جناب ایاز امیر پر حملہ افسوسناک ہے۔ یہ پاکستان میں آزاد سوچ رکھنے والے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کے طویل سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے۔ یہ عقل‘ دانش اور اظہارِ رائے کے حق پر حملہ ہے۔ یہ حملہ اس تلخ حقیقت کا اظہار ہے کہ اس سماج میں سچ کا اظہار آج بھی بہت بڑا چیلنج ہے‘ اور سچ بولنے والا غیر محفوظ ہے۔
اظہار کی آزادی کے سوال پر ملک کا آئین بالکل واضح ہے۔ یہ آئین اظہار کی آزادی کی ضما نت دیتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر شہری کو اظہار اور تقریر کی آزادی ہے۔ آئین میں پریس کی آزاد ی کی بھی ضمانت ہے۔ گو کہ یہ آزادی چند باتوں سے مشروط ہے جن میں کوئی ایسا بیان جو اسلام کی عظمت یا پاکستان کی سالمیت و تحفظ کے خلاف ہو‘ ایسی بات جس کے اظہار سے کسی دوسری ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہو‘ کوئی ایسا بیان جس سے امن عامہ میں خلل پڑتا ہو‘ کوئی بات جو عام اخلاقیات اور شائستگی کے خلاف ہو‘ ایسی بات جس سے توہین عدالت ہوتی ہویا کسی کو کسی جرم کے ارتکاب کے لیے اکسایا گیا ہو‘ شامل ہیں۔ان باتوں کے علاوہ ہر معاملے میں شہری کو اپنی بات کہنے سننے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اظہارِ رائے کے باب میں آئین پاکستان کی دفعہ19 کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ ملک کا ہر شہری اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے آزاد ہے۔ وہ یہ اظہار تحریر و تقریر‘ پینٹنگ‘ اشارے کنائے سمیت ہر ذریعے سے کر سکتا ہے۔ اس اظہار کے حق پر صرف وہ پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں جو معقول ہوںاور قانون کے مطابق ہوں اور اربابِ اختیار قانون و انصاف کی عدالت میں ایسی پابندیوں کا جوا ز ثابت کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔
اگر صرف آئین میں جو لکھا ہے اس کو دیکھا جائے تو پاکستان کے شہریوں کو بظاہر اظہار کے باب میں تقریباً وہی حقوق حاصل ہیں جو دنیا کی مستند اور مسلمہ جمہو ریتوں کے شہریوں کو حاصل ہیں۔اظہارِ رائے کی آزادی کے باب میں کینیڈا‘امریکہ‘ آسٹریلیا‘ جیسے ممالک کے آئین میں بھی اسی طرح کے الفاظ شامل ہیں اور حکومتوں اور ریاستوں کا ان حقوق پر پابندی کا اختیار صرف اس صورت میں ہے کہ جب پابندی معقول ہو اور اس کی معقولیت کو کسی عدالت میں ثابت کیا جا سکتا ہو۔ ان ممالک کے آئین میں البتہ ملکی سلامتی‘ سالمیت‘ توہینِ عدالت اور مذہبی عظمت کے الفاظ شامل نہیں ہیں بلکہ اس کی جگہ ایسی پابندی کا ذکر ہے‘ جو معقول ہو اور اسے عدالت میں جائز ثابت کیا جا سکتا ہو۔مگر اس قصے میں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہوتا کہ آئین میں کیا لکھا ہے۔ کوئی بھی پارلیمان صرف ایک اجلاس میں دنیا کا بہترین آئین لکھ سکتی ہے بلکہ برطانیہ جیسے قانون و آئین کی حکمرانی والے ملک میں تو تحریری آئین بھی نہیں ہے۔ اصل چیلنج جو کسی حکومت یا ریاست کو در پیش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں اس کے شہری آئین کے تحت حاصل شدہ حقوق کا عملی استعمال کر سکیں۔ اگر کسی ملک کے آئین میں دنیا کی اعلیٰ ترین باتیں لکھی ہوئی ہوںلیکن ملک میں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ شہریوں کو اپنی بات کہنے سننے کے لیے مناسب و محفوظ ماحول ہی میسر نہ ہو‘ ملک میں غنڈہ گردی اور لا قانونیت کا راج ہو‘ خوف و ہراس کا ماحول ہواور خیالات کا اظہار کرنے والے شخص کو عملی طور اپنی جان و مال کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ ہوتو اس صورت میں آئین میں لکھے ہوئے حقوق‘ خواہ وہ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ہوں‘ اپنے نتائج کے اعتبار سے بیکار ثابت ہوتے ہیں۔
