معاشی اصطلاح میں افراطِ زر وہ شرح ہے جس کے مطابق کسی ملک میں گڈز اینڈ سروسز یعنی اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک میں افراطِ زر بڑھنے یا کم ہونے کا انحصار دو چیزوں پر ہوتا ہے: ایک عالمی معاشی حالات و واقعات اور دوسرا کسی ملک کے اپنے داخلی معاشی‘ سیاسی حالات اور حکومت کی پالیسیاںجو وہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے یا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دیتی ہے۔ افراطِ زر طلب اور رسد کے معاشی اصولوں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ افراطِ زر کو کسی بھی ملک میں مخصوص صورت حال اور تبدیلی کی شرح کے لحاظ سے ایک اچھا اور مثبت عمل بھی سمجھا جا سکتا ہے لیکن عام حالات میں اسے عام طور پر منفی عمل کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر بعض اوقات مہنگائی میں تھوڑے بہت اضافے کو عام طور پر اس بات کے اشارے کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ کسی ملک کی معیشت بڑھ رہی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس کے باشندوں کی مناسب آمدنی ہے یا اس میں اضافہ ہو رہا ہے یا ان کی قوتِ خرید بڑھ رہی ہے؛ تاہم افراطِ زر اس وقت ایک مسئلہ ہوتا ہے جب قیمتیں اجرت سے زیادہ تیزی سے بڑھ جاتی ہیں‘ جس کی وجہ سے کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور ملک کی کرنسی کی قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جو اس وقت عالمی سطح پر کئی ممالک کو درپیش ہے۔ ان میں امیر اور غریب ہر طرح کے ممالک شامل ہیں۔
پاکستان میں اس وقت روپے کی گرتی ہوئی قیمت اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافہ اسی عالمی اور داخلی صورت حال کا شاخسانہ ہے۔ عالمی صورت حال پر بسا اوقات مقامی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہوتا‘ اس لیے اگر مہنگائی بڑھنے کی اہم اور بنیادی وجہ عالمی حالات ہوں تو مقامی حکومتیں اس پر قابو پانے میں تو بے بس ہوتی ہیں لیکن اپنے عوام‘ خصوصاً غریب اور پسے ہوئے طبقات کو مہنگائی کے خوفناک اثرات سے بچانے کے لیے اقدامات کر سکتی ہیں۔ ان اقدامات سے بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔ ہر حکومت کے پاس ہمیشہ یہ گنجائش ہوتی ہے کہ انتہائی ناسازگار عالمی حالات میں بھی ایسی مقامی پالیسیاں اپنا سکتی ہے‘ جو عوام اور غریب طبقے کو بھوک ننگ اور مزید غربت میں دھنسنے سے بچا سکیں۔ اس کے لیے اس وقت کی حکمران اشرافیہ میں عوام کا درد اور فکرمندی کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جب ملک میں دولت کی منصفانہ تقسیم کی پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں اور ملک کے مراعات یافتہ خوشحال طبقات کی دولت اور مراعات میں کمی کے ذریعے دولت جمع کی جاتی ہے اور منصفانہ پالیسیوں کے تحت اس دولت سے غریب طبقات کو رعایت دی جاتی ہے۔
عام طور پر مہنگائی کی تین بڑی وجوہ ہوتی ہیں‘ جن میں سر فہرست اشیا کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے یعنی مہنگائی اس وقت ہوتی ہے جب اشیا اور خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں لوگوں کو اشیا اور خدمات کے حصول کے لیے پہلے سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہ صورت اس وقت ہوتی ہے جب مانگ معیشت کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ گویا ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے لیکن سپلائی برقرار نہیں رہ سکتی‘ اس لیے قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ مہنگائی میں اضافے کی دوسری اہم وجہ پیداوار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال خام مال میں اضافہ ہے۔ اگر کسی عام استعمال کی چیز کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی قیمت میں اضافہ ہو جا ئے تو اس سے اس چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے کیونکہ وہ چیزیں بنانے والے لوگ اپنی لاگت کو صارفین پر منتقل کر دیتے ہیں۔ تیسری وجہ اجرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ صورت عموماً اس وقت پیدا ہوتی ہے جب یہ توقع کی جاتی ہے کہ افراطِ زر جاری رہے گا‘ لہٰذا صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کے لیے اجرتوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔ جیسے جیسے سامان اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ مزدور کو اپنے معیارِ زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے زیادہ ادائیگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدوری کی لاگت میں اضافے کے نتیجے میں ان اشیا یا خدمات کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں جو مزدور پیدا کرتے ہیں یا فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کووڈ وائرس کی وبا اور اس کے فوراً بعد روس‘ یوکرین لڑائی کی وجہ سے دنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا‘ اس کے پس منظر میں یہی وجوہات ہیں۔ اس سے دنیا کا تقریباًہر ملک متاثر ہوا لیکن بیشتر ممالک نے اپنی اندرونی پالیسیوں کے ذریعے مہنگائی کے اثرات کو بڑی حد تک قابو میں رکھا۔ جو ملک بروقت مؤثر پالیسیاں بنانے میں ناکام رہے‘ وہاں مہنگائی کی شرح نا قابلِ تصور حد تک بلندی پر پہنچ گئی۔ اس کی ایک بڑی مثال وینزویلا ہے۔ اس وقت وینزویلا میں مہنگائی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویوکے ایک تجزیے کے مطابق بعض اوقات وینزویلا میں قیمتیں اتنی تیزی سے تبدیل ہوتی ہیں کہ سٹورز نے تجارتی سامان پر قیمتوں کے ٹیگ لگانا بند کر دیے اور صارفین کو ہدایت کی کہ وہ ملازمین سے صرف یہ پوچھیں کہ اس دن کس چیز کی قیمت کیا ہے۔ مہنگائی کی اس سطح کو ہائپر انفلیشن کے نام سے جانا جاتا ہے‘ ایک معاشی بحران جو عام طور پر حکومت کے زائد اخراجات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان ہنگامی اخراجات میں جنگ‘ حکومت کی تبدیلی‘ یا ایسے سماجی و اقتصادی حالات شامل ہیں جن کی وجہ سے ٹیکس ریونیو سے فنڈنگ کم ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے بڑی مقدار میں اضافی کرنسی چھاپنا پڑتی ہے۔ وینزویلا کی معیشت کبھی جنوبی امریکہ میں رشک کی نظر سے دیکھی جاتی تھی۔ دنیا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہونے کی وجہ سے فی کس دولت بہت زیادہ تھی مگر پٹرولیم کی آمدنی پر اس قدر انحصار نے ملک کو خاص طور پر 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کے دوران تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار بنا دیا۔ اس صورت حال کی دوسری مثال سوڈان ہے‘ جہاں اندرونی پالیسیاں بنانے میں حکمران اشرافیہ ناکام رہی ہے۔ سوڈان میں اس سال کے آغاز میں افراطِ زر کی شرح تین سو چالیس فیصد تھی‘ جو دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سوڈان میں مہنگائی کی وجہ خوراک‘ مشروبات اور امریکی ڈالر کی بلیک مارکیٹ ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے حالات اس قدر دگرگوں ہو گئے کہ عوام احتجاج پر اتر آئے اور بالآخر اپریل 2019ء میں صدر عمر البشیر کو معزول کر دیا گیا۔ نئے حکام کو برسوں کی بدانتظامی سے دوچار معیشت کا رخ موڑنے کا کام سونپا گیا‘ جو آسان کام نہیں۔ پاکستان میں بھی حکمران اشرافیہ کو اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے‘ جو تیز رفتار اور ہوشمند پالیسیوں کی متقاضی ہے۔
گزشتہ حکومت اور موجودہ حکومت‘ دونوں میں یہ قدر مشترک رہی کہ وہ عالمی حالات کا رونا رو کر اپنی ذمہ داری سے دامن چھڑانے کی کوشش میں رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کووڈ بحران اور روس یوکرین تنازع نے دنیا میں معاشی بحران کو گہرا کیا ہے لیکن عالمی حالات کے باوجود ہر ملک انفرادی طور پر مقامی سطح کے اقدامات کر سکتا ہے‘ جو ملک کے غریب طبقات کے مصائب اور درد میں بڑی حد تک کمی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات اب حکومت کی صوابدید نہیں‘ بلکہ مجبوری ہیں جن سے پہلو تہی کی گنجائش نہیں۔