پاکستان میں نظامِ نو کی تشکیل موجودہ گلے سڑے نظام کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس باب میں گزشتہ کالموں میں مَیں نے نئے نظام کی تلاش میں متبادل نظاموں کا جائزہ پیش کیا تھا۔ بات تھیوکریٹک سوشلزم‘ یوٹوپیائی سوشلزم‘ اخلاقی سوشلزم‘ اور مذہبی سوشلزم سے ہوتی ہوئی کرسچین سوشلزم تک پہنچی تھی۔ مذہبی سوشلزم کے باب میں آگے چل کر اسلامی سوشلزم اور جیوش سوشلزم جیسے تصورات پر بھی بات ہوگی۔ جدید سیکولر سوشلزم‘ سائنٹیفک سوشلزم‘ جمہوری سوشلزم ‘ جدید سرمایہ داری اور نیو لبرل ازم کے نظریات بھی زیر بحث آئیں گے‘ لیکن اس سے پہلے بدھسٹ سوشلزم کے بارے میں چند گزار شات پیش ہیں۔
بدھسٹ سوشلزم ایک سیاسی نظریہ ہے۔ یہ نظریہ بدھ مت کے اصولوں پر مبنی سوشلزم کی وکالت کرتا ہے۔ اس نظریے کے حامی دانشوروں کا خیال ہے کہ بدھ مت اور سوشلزم میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ان حالات کا تجزیہ کرنے پر زور دیتے ہیں جو انسانی مصائب کی وجہ بنتے ہیں۔ اور ان بنیادی اسباب کو عملی طور پر دور کرکے مصائب کا خاتمہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ گویا وہ حالات کے تجزیے کے بعد مصائب کی وجوہات تلاش کرکے ان کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں انسانوں کی سماج سے بیگانگی اور خود غرضی کو ختم کرنے پر اتفاق کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ انسان کے ذا تی یعنی روحانی اور سیاسی شعور میں تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔ تاریخ میں کئی مشہور شخصیات نے بدھسٹ سوشلزم کی بات کی ہے۔ ان میں Buddhadasa Bhikkhu‘ B. R. Ambedkar‘ S. W. R. D. Bandaranaike‘ Han Yong-un‘ Giro Senoo‘ U Nu‘ Uchiyama Gudo اور Norodom Sihanouk جیسے لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں سماجی‘ سیاسی اور نظریاتی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور بدھسٹ سوشلزم کی کسی نہ کسی شکل کا پرچار کرتے رہے۔ انہوں نے جاپان‘ کوریا‘ چین اور بھارت میں بڑی سرگرمی سے بدھ سوشلزم کا پرچار کیا۔
بدھاداسا بھیکھو نے ''Dhammic socialism‘‘ کی اصطلاح تخلیق کی۔ بیسویں صدی کے اس مشہور تھائی فلسفی کا خیال تھا کہ سوشلزم ایک فطری نظام ہے یعنی ایک سوشلسٹ ریاست میں تمام چیزیں ایک نظام میں ایک ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کوریا کا شاعر اور مصلح ہان یونگ ان بھی اپنے سوشلسٹ خیالات کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس کا خیال تھا کہ سوشلسٹ مساوات بدھ مت کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔1931ء میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں یونگ ان نے بدھ سوشلزم کو دریافت کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں کہا کہ جس طرح عیسائیت میں نظریات کے نظام کے طور پر عیسائی سوشلزم ہے‘ اسی طرح بدھ سوشلزم بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح تبت کے چودہویں دلائی لامہ‘ تنزن گائتسو‘ کا نام بھی ان شخصیات کی فہرست میں شامل ہے۔ اس دلائی لامہ نے کہا تھا کہ ''جدید معاشی نظریات میں مارکسزم کا معاشی نظام اخلاقی اصولوں پر قائم ہے‘ جبکہ سرمایہ داری کا تعلق صرف فائدہ اور منافع سے ہے۔ سابق سوویت یونین میں حکومت کی ناکامی میرے لیے مارکسزم کی ناکامی نہیں بلکہ مطلق العنانیت کی ناکامی تھی۔ اسی وجہ سے میں اب بھی اپنے آپ کو آدھا مارکسسٹ‘ آدھا بدھسٹ سمجھتا ہوں‘‘۔ اس سلسلے کا ایک بڑا نام مشہور بدھسٹ پادری اور انارکو سوشلسٹ اُچی یامہ گوڈو کا ہے جس پر غداری کے الزام میں تاریخی مقدمہ چلایا گیا۔ اس وقت کے مشہور اخبار Heimin Shinbun کے جنوری 1904ء کے شمارے میں گوڈو نے لکھا تھا کہ بدھ مت کے پرچار کرنے والے کے طور پر میں سکھاتا ہوں کہ بدھ ازم فطری دھرم ہے اور یہ کہ دھرم کے اندر برابری ہے‘ نہ کوئی برتر اور نہ ہی کمتر ہے۔ مزید برآں‘ میں سکھاتا ہوں کہ تمام مخلوق میرے بچے ہیں۔ ان سنہری اصولوں کو اپنے عقیدے کی بنیاد کے طور پر لینے کے بعد میں نے دریافت کیا کہ بدھ ازم کے یہ اصول سوشلزم کے اصولوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں۔ اس طرح میں سوشلزم کا ماننے والا بن گیا۔
