کشمیر کی تاریخ بہت قدیم اور عظیم ہے‘ قابلِ فخر ہے مگر اس تاریخ میں رونما ہونے والا ہر واقعہ اور ہر عمل قابلِ فخر نہیں خواہ یہ حکمران طبقات کی طرف سے سرزد ہوا ہو یا عوام نے اسے سر انجام دیا ہو۔ دنیا کی دیگر قوموں اور قومیتوں کی تواریخ کی طرح کشمیر کی تاریخ میں بھی بہت سے ایسے عوامل اور واقعات ہیں جن پر خود کشمیری بھی افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ کشمیر کی تاریخ کا ایک پہلو یہ رہا ہے کہ یہاں سماجی اور سیاسی پولرائزیشن کا عمل بہت گہرا رہا ہے۔ اس پولرائزیشن یا تقطیب کی کئی جہتیں رہی ہیں۔ ان میں ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر ازلی دشمنی‘ روایتی سیاسی مخاصمت‘ قبائلی اور علاقائی تفرقہ بازی جیسے رویے اور مظاہر عام رہے ہیں۔ تاریخ میں اس طرزِ عمل کے مظاہر مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہے ہیں۔ اس عمل کا سب سے بدصورت یا گھناؤنا پہلو یہ رہا ہے کہ اَنا پرستی اور نرگسیت پسندی کے شکار کچھ رہنما اپنے مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے غیرملکی حملہ آوروں کی طرف دیکھتے رہے۔ اس عمل میں کبھی مغلوں کو حملے کی دعوت دی جاتی رہی‘ کبھی افغانوں کو نجات دہندہ بنا کر لایا جاتا رہا اور کبھی سکھوں کو اس دھرتی پر طبع آزمائی کا موقع دیا گیا۔ اس سلسلۂ عمل کے دوران باہم متصادم رہنما آپس میں الجھ کر غیرملکی فوجوں کو دعوت دیتے رہے اور اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے بیرونی حملہ آوروں کو اپنے وطن پر قابض ہونے میں مدد دینے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہے۔ یہ ایک المناک اور طویل تاریخی عمل تھا جس کے دوران کشمیریوں کی ایک خاص نفسیاتی ساخت بنی ہے۔ یہ نفسیاتی تشکیل اب بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی‘ البتہ اس کی شکل بدل گئی ہے۔
جس طرح یہ ہاتھیوں اور گھوڑوں کے ذریعے قوموں اور ریاستوں کو فتح کرنے کا زمانہ نہیں رہا‘ اسی طرح سہولت کاری کے پرانے انداز بھی بدل گئے ہیں۔ اس سہولت کاری میں کہیں عوامی خواہشات کی ملمع کاری‘ کہیں جمہوری عمل اور ووٹ کی نقش نگاری ہے۔ کہیں حکومت کرنے کی خواہش میں سہولت کاری کی جاتی ہے اور کہیں مال و زر کی ہوس میں یہ کام ہو رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ اکیسویں صدی ہے جس میں فتح اور قبضے کے طریقے بدل گئے ہیں لیکن کشمیری نئے طریقوں اور نت نئے انداز سے باہم دست و گریبان ہیں۔ کہیں مذہب و ملت کے نام پر‘ کہیں نظریے اور عقیدے کے نام پر اور کہیں تاریخ و ثقافت کی روشنی میں عوامی خواہشات کے نام پر سہولت کاری کا عمل جاری ہے۔ برصغیر کی دیگر کئی ریاستوں کی طرح کشمیر‘ تاریخ کے طویل ادوار میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست رہی ہے