بہت عرصہ پہلے میں نے وی آئی پی ازم پر ایک کالم لکھا تھا۔ میں نے اُس کالم میں کینیڈا کے ایک شہر کی ایک تاریخی شخصیت کا ذکر کیا تھا‘ جو عوام میں بہت مقبول تھی اور اس وقت تک کینیڈا کے ایک شہر مسی ساگا کی گیارہ بار میئر منتخب ہو چکی تھی۔ ایک بار میں لنچ ٹائم پر ایک مہمان دوست کے ساتھ مسی ساگا کے ایک ریستوران میں گیا۔ ویٹرس نے ہمیں کونے والی میز پر بٹھا دیا۔ میں نے گرد و نواح کا جائزہ لیا۔ وہ شخصیت میری ساتھ والی میز پر بیٹھی تھی۔ میں نے سر کی جنبش سے آشنائی کا ظہار کیا۔ اس نے جواباً سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ وہ دوستوں کے ساتھ بڑے انہماک سے کھانا کھا رہی تھی۔ میرے مہمان نے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے‘ کیونکہ اسے لگتا ہے کہ اس نے اس خاتون کو کہیں دیکھا ہے۔ وہ امریکہ سے آیا تھا۔ میں نے مہمان کو بتایا کہ آپ نے اسے ٹی وی پر دیکھا ہوگا۔ بڑی مشہور اور تاریخی شخصیت ہیں۔ یہ اس شہر کی میئر ہیں۔ محض میئر نہیں‘ یہ اس شہر میں مسلسل گیارہ بار میئر منتخب ہو چکی ہیں۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب یہ انتخابات میں مہم چلائے بغیر منتخب ہو جاتی ہیں۔ یہ یہاں کی تاریخ کی سب سے زیادہ عرصہ منتخب ہونے والی شخصیت ہیں۔ ان کی عمر اب بانوے سال سے تجاوز کر چکی ہے مگر اس شہر میں شب و روز شاید ہی کوئی ایسی تقریب ہو‘ جس میں آپ کو یہ خاتون نظر نہ آئے۔ یہ آپ کو یہاں کے ریستورانوں پر اسی طرح عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھاتی ہوئی نظر آئیں گی۔ ان کے ساتھ کوئی سکیورٹی نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کبھی ایک سٹاف ممبر یا فیملی ممبر ساتھ ہو۔ ریستوران پر بیٹھے ہوئے اکثر لوگ اس خاتون کو جانتے ہیں مگر سب کو ان کی پرائیویسی کا احترام ہے۔ کوئی ہاتھ ملانے کی کوشش نہیں کر رہا۔ کوئی تصویر بنوانے کو نہیں کہہ رہا۔ وہ خاتون اب میئر نہیں رہی۔ چالیس سال تک اس شہر کی سیاست پر راج کرنے کے بعد وہ سیاست سے کنارہ کش ہو چکی ہیں۔ لیکن جو بات اس وقت میں اپنے دوست کو بتا رہا تھا وہ محض ایک مقبول عوامی شخصیت یا شہر کی میئر کی بات نہیں ہے۔
اس ملک کے بیشتر منتخب لوگ ایسے ہی ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران اکیلے مختلف تقریبات میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو سب ویز اور پبلک ٹرانزٹ سسٹم پر اکیلے سفر کرتے ہوئے ملیں گے۔ گروسری سٹورز پر شاپنگ کرتے ہوئے ملیں گے۔ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہیں۔ نہ ہی عوام بلا وجہ ان کا وقت ضائع کرنے کی کوئی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے تمام کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ یہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہیں۔ اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ اپنے کپڑے خود دھوتے ہیں۔ جہاں لائن لگی ہو وہاں لائن میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ اس طرح ان کا رہنا سہنا اور طرزِ زندگی عام آدمی کی طرح ہے۔ عام آدمی بھی ان کو کوئی پیر‘ فقیر یا دیوتا نہیں‘ عام آدمی ہی سمجھتا ہے اور عام آدمی کی طرح ہی ان سے برتاؤ کرتا ہے۔ اس کا اگر ہمارے ساتھ تقابل کیا جائے تو ہمارے ہاں صورت حال کتنی افسوس ناک ہے۔ ہمارا سماج کتنے برے طریقے سے وی آئی پی ازم کا شکار ہے۔ ہر طرف وی آئی پی ازم کی دیکھی اَن دیکھی زنجیریں ہیں۔ یہ سلسلہ پھیل کر ایک باقاعدہ روگ بن چکا ہے۔ سماج کی ہر پرت میں وی آئی پی ازم کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