1960ء میں جب حکومتی ظلم و ستم نے جاپان میں سوشلسٹ اور جنگ مخالف تحریکوں کو زیر زمین دھکیل دیا تو گوڈو نے ٹوکیو کا دورہ کیا‘ اس دورے کے دوران اس نے سامان خریدا جسے بعد میں اس نے اپنے مندر کو ایک خفیہ پریس قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔ گوڈو نے پرنٹنگ کے آلات کا استعمال مقبول سوشلسٹ لٹریچر شائع کرنے کے لیے کیا۔ یہ لٹریچر شہنشاہیت کے خلاف عوامی جدوجہد منظم کرنے والوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس وقت ان کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی وہ تحریر تھی‘ جس میں جاپان کی پوری حکومت اور اس کے مطلق العنان شہنشاہی نظام کی سخت مذمت کی گئی تھی۔ اس وقت کی سرکاری تعلیمات کے برعکس‘ اس نے دلیل دی کہ شہنشاہ نہ تو خدا کی طرف سے مقرر کردہ ہے اور نہ ہی '' ظلِ الٰہی‘‘۔ نہ ہی ان کی شہنشاہیت جاپانی عوام کا مقدر تھی۔ اگرچہ ان کی تاریخ 2500 سال پرانی ہے مگر ان کے آباؤ اجداد دیوتا نہیں تھے بلکہ وہ لوگوں کو قتل کرتے اور لوٹتے رہے۔ ان شہنشاہوں نے اپنی تاریخ کا بیشتر حصہ غیر ملکی شاہوں کی کاسہ لیسی کی اور مقامی طور پر ان کے ساتھ کٹھ پتلیوں جیسا سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ گوڈو نے اپنے ملک کی تعلیم یافتہ اشرافیہ کی مذمت کی کیونکہ وہ اس تاریخ اور ان حالات سے اچھی طرح واقف تھے‘ لیکن انہوں نے شاہی خاندان کے حکومتی مؤقف کو پھیلانے کے لیے دوسروں اور خود کو دھوکہ دینے کو ترجیح دی۔
گوڈو کی انقلابی تحریروں کی مقبولیت کے نتیجے میں‘ اسے مئی 1909ء میں گرفتار کیا گیا اور اس پر پریس اور اشاعت کے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ اس کے مندر کی تلاشی کے بعد پولیس نے وہاں دھماکہ خیز آلات بنانے کے لیے استعمال ہونے والا مواد پائے جانے کا دعویٰ کیا۔ نتیجے کے طور پرگوڈو کو جاپان کی تاریخ کے مشہور غداری کے واقعے سے جوڑ دیا گیا‘ جس میں بارہ مبینہ سازش کاروں کو 1911ء میں شہنشاہ کو قتل کرنے کی سازش کرنے پر موت کی سزا سنائی گئی اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔ گوڈو کی جدوجہد اور خدمات کو آنے والے وقتوں میں بدھسٹ اور سوشلسٹ‘ دونوں نے تسلیم کیا۔
1993ء میں بدھ ازم کے سوتو زن فرقے نے گوڈو کی حیثیت کو ایک پادری کے طور پر بحال کیا اور اس بات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جب انسانی حقوق کے احترام کے آج کے معیارات کو دیکھا جائے تو گوڈو کی تحریروں میں ایسی باتیں ہوتی ہیں جنہیں دور اندیشی کہا جانا چاہیے۔ جاپان کے جابرانہ اور فرسودہ شہنشاہی نظام کا غلبہ قائم رکھنا اور اس کو تحفظ دینا بدھ ازم کا کام نہیں تھا۔ اسی طرح سوشلسٹوں نے بھی شہنشاہیت کے خلاف اس کی انقلابی جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے اسے خراجِ عقیدت پیش کیا۔
تاریخ میں آگے چل کر بدھسٹ سوشلزم نے مشرقِ بعید اور جنوب مشرقی ایشیا کی سیاست اور یہاں کی سیاسی تحریکوں پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان ممالک میں بدھ ازم بطور دھرم سوشلزم کے خلاف کھڑا ہونے کے بجائے اس کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ اس طرح بدھسٹ پادریوں اور مذہبی پیشواؤں نے سوشلزم کے خلاف فتوے دینے کے بجائے سوشلزم اور بدھ ازم میں مشترکہ قدریں تلاش کرکے دونوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں مذہبی پیشواؤں کا کردار اس کے بالکل برعکس رہا ہے‘ جس کا تفصیلی جائزہ آئندہ کسی کالم میں لیا جائے گا۔