یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں لیکن کیا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ امریکی قیادت میں دنیا میں رائج پرانا ''ورلڈ آرڈر‘‘ یا عالمی نظام بھی تبدیل ہو گیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے‘ جس پر اس وقت امریکی اور مغربی دانشور غور کر رہے ہیں‘ اور اپنے اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین روس تنازعے کی وجہ سے موجودہ عالمی نظام کو ایک شدید جھٹکا لگا ہے۔ اور اس کی کمزوریاں بے نقاب ہوئی ہیں۔ روس کے حملے نے بہت سے تلخ حقائق سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ سب سے زیادہ اس نے اس حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ مغربی ممالک نیو لبرل ازم کے زیر سایہ بہت زیادہ امنگیں اور خواہشات تورکھتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان امنگوں اور خواہشات کو پورا کرنے کے لیے جو وسائل انہوں نے وقف کیے ہیں وہ بہت معمولی ہیں۔ اس وقت نئی سرد جنگ کوئی راز نہیں ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ماسکو اور بیجنگ کے ساتھ طاقت کے مقابلے کا بار بار اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان ہر بڑے فورم پر ہوا ہے‘ لیکن یہ اعلان ان کے عملی اقدامات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ فی الوقت اس سلسلے میں امریکہ کی فوجی اور مالیاتی پالیسیوں میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ کچھ امریکی دانشوروں کا خیال ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یوکرین جنگ کی صورت میں ایک جھٹکا دے کر ان پر ایک طرح کا احسانِ عظیم کیا ہے۔ اس نے ان کی وہ خوش فہمی دور کی ہے جس میں وہ 1990ء سے مبتلا تھے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر کی شکل میں جو نظام قائم ہو چکا ہے‘ اس کو دنیا میں چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔ اس لیے یہ نظام حتمی اور نا قابلِ شکست ہے؛ چنانچہ یو کرین پرحملے کے ذریعے روس نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خوش فہمی سے نکال کر ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے کہ وہ نئے حقائق کا ادراک کریں اور دوبارہ منظم ہو جائیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آنے والے وقتوں میں شدید مسابقت اور سرد اور گرم جنگ کے ایک نئے دور کے لیے تیاری کریں۔ یہ تیاری صرف روس کے خلاف ہی نہیں‘ چین کے خلاف بھی ہو‘ اور اس تیاری کے ذریعے وہ بالآخر ایک نئے ورلڈ آرڈر یعنی بین الاقوامی نظم کی تعمیر کریں۔ چونکہ پرانا ورلڈ آرڈر اب تقریباً بسترِ مرگ پر ہے اور آخری سانسیں لے رہا ہے۔ مگر مرتے ہوئے نظام کا ملبہ اٹھا کر اس کی جگہ نئے نظام کی تعمیر کے لیے عملی طور پرکچھ نہیں ہو رہا۔ اس باب میں محض خواہشات اور اعلانات ہیں۔
جو کچھ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ ایسا تاریخ میں پہلے بھی ہو چکا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے مشہور امریکی یونیورسٹیوں کے دو پروفیسرز مائیکل بکلے اور ہال برانڈز ایک مشترکہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ 1940ء کی دہائی کے آخر میں مغرب امریکہ کی قیادت میں سوویت یونین جیسی عظیم طاقت کے مقابلے کی دوڑ میں داخل ہو رہا تھا‘ لیکن آج ہی کی طرح اس نے یہ مقابلہ جیتنے کے لیے ضروری سرمایہ کاری یا اقدامات نہیں کیے تھے۔ اس وقت امریکی دفاعی اخراجات قابلِ رحم حد تک ناکافی تھے۔ نیٹو کا وجود صرف کاغذ پر تھا۔ جاپان مغربی جرمنی آزاد دنیا میں دوبارہ شامل نہیں ہوئے تھے۔ دوسری طرف سوویت یونین روز بروز آگے کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کمیونسٹ بلاک میں مومینٹم یعنی رفتار اور دم ہے۔ لیکن پھرجون 1950ء میںکوریا کی جنگ کی شکل میں ایک غیر اشتعال انگیز آمرانہ جارحیت نے مغربی سیاست میں انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب کے نتیجے میں سوویت یونین کو روکنے کی پالیسی کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ پالیسی تھی جس نے سرد جنگ جیتی اور اس کے ذریعے جدید لبرل عالمی نظام قائم ہوا‘ جو اب تک کسی نہ کسی شکل میں چل رہا ہے۔ یہ سب کچھ ایک غیر متوقع گرم جنگ کی پیداوار تھا۔ پروفیسرز کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ بھی ایک غیر متوقع گرم جنگ ہے اور یوکرین کی تباہی بھی آج ایسا ہی کردار ادا کر سکتی ہے جو کوریا کی جنگ نے کیا تھا۔ پروفیسرز کا یہ بھی خیال ہے کہ پوتن کی جارحیت نے واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے لیے سٹریٹجک مواقع کی ایک نئی کھڑکی کھول دی ہے۔ دنیا کی جمہوریتوں کو اب اسلحہ سازی کا ایک بڑا اور کثیرالجہتی پروگرام دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ آمرانہ جارحیت کی آنے والی لہر کے خلاف مضبوط دفاع کھڑا کرنا چاہیے۔ پروفیسرز آگے چل کر مشورہ دیتے ہیں کہ امریکہ کو موجودہ بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے روس اور چین کی طاقت اور بغاوت کی صلاحیت کو کمزور کرنا چاہیے۔ دنیا بھر کی لبرل ریاستوں کے درمیان اقتصادی اور سفارتی تعاون کو گہرا کرنا چاہیے۔ یوکرین پر حملہ ایک نئے بین الاقوامی نظام کی تشکیل کے لیے ایک تیز جدوجہد کے ایک نئے مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔ جمہوری دنیا کے پاس اس سے بہتر موقع نہیں ہوگا کہ وہ خود کو آخری فتح کے لیے تیار کر سکے۔ ان دانشوروں کا یہ ماننا ہے کہ موجودہ عالمی نظام دم توڑ رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نئے عالمی نظام کی ضرورت ہے‘ مگر اس عالمی نظام کی جو شکل و صورت وہ پیش کر رہے ہیں‘ اس میں ''نئے نظام‘‘ والی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ دنیا کی جمہوریتوں کو ایک بار پھر ماضی کی طرح بھاری اسلحہ سازی اور سرد جنگ کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔ دنیا کی اس نئی صف بندی کا ہدف بھی روس اور چین ہی ہوں‘ اور دنیا کی روایتی تقسیم اور اجارہ داریوں کو ایک بار پھر بحال کیا جائے۔ مگر اس مشورے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ دنیا کے نئے حقائق کے ساتھ میل نہیں کھاتا۔ ماضی کی سرد یا گرم جنگ بنیادی طور پر دنیا میں معاشی اور سیاسی اجارہ داریوں اور غلبے کی جنگ تھی‘ مگر اس جنگ میں سوویت یونین اور چین کے پاس سوشلسٹ نظریات کی طاقت تھی‘ جن کے خلاف مغرب کی طرف سے جمہوریت‘ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کا نعرہ لگایا گیا۔ ان دونوں بلاکوں نے ان نظریات اور نعروں کی طاقت اور کشش کے ذریعے اپنے عوام کو بڑی حد تک اپنے ساتھ کھڑا کر دیا تھا۔ نوے کی دہائی میں دنیا میں برپا ہونے والی تبدیلیوں نے اس صورتحال کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ اب صرف جمہوریت‘ شہری آزادیوں یا پھر سوشلزم کے نظریات کے نام پر عوامی حمایت حاصل کرکے ملکوں اور قوموں کے درمیان خوفناک دشمنی اور جنگی جنون پیدا کرنا اس قدر آسان نہیں رہا۔ گزشتہ تیس سال کے دوران دنیا بھر میں عوامی شعور میں بہت تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ اب عوام کی اکثریت جمہوریت‘ شہری آزادیوں یا سوشلزم کے کھوکھلے دعووں اور ان کے عملی اطلاق میں جو فرق ہے‘ اس کا کافی شعور رکھتے ہیں۔ اب وہ سوشلزم کے نام پر ہونے والی طبقاتی لوٹ کھسوٹ اور جمہوریت و شہری آزادیوں کے نام پر ہونے والے ظلم و جبر اور آمرانہ ہتھکنڈوں کے استعمال سے بھی آگاہ ہو چکے ہیں۔ اس لیے اب حکومتوں کے لیے عوام کو ان نعروں اور نظریات کے نام پر جنونی کیفیت کا شکار بنا کر جنگ کی بھٹی میں جھونکنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے اب دنیا میں ''نیا ورلڈ آرڈر‘‘ صرف وہی چل سکے گا جو دنیا میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کے ساتھ ساتھ منصفانہ معاشی و سماجی نظام پرمشتمل ہوگا۔