"FBC" (space) message & send to 7575

صرف خواہشات سے تبدیلی ممکن نہیں

پاکستان میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ یہ رکاوٹ نظام میں تبدیلی کی ضرورت کو تسلیم کیے بغیر سماج میں انقلابی تبدیلی کی خواہش ہے۔ تاریخی تجربہ تو یہ ہے کہ فرسودہ نظام کو بدلے بغیر کسی بھی ملک میں ایک نئے اور ترقی پسند سماج کا قیام ممکن ہی نہیں۔ گزشتہ دنوں انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ جو قومیں سرمایہ داری اور لبرل ازم کو ایک مقدس نظام قرار دے کر اس کی حفاظت کے لیے خونیں جنگیں تک لڑنے کو تیار تھیں‘ وہ بھی اب کسی متبادل اور مختلف نظام کے امکانات پر غور کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں قدیم مصر اور بابل کی تہذیبوں سے لے کر جدید سرمایہ داری اور سوشلسٹ نظاموں کے ارتقا کا خاکہ پیش کیا گیا تھا۔ بات یوٹوپیائی سوشلزم تک پہنچی تھی۔ یوٹوپیائی سوشلزم وہ اصطلاح ہے‘ جو اکثر جدید سوشلسٹ فکر کے واضح ہونے سے پہلے کے دور کے سوشلسٹ نظریات کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ یوٹوپیائی سوشلزم کا اظہار ہنری ڈی سینٹ سائمین‘ چارلس فویئر‘ ایٹین کیبٹ اور رابرٹ اوون جیسے دانشوروں کی تحریروں سے ہوتا ہے۔ ہنری ڈی سینٹ سائمین انیسویں صدی کے پہلے نصف کی ایک فرانسیسی سیاسی اور دانشور شخصیت تھے۔ ان کی سوچ کا اس وقت کی فرانسیسی سیاست‘ معاشیات‘ سماجیات اور فلسفۂ سائنس پر کافی اثر تھا۔ اس وقت کے فرانس میں تبدیلی لانے کے لیے سینٹ سائمین نے ایک سیاسی اور معاشی نظریہ تخلیق کیا‘ جسے سینٹ سائموین ازم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ایک مؤثر معاشرے اور ایک مؤثر معیشت کے لیے صنعتی طبقے اور محنت کش طبقات کی ضروریات کو تسلیم کرنے اور پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت کے تصورات میں صنعتی معاشروں میں محنت کش طبقات میں صرف ہاتھ سے کام کرنے والے مزدور کو محنت کش تصور کیا جاتا تھا لیکن سینٹ سائمین نے اپنے طبقاتی تصور میں وہ تمام لوگ شامل کیے‘ جو پیداواری کاموں میں مصروف تھے‘ یا جو اس معاشرے میں سماجی اور معاشی سطح پر کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتے تھے۔ ان میں کاروباری افراد‘ منیجرز‘ سائنسدانوں اور بینکرز کے ساتھ مزدوروں کو شامل کیا گیا تھا۔ سینٹ سائمین نے کہا کہ صنعتی طبقے کے مفادات کے خلاف بنیادی خطرہ ایک اور طبقہ تھا‘ جسے اس نے ایسے سست اور کاہل الوجود طبقے کا نام دیا جس میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کام کرنے سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ محنت کرنے کے بجائے یہ لوگ ''پیرا سائیٹ‘‘ بن کر دوسروں کے کام سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سینٹ سائمین نے فرد کی قابلیت کو تسلیم کرنے پر زور دیا اور معاشرے اور معیشت میں میرٹ کی درجہ بندی کو لازم قرار دیا۔ اس نے معاشرے کے معاشی ڈھانچے اور معیشت میں حکومتی مداخلت کی مخالفت کی۔ سینٹ سائمین کی وسیع سماجی و اقتصادی شراکت کے تصورات سے اس وقت کے کئی دانشور اور تحریکیں متاثر ہوئیں۔ ان کی سائنسی سوچ ا ور روشن خیالی کی فکر نے نہ صرف یوٹوپیائی سوشلزم کو متاثر کیا‘ بلکہ لبرل سیاسی تھیوریسٹ جان سٹورٹ مل اور انارکیزم کے بانی پیئر جوزف پروڈیدہون کی سوچوں پر بھی ان کے خیالات نے گہرے اثرات مرتب کیے۔
یوٹوپیائی سوشلزم کو ابتدا میں خیالی یا مستقبل کے مثالی معاشرے کے ایک تصور کے طور پر پیش کیا گیا‘ جس میں مثبت نظریات معاشرے کو بہتر سمت میں لے جانے کی بنیادی وجہ بنتے ہیں، لیکن آگے چل کر سوشلزم اور یوٹوپیائی سوشلزم کے ناقدین نے یوٹوپیائی سوشلزم کو معاشرے کے حقیقی مادی حالات سے متصادم تصور کیا‘ جو جمہوری اور سماجی تحریکوں سے میل نہیں کھاتا۔