بد قسمتی سے اس وقت یہی صورتحال پاکستان میں ہے اور یہ صرف آج کا المیہ نہیں بلکہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے ملک میں آزادی سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے لوگوں کو ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ اگر اس صورتحال کا دنیا سے تقابل کیا جائے تو 2020 ء کے پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق‘ اظہارِ رائے کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 180 ملکوں میں سے 145 ویںنمبر پر آیا تھا۔ یہ رپورٹ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم '' رپورٹرز وِد آئوٹ بارڈرز‘‘ نے تیار کی تھی۔ یہ صحافیوں کی ایک خود مختار عالمی تنظیم ہے جو2002 ء سے دنیا میں پریس کی آزادی کا ریکارڈ سامنے رکھ کریہ انڈیکس بناتی ہے۔ 2020 ء کی اس رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان کا ماضی کی نسبت پریس کی آزادی کے انڈیکس میں مزید نیچے جانے کی کئی وجوہات تھیں۔ ان میں سر فہرست وجہ حالیہ چند برسوں کے دوران حکومت کی طرف سے میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کا عمل تھا۔ میڈیا پر پابندی کا یہ عمل روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی ہوا مگر اس کا سب سے سخت اور نمایاں اظہار سوشل میڈیا کے حوالے سے ہوا۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت نے ایسی قانون سازی کی یا اقدامات کیے جن کی وجہ سے فریڈم آف پریس کے انڈیکس اور فہرست میں پاکستان کا نمبر بہت نیچے چلا گیا۔ اس بات کا اظہار رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے علاوہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے بھی بار بار اپنی رپورٹوں میں کیا۔ لیکن پاکستان میں اربابِ اختیار کا رد عمل اس پر بڑا افسوسناک رہا ہے۔ ان رپورٹوں کو غلط قرار دے کر رد کیا جاتا رہا ہے جیسے سابق وزیر اعظم عمران خان نے دورۂ نیویارک کے دوران اس رپورٹ کو مذاق قرار دیا تھا۔ اس انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ نیچے جانے کی دوسری وجہ یہ عام الزام تھا کہ پاکستان میں حکومت مختلف حربوں سے ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کر رہی ہے۔ اس میں ایسی مثالیں دی گئیں جن میں کئی میڈیا ہاؤسز کو اشتہارات نہ دینے یا اشتہارات بند کرنے کی دھمکی دی گئی۔ اس رپورٹ کی تیسری وجہ صحافیوں کو ہراساں کرنے کی شکایات تھیں۔
عالمی سطح پر ہرا ساں کرنا ایک وسیع اصطلاح ہے‘ جس میں بہت کچھ آ جاتا ہے۔ یہ طاقتور لوگوں کی طرف سے ایک رویے اور طرزِ عمل کا نام ہے۔ یہ رویہ کسی شخص سے بد تمیزی کرنے‘ اسے شرمندہ کرنے یا ذلیل کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ اس طرح کے رویے کا اظہار بسا اوقات ایسے صحافی کے خلاف دکھائی دیتا ہے جو سچ بولتا ہے یا طاقتور حلقوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ اس رپورٹ کی ایک وجہ حکومت کا وہ طرزِ عمل بھی تھاجو آزاد جرنلزم کے تقاضوں سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ پاکستان میں کچھ صحافیوں کے اغوا‘ تشدد اور ان کے خلاف پرچے درج کرانے یا عدالتوں میں مقدمے دائر کرنے جیسے واقعات بھی رونما ہوئے‘ جن کی وجہ سے مجموعی طور پر ملک کی عالمی رینکنگ پر فرق پڑا۔
پاکستان میں ایسے واقعات بھی ہوئے جن میں صحافیوں پر حملے یا تشدد کے و ڈیوز موجود ہونے کے باوجود اس عمل میں ملوث لوگوں کو نہ تو گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کو بر وقت قرار واقعی سزا دی گئی۔ ایاز امیر کا واقعہ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال ہے۔ یہ اربابِ اختیار کی طرف سے قانونی کی حکمرانی کے قیام اور اپنے شہریوں کو اظہارِ رائے کے لیے مناسب ماحول فراہم کرنے میں ناکامی کی ایک مثال ہے۔