پاکستان میں مغربی سرمایہ داری نظام کے متبادل معاشی نظام کی بحث بہت پرانی ہے۔ اور یہ بات صرف بحث کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تاریخ کے مختلف ادوار میں یہاں متبادل معاشی نظام کے نفاذ کی عملی کوشش بھی ہوتی رہی۔ اس باب میں اسلامی سوشلزم تک مختلف تصورات زیر بحث آتے رہے۔ پاکستان میں اسلامی سوشلزم کے تصورات کا جائزہ لینے سے پہلے اس کے تاریخی پس منظر پر ایک نظر ضروری ہے۔
اسلامی سوشلزم ایک سیاسی فلسفہ ہے۔ یہ فلسفہ اسلام کے کچھ معاشی و سماجی اصولوں کو سوشلزم کے ساتھ ملا کر پیش کرتا ہے۔ تاریخ میں اسلامی سوشلزم کی اصطلاح کو مختلف مسلمان مذہبی سکا لرز نے سوشلزم کے روحانی اور معاشی پہلو کو بیان کرنے کے لیے وضع کیا تھا۔ اس میں اسلام کے روحانی اور معاشی تصورات کو یکجا کیا گیا تھا۔ اس طرح کے نظریات و رجحانات پر یقین رکھنے والوں کو اسلامی سوشلسٹ کہا جا سکتا ہے۔ اسلامی سوشلسٹ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ قرآن اور پیغمبر اسلامﷺ کی تعلیمات خاص طور پر زکوٰۃ سوشلزم کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہیں اور یہ تعلیمات سوشلسٹ معیشت کی حمایت کرتی ہیں۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے اسلامی سکالر پیغمبر اسلام کی قائم کردہ مدینہ کی فلاحی ریاست سے متاثر ہیں۔ اسلامی سوشلسٹوں کی ابتدا عرب دنیا سے ہوتی ہے۔ آگے چل کر اس کی جڑیں تاریخ میں سامراج مخالف نظریات اور رجحانات میں تلاش کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح کے رجحانات کی جدید شکلیں سلامہ موسیٰ جیسے دانشوروں کی تحریروں میں دیکھی جا سکتی ہیں‘ جنہوں نے سوشلزم کے حق میں اور برطانوی نو آبا دیاتی نظام کے خلاف مصری قوم پرستی کے بارے میں وسیع پیمانے پر لکھا۔ مشہور لکھاری ڈونلڈ ریڈ نے انٹرنیشنل جرنل آف مڈل ایسٹ سٹڈیز میں ''عرب دنیا میں ابتدائی سوشلزم‘‘ کے عنوان سے عرب دنیا میں سوشلزم کی ابتدا اور ارتقا کی تاریخ پر لکھا ہے۔ اس تحریر میں سلامہ موسیٰ کے کام اور جدوجہد پر روشنی پڑتی ہے۔ سلامہ موسیٰ ایک مصری دانشور تھے۔ وہ پہلے اسلامی دانشور تھے جنہوں نے ڈارون‘ نطشے اور فرائیڈ جیسے مغربی دانشوروں اور فلاسفروں کو اسلامی دنیا میں متعارف کروایا۔ موسیٰ نے مصر میں سوشلسٹ خیالات کو مقبولِ عام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انسائیکلو پیڈیا آف عریبک لٹریچر کے مطابق موسیٰ نے مصر میں لبرل تحریکوں کی حمایت کی۔ ان کو مصر میں اپنے نظریات کے پرچار کے جرم کی پاداش میں بار بار پابندِ سلاسل کیا جاتا رہا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں انہوں نے مصر کی فکری اور سیاسی زندگی میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ یہ دور مصر کی ثقافت اور ادب میں انقلابی دور گردانا جاتا ہے۔ اس دور میں سلامہ موسیٰ مصر میں پہلی سوشلسٹ پارٹی کا قیام عمل میں لائے‘ لیکن ان کا ایک بڑا کارنامہ سائنٹفک اکیڈمی برائے تعلیم کا قیام تھا۔ اس اکیڈمی نے ایک عشرے تک مصری نوجوانوں کو جدید سائنسی اور عقلی تعلیم کی طرف مائل کیا اور ان کی فکری رہنمائی میں کلیدی کردار ادا کیا‘ لیکن بدقسمتی سے ایک عشرے کی کامیابی کے بعد مصری حکومت نے اس اکیڈمی پر پابندی لگا دی۔ ابتدائی طور پر سوشلسٹ تصورات کے حامل اسلامی سوشلسٹ زیادہ تر عوام سے حکومت کرنے کا جواز حاصل کرنے پر یقین رکھتے تھے اور سماجی بہبود اور زکوٰۃ کے تصور پر مبنی سماجی و معاشی نظام نافذ کرنا چاہتے تھے۔ عملی طور پر اس کا مظاہرہ کچھ ممالک میں گارنٹی شدہ آمدنی‘ پنشن اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کے ذریعے دیکھا گیا۔ اسلامی سوشلزم سے ملتے جلتے نظریات اور تصورات کی تاریخ پیغمبر اسلام اور خلفائے راشدینؓ سے لے کر 1970ء کی دہائی میں قائم ہونے والی جدید سیاسی جماعتوں تک پھیلی ہوئی ہے۔
اسلامی سوشلزم کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ ان تصورات کا آغاز اسلام کے ابتدائی دنوں میں دکھائی دیتا ہے۔ اگر تاریخ میں پیچھے تک جایا جائے تو اسلامی سوشلزم کے نظریات کی روایت میں حضرت ابو ذر غفاریؓ جیسے صحابہ کرام کا نام آتا ہے۔ پیغمبر اسلام کے ان قریبی ساتھی کو محمد شرقاوی اور سامی آیاد حنا نے اسلامی سوشلزم کا ایک اہم حوالہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ نے سماجی معاشی مسائل پر اپنا مؤقف بڑی سرگرمی سے پیش کیا۔ انہوں نے دولت جمع کرنے کے رجحانات کے خلاف احتجاج کا باقاعدہ آغاز کیا اور دولت کی منصفانہ تقسیم پر زور دیا۔ حضرت عثمانؓ سے پہلے حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کم از کم آمدنی کا معیار متعارف کرایا، جس میں ہر ایک مرد‘ عورت اور بچے کو دس درہم سالانہ دیے گئے جسے بعد میں بڑھا کر بیس درہم کر دیا گیا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کی سماجی فکر اور معاشی فلسفہ آگے بڑھتا رہا۔ آنے والے وقتوں میں اس فلسفے کا اظہار مختلف اوقات میں مختلف ممالک میں ہوا۔
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں تاتارستان‘ روس میں ایک وائسی نامی تحریک تھی جو جدید اسلامی تاریخ میں اسلامی سوشلزم کا اولین اظہار تصور کی جاتی ہے۔ اس تحریک نے روسی سلطنت کی حکمرانی کی مخالفت کی اور اسے مسلم کسانوں‘ کاشتکاروں اور چھوٹے بورژوا طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ اس تحریک کو روسی حکام کے جبر کا سامنا کرنا پڑا اور بیسویں صدی کے اوائل میں یہ تحریک زیر زمین چلی گئی۔ اس دوران اس نے حکومت مخالف سرگرمیوں میں کمیونسٹوں‘ سوشلسٹوں اور سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ تعاون کرنا شروع کر دیا۔ یہ تحریک 1905ء کے روسی انقلاب کے بعد اپنی شناخت ایک اسلامی سوشلسٹ تحریک کے طور پر کرنے لگی۔ اس تحریک نے 1917ء کے روسی انقلاب کے دوران لینن کی قیادت میں بالشویکوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ اس اتحاد کے دوران اس تحریک نے پہلا تجرباتی اسلامی کمیون نظام بھی قائم کیا۔ 1924ء میں روسی انقلابی ولادیمیر لینن کی موت کے بعد وائسی تحریک نے کمیونسٹ پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد یہ تحریک کچھ عرصہ تک زندہ رہی اور 1930ء کی دہائی میں اس تحریک کو کامیابی سے دبا دیا گیا۔
اس طرح کی ایک انقلابی تحریک ایران میں بھی شروع ہوئی۔ ایرانی دانشور محمد نخشب نے اسلام اور یورپی سوشلزم کے درمیان مماثلت ثابت کرنے پر بڑا کام کیا۔ نخشب کی تحریک اس اصول پر مبنی تھی کہ اسلام اور سوشلزم متضاد نہیں ہیں کیونکہ دونوں سماجی مساوات اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔ 1943ء میں نخشب نے ''خدا کی عبادت کرنے والے سوشلسٹوں کی تحریک‘‘ کی بنیاد رکھی جو نیشنل فرنٹ کی چھ اصل رکن تنظیموں میں سے ایک ہے۔ اس تنظیم کو ابتدا میں لیگ آف پیٹریاٹک مسلمز کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے مذہبی جذبات‘ قوم پرستی اور سوشلسٹ خیالات کو یکجا کیا۔ 1953ء میں محمد مصدق کی زیر قیادت نیشنل فرنٹ کی حکومت کے خلاف بغاوت کے بعد ایران میں اسلامی سوشلزم نے مزید بنیاد پرست موڑ لیا۔ اس تحریک میں محنت کش طبقے کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیموں اورعلی شریعتی کے زیر اثر مارکسی نظریات رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوئے۔ اس دوران ایران کی شاہ کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد بھی شروع ہوئی جس کا اختتام بالآخر ایرانی انقلاب کی صورت میں ہوا جس نے 1979ء میں شاہ کا تختہ الٹ دیا۔ انقلاب کے بعد قائم ہونے والی آمریت پسندی کے خلاف انہوں نے مزاحمتی کردار ادا کیا مگر ان لوگوں کو بے دردی سے کچل دیا گیا۔ برصغیر پاک و ہند میں اسلامی سوشلزم کی تاریخ مولانا عبیداللہ سندھی سے ہوتی ہوئی ذوالفقار علی بھٹو تک پہنچتی ہے۔ اس تحریک پر آئندہ کسی کالم میں روشنی ڈالی جائے گی۔