یوٹوپیائی سوشلسٹ عام طور پر یہ نہیں مانتے تھے کہ سوشلزم کے ابھرنے کے لیے طبقاتی جدوجہد یا سماجی انقلاب کا برپا ہونا ضروری ہے۔ یوٹوپیائی سوشلسٹوں کا خیال تھا کہ تمام طبقات کے لوگ رضاکارانہ طور پر معاشرے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ معاشرے میں ہم خیال لوگوں کے درمیان تعاون پر مبنی سوشلزم کی ایک شکل قائم کی جا سکتی ہے۔ اگر تاریخ میں بہت گہرائی تک جایا جائے تو بے شمار یوٹوپیائی سوشلسٹ نظر آتے ہیں لیکن لٹریچر کی سطح پر شاید پہلا یوٹوپیائی سوشلسٹ تھامس مور زیادہ قابلِ ذکر ہے‘ جس نے 1516ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ''یوٹوپیا‘‘ میں ایک خیالی سوشلسٹ معاشرے کی تصویر کشی کی تھی۔ لیکن خیالی سوشلسٹ سماج کا خواب دیکھنے کے باوجود وہ اس وقت کی پروٹسٹنٹ اصلاحات کے خلاف تھا۔ وہ بادشاہ ہنری ہشتم کی کیتھولک چرچ سے علیحدگی کے بھی حق میں نہیں تھا اور بادشاہ کو چرچ آف انگلینڈ کا سربراہ ماننے سے انکاری تھا۔ وہ بادشاہ کے طلاق کے حق کے بھی خلاف تھا۔ اس طرح سوشلزم کا حامی ہونے کے باوجود وہ اپنے نظریات کے حوالے سے وہ سماجی قدامت پرستی اور مذہبی رجعت پسندی کا شکار تھا۔ یوٹوپیائی مکتبِ فکر کے لکھاریوں کے اس طویل سلسلے میں رابرٹ اوون اور چارلس فویئرجیسے لکھاریوں کا بڑا حصہ ہے۔ بہت سے رومانویت پسند مصنفین‘ خاص طور پر ولیم گاڈون اور پرسی بائیس شیلی نے سرمایہ داری نظام کے خلاف بڑے پیمانے پر لکھا اور انیسویں صدی کے اوائل میں یورپ میں کسان انقلابات کی حمایت کی۔ رابرٹ اوون سے متاثر ہو کر‘ 1840ء میں لارڈ ولیم نے بھی ایک کتاب شائع کی‘ جس میں اس نے ایک مثالی معاشرے کا خاکہ پیش کیا۔ اس نے پہلی بار لفظ کمیونزم کا استعمال کیا اور مارکس اور اینگلز سمیت دیگر مفکرین کو متاثر کیا۔
آگے چل کرایڈورڈ بیلامی نے 1888ء میں Looking Backward شائع کیا، جو مستقبل کے سوشلسٹ معاشرے کے بارے میں ایک یوٹوپیائی رومانوی ناول ہے۔ بیلامی کے یوٹوپیا میں جائیداد مشترکہ تھی اور پیسے کی جگہ سب کے لیے یکساں کریڈٹ کا نظام تھا۔
ولیم مورس نے 1890ء میں بیلامی کے ناول کے جواب میں ایک کتاب لکھی۔ مستقبل کے سوشلسٹ معاشرے کے بارے میں مورس کا نظریہ بیکار محنت کے بجائے بامعنی اور مفید انسانی محنت کے گرد گھومتا تھا۔ مورس کا خیال تھا کہ تمام کام فنکارانہ ہونا چاہیے‘ اس لحاظ سے کہ کارکن اپنے کام کو خوشگوار اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ سمجھ کر کرے۔ اس طرح برطانیہ میں برادرہڈ چرچ اور روس میں لائف اینڈ لیبر کمیون‘ لیو ٹالسٹائی کے مسیحی انارکسٹ نظریات پر مبنی تھے۔ اس طرح یہ سیاسی اور فلسفیانہ ادب کی تخلیق کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہ ادب مختلف ادیبوں اور فلاسفرز نے اپنے وقت کے نظاموں کے خلاف تخلیق کیا۔ ان نظاموں میں بادشاہت‘ جاگیرداری اور سرمایہ داری کی مختلف شکلیں شامل تھیں۔ انسانی فلاح و بہبود کے لیے وسائل کی منصفانہ تقسیم کی سوچ اور خواہش ارتقا کے مختلف مراحل سے گزری۔ ارتقا کے اس عمل میں انسان نت نئے نظریات لے کر سامنے آتا رہا‘ جس نے سوچ کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔ اس سلسلۂ عمل میں قدیم مصر و بابل کے تھوکریٹک سوشلزم سے لے کر جدید دور کے سائنٹیفک سوشلزم تک کا سفر شامل ہے۔ اس سفر کے دوران یوٹوپیائی سوشلزم‘ اخلاقی سوشلزم اور انارکسسٹ نظریات سمیت کئی قسم کے مکاتبِ فکر سامنے آتے رہے۔ یہ سلسلہ جاکر سائنٹیفک سوشلزم پر منتج ہوا۔ اور اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے تک پہنچتے پہنچتے سوشلزم کی کئی جدید شکلیں معرضِ وجود میں آئیں، جن کا باری باری جائزہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ نظریات کے تاریخی ارتقا کا یہ فہم ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جو پاکستان میں حقیقی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ان نظاموں اور نظریات کی ناکامی اور کامیابی کا سبق یہ ہے کہ بامقصد تبدیلی کے لیے پرانے اور فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر اس کی جگہ ایک جدید منصفانہ اور سائنسی فکر پر مبنی نظام ہی تبدیلی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں