہ بل پیش کیا‘ میں ارتقا کے نظریے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ میں نے صرف اخبارات میں پڑھا تھا کہ لڑکے لڑکیاں سکول سے واپس آ کر والدین سے انسانی ارتقا کے بارے میں مروجہ نظریات کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ اس عوامی نمائندے نے اس سلسلے میں ولیم برائین کے لیکچر کی کاپی میں چار لس ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے بارے میں پڑھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ ارتقا کا نظریہ خطرناک ہے اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بل پیش کر دیا‘ جس کے نتیجے میں ''بٹلر ایکٹ‘‘ معرض وجود میں آیا‘ اور بالآخر اس ایکٹ کے تحت سکول ٹیچر کے خلاف مقدمہ قائم کر لیا گیا۔ اس مقدمے میں استغاثہ اور صفائی کے لیے ملک کے مشہور وکلا نے حصہ لیااور مشہور شخصیات پیش ہوئیں۔
اس مقدمے کو بے پناہ شہرت ملی۔ یہ امریکہ کی تاریخ کا پہلا مقدمہ تھا جو نیشنل ریڈیو پر براہ راست نشر ہوا اور پوری دنیا میں اسے شہرت حاصل ہوئی۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ قانون 1967ء تک ریاست ٹینیسی کی قانون کی کتابوں میں موجود رہا۔ 1967 ء میں ایک اور استاد گیری ایل سکاٹ کو ارتقا کا سائنسی نظریہ پڑھانے کے الزام میں معطل کیا گیا۔ سکاٹ نے آزادیٔ اظہارِ رائے اور امریکی آئین کی پہلی ترمیم کا سہارا لیتے ہوئے اپنی بحالی کی اپیل کر دی۔ اس اپیل کے فوراً بعد ریاست کی قانون ساز اسمبلی نے اس قانون کو ختم کرنے کا بل پاس کر لیا۔ پاکستان میں بھی امریکہ کی طرح پارلیمان اور عوام میں کئی ''بٹلرز‘‘ موجود ہیں‘ اور اکیڈ یمیا سمیت زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو آزادیٔ اظہارِ رائے اور شہری آزادیوں پر آئینی ضمانت کے باوجود عملی طور پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جس کاحل آئین میں موجود بنیادی حقوق اور شہری آزادیوں کا عملی نفاذ ہے۔