پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا منشور ہے۔ اس منشور کی بنیاد پر ہر جماعت اپنی الگ شناخت رکھتی ہے اور اپنے وجود کا جواز پیش کرتی ہے۔ اس اعتبار سے ان جماعتوں کا کوئی مشترکہ ایجنڈا نہیں‘ مگر ایک بات جس پر سب کا اتفاق ہے‘ وہ موجودہ نظام ہے‘ جسے عرفِ عام میں سرمایہ داری نظام یا نیو لبرل ازم کا نام دیا جاتا ہے۔ اس وقت حکمران اتحاد اور حزبِ مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے مابین کانٹے دار دشمنی چل رہی ہے مگر دونوں کے درمیان سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھنے اور اسی نظام کی حدود و قیود کے اندر رہ کر اصلاحِ احوال پر اتفاق ہے‘ جس کو بسا اوقات یہ لوگ تبدیلی کا نام بھی دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے بر عکس مغرب اور ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ صورتحال نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور نیو لبرل ازم کے بارے میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی سوچ میں بہت سی باتوں میں اتفاق کے باوجود ان کے نظریات میں نمایاں فرق ہے۔ یہاں تک کہ خود دائیں بازو کے اندر جو نیو لبرل ازم کا پر جوش پرچارک ہے‘ اس میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ہیئتِ ترکیبی اور شکل و صورت سے تھوڑا بہت اختلافِ رائے موجود ہے‘ جس کا اظہار وقتاً فوقتا ہوتا رہتا ہے۔ بائیں بازو کی عام دھارے کی پارٹیاں بھی اکثر روایتی سرمایہ داری کی جگہ سوشلسٹ معیشت یا جمہوری سوشلزم کی باتیں کرتی سنائی دیتی ہیں‘مگر پاکستان میں حیرت انگیز طور پر عام دھارے کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان سرمایہ داری نظام کے بارے میں اس حد تک اتفاق پایا جاتا ہے گویا یہ کوئی مقدس یا الہامی نظام ہو۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے تاریخی طور پر لمبے عرصے تک دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کے درمیان جنگ میں عالمی سرمایہ داری کیمپ کا ساتھ دیا‘ جس کی وجہ سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سوشلزم کے خلاف بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈا کیا گیا اور اس نظام اور فلسفے کے خلاف مذہبی جذبات کو استعمال کیا گیا۔ اس صورت حال کی گمبھیر تا کو سمجھنے کے لیے سوشلزم کی تاریخ پر ایک نظر ضروری ہے تاکہ حقائق کو افسانوں سے الگ کیا جا سکے۔
وہ نظریات اور وہ سیاسی روایات جو کسی نہ کسی طرح سے آج کے دور کے جدید سوشلزم سے قدرے مشابہت رکھتی ہیں‘ صدیوں پرانی ہیں۔ ان کی ابتدا سرد جنگ کے دور میں نہیںبلکہ قرونِ وسطیٰ سے ہوتی ہے۔ William Smaldone نے اپنی کتاب ''یورپی سوشلزم: ایک دستاویزی تاریخ‘‘ میں اس کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اب تک کی معلوم تاریخ میں قدیم خیالات و نظریات‘ جن کو سوشلزم سے کسی حد تک مماثل قرار دیا جا سکتا ہے‘کا آغاز قدیم مصر سے ہوتا ہے۔ قدیم مصر قدیم افریقہ کی تہذیب تھی۔ اس تہذیب نے دریائے نیل کے کنارے فروغ پایا‘ جس کو اب مصر کہا جاتا ہے۔ قدیم مصر میں ایک مضبوط‘ متحد‘ مذہبی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔ اس قدیم ریاست میں عبادت گاہوں کا وسیع نظام تھا۔ اس نظام میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو روز گار فراہم کیا گیا تھا۔ اس ریاست کے زیر اہتمام کاشتکاری کے بڑے بڑے منصوبے چلتے تھے‘ جن میں کاشتکاروں کو مزدوری کے لیے رکھا جاتا تھا۔ اس طرح اس ریاست کو اس وقت کی معیشت کے کلیدی حصوں کی ملکیت حاصل تھی۔ کارل مور اور ڈیوڈ چارلس لیوس نے اپنی کتاب ''گلوبلائزیشن کی ابتدا‘‘ میں لکھا ہے کہ ریاست کے پاس اناج کے بڑے بڑے ڈپو ہوتے تھے‘ جو مشکل وقت میں عوام کو اناج فراہم کرتے تھے۔ مشہور دانشور Thomas Walter Wallbank نے 1992ء میں ''تہذیب: ماضی اور حال‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی‘ جس میں اس نظام حکومت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ بعض دانشور اس نظام حکومت کو ''تھیوکریٹک سوشلزم‘‘کا نام بھی دیتے ہیں۔