ایک گھر سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک آپ کو وی آئی پی ازم کی مختلف شکلیں نظر آئیں گی۔ یہ روگ اتنا گہرا ہو چکا ہے کہ ہر خاص و عام سماج سے ایک خاص اہمیت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے سماج ایک خاص شکل اختیار کر چکا ہے‘ جس میں کوئی اپنی باری کا انتظار نہیں کرنا چاہتا۔ لائن میں کھڑا ہونا توہین آمیز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تو عام آدمی کی بات ہے۔ وہ لوگ جو کسی خاص حیثیت کے حامل ہیں‘ عوام کے منتخب نمائندے ہیں‘ کسی سرکاری عہدے پر فائز ہیں‘ دولت یا طاقت رکھتے ہیں ان کی ایک ایک حرکت سے وی آئی پی ازم جھلکتا ہے۔ یہ وی آئی پی ازم ایک باقاعدہ نظام بن چکا ہے۔ اس نظام کے اندر طبقاتی ناہمواری ہے۔ سماجی ناانصافی ہے۔ رشوت اور سفارش ہے۔
طبقاتی ناہمواری کی وجہ سے سماج میں دو قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کے پاس بہت کچھ ہے۔ دوسرے وہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ جن کے پاس کچھ بھی نہیں وہ سماجی اور معاشی ناانصافی کا شکار ہیں۔ یہ عام لوگ ہیں۔ ان عام لوگوں کا کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہو سکتا؛چنانچہ ان لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے ہمہ وقت وی آئی پی لوگوں کی ضرورت رہتی ہے۔ یہ اگر بیمار ہو جائیں تو ہسپتال میں بستر کے لیے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے۔ بچی کے جہیز کے لیے کسی صاحبِ ثروت کی حاجت ہوتی ہے۔ بچے کی ملازمت کے لیے بھی سفارش کی ضرورت ہے۔ ان کو اپنی عزتِ نفس کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی کسی وی آئی پی کا سایہ چاہیے ہوتا ہے۔
گاؤں کی پنچایت سے لے کر تھانے اور کچہری تک‘ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی وی آئی پی کھڑا ہوتا ہے جس کی اشیر باد کے بغیر عام آدمی کا کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہاں تک کے عام آدمی ان کے بغیر اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی عزت اور سکون سے نہیں رہ سکتا۔ وہ کسی کی غنڈہ گردی کا شکار ہوگا‘ کسی کی ناجائز تجاوزات کا شکار ہوگا‘ کوئی اس کی زمین پر قابض ہو گا‘ کوئی اس کی عزت پر حملہ کر ے گا۔ سماج میں صرف سماجی اور معاشی ناانصافی ہی نہیں‘ خوف بھی ہے۔ خوف کی ایک خاص کیفیت ہے۔ وی آئی پی کلچر بنیادی طور پر انہی چیزوں پر کھڑا ہے۔
اگر سماج سے طبقاتی تضادات ختم ہو جائیں۔ سماجی انصاف ہو۔ ظلم و جبر کا خاتمہ ہو۔ قانون کی حکمرانی ہو۔ عام آدمی کو اپنے کام کراونے کے لیے سفارش اور رشوت کی ضرورت نہ پڑے تو اس کے ساتھ ہی وی آئی پی کا کردار ختم ہو جاتا ہے اور وی آئی پی کلچر بدل جاتا ہے۔ وی آئی پی ازم دم توڑ دیتا ہے۔ جب تک سماج میں معاشی ناہمواری ہے‘ اونچ نیچ کے سماجی تصوارات ہیں تب تک وی آئی پی ازم موجود رہے گا۔عام لوگ مصائب کا شکار رہیں گے۔مراعات یافتہ طبقہ وی آئی پی ازم کے تحت مزید مراعات لیتا رہے گا۔ اور یہی مراعات وہ غریب اور پسے ہوئے طبقات پر اپنا رعب و دبدبہ قائم کرنے کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ رعب و دبدبے کا سازو سامان‘ بڑی بڑی گاڑیاں‘ ہوٹرز اور پروٹوکول کے ذرائع عوام کے پیسے سے خریدے جاتے ہیں اور یہ عوام کی سہولت اور آسانی کے بجائے ان کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ اس وی آئی پی کلچر کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے عوام کا پیسہ کس بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے‘ اس کا اندازہ ہر سال بجٹ کے موقع پر سرکاری اخراجات کی مد میں خصوصاً سرکاری افسروں کے لیے نئی گاڑیاں خریدنے کے لیے مختص کیے جانے والے بجٹ سے ہوتا ہے۔ ایک سرکاری اہلکار کو سرکار کی طرف سے فراہم کی جانے والی سہولتوں‘ گاڑی‘ ڈرائیور‘ خانساماں‘ مالی‘ چوکیدار‘ چپراسی جیسے ملازمین‘ کی طویل فہرست ملاحظہ فرمائیں اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کو سامنے رکھیں تو یقین نہیں آ سکتا کہ کسی غریب ملک میں جہاں وسائل کی کمی کی شکایت زبان زد عام ہو‘ اس طرح اخراجات کی کوئی جوازیت مہیا کی جا سکتی ہے۔