صرف قدیم مصر میں ہی نہیں‘ قدیم یونان میں بھی اس سے ملتی جلتی ریاستیں اور طرزِ حکمرانی موجود تھا۔ شمال مشرقی بحیرہ روم کی تہذیب جس نے نویں صدی سے بارہویں صدی قبل مسیح کے زمانے میں فروغ پایا‘ اس میں اس طرح کی سوچ موجود تھی۔ اس میں شہری ریاستیں موجود تھیں۔ قدیم یونانی معاشی اور سماجی زندگی کا بنیادی عنصر اگرچہ نجی ملکیتی جائیداد بھی تھی‘ لیکن کسی نہ کسی سطح پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ شہری یا اجتماعی ضروریات ہمیشہ فرد کی ضروریات سے پہلے آتی ہیں۔ قدیم یونانیوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنی دولت اور جائیداد کو دوسرے شہریوں کے ساتھ بانٹیں‘ ان کو کہا جاتا تھا کہ جہاں قرض دار اپنا قرض ادا کرنے سے قاصر ہیں‘ ان کے قرض معاف کر دیے جائیں۔ شہریوں کو یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ رضا کا رانہ طور پر بغیر تنخواہ کے سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ اس زمانے میں سماجی کاموں میں رضاکارانہ طور پر حصہ لینے کا رواج عام تھا۔ سماجی خدمات میں حصہ لینے کا یہ خیال اسپارٹا کے اعلیٰ طبقے سے لے کر نچلے طبقات تک مختلف طریقوں سے موجود تھا‘ جہاں غریب مشترکہ جائیداد تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ اس صورتحال کو ڈاسن ڈوئین نے اپنی کتاب ''خدا کی بستیاں : یونانی خیالات میں کمیونسٹ یوٹوپیا‘‘ میں لکھا ہے۔ اس زمانے میں ایک اور قدیم یونانی رواج بڑا عام تھا‘ جس کے تحت کمیونٹی کے امیر ترین افراد ریاست کو براہ راست مالی امداد دیتے تھے۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے آخر تک‘ یونان میں مشترکہ ملکیت کے مزید بنیادی تصورات عام ہوئے۔ اسی صورتحال سے متاثر ہوکر‘ ارسٹوفینس نے اپنا چوتھی صدی کا ابتدائی ڈرامہ لکھا‘ جس میں کمیونسٹ اور مساوات پر مبنی تصورات کی پیروڈی کی گئی ہے۔ڈرامے میں‘ ایتھنز کی خواتین کو ایتھنز حکومت پر قبضہ کرتے ہوئے اور تمام نجی املاک پر پابندی لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ڈرامے کا ایک بڑا کردار کہتا ہے کہ ''میں زمین‘ پیسہ اور ہر وہ چیز جو نجی ملکیت ہے‘ سب کے لیے مشترکہ بنا دوں گا‘‘۔
قدیم دور میں یہ سلسلہ صرف مصر اور یونان تک محدود نہیں تھا‘ دنیا کی ہر قدیم تہذیب میں اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ریاستی سوشلزم یا سماجی بادشاہت کا ایک دور قدیم ہندوستان میں بھی گزرا ہے۔ یہ دور تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستان کی موریا سلطنت تھی۔ بہت سے دانشوروں اور محققین نے موریا سلطنت کے پہلے شہنشاہ چندرگپت کی حکمرانی کو سماجی بادشاہت کا نام دیا ہے‘ اس دور کا معاشی نظام ایک قسم کی ریاستی سوشلزم کے طرز پر استوار کیا گیا تھا۔ کچھ دانشور اسے دنیا کی پہلی فلاحی ریاست قرار دیتے ہیں۔ موریا سلطنت کے معاشی نظام کے تحت زمین کی کوئی ذاتی ملکیت نہیں تھی۔ تمام زمین بادشاہ کی ملکیت تھی‘ جسے شودر یا مزدور طبقہ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ بادشاہ کی ملکیت میں اس زمین کی کاشت کے لیے سرکاری سطح پر مزدوروں کو زرعی مصنوعات‘ جانور‘ بیج اور اوزار فراہم کیے جاتے تھے۔ انتظامی سطح پر ایک عوامی بنیادی ڈھانچہ موجود تھا۔ قحط سالی‘ معاشی مشکلات اور بحران کے وقت ذخیرہ شدہ خوراک عوام کی ہنگامی ضروریات کے لیے فراہم کی جاتی تھی۔ اس طرح قدیم ایران میں بھی قدیم سوشلزم کا تصور موجود رہا ہے۔ قبل مسیح ادوار خصوصاً مزدک کے دور میں سوشلزم کا ابلاغ ہوتا رہا‘مگر اس کے سوشلزم کی بنیاد مادی نہیں‘ بلکہ مذہبی تھی۔ مذہبی خیالات اور نظریات کے زیر اثر نجی ملکیت کی مخالفت اور مشترکہ ملکیت کے حق میں دلائل دیے جاتے تھے۔ اس طرح قدیم سوشلسٹ خیالات قبل مسیح سے لے کر انسانی سوچ میں شامل رہے ہیں‘ جنہوں نے آگے چل کر جدید سوشلزم کی شکل اختیار کی، جس کا احوال آئندہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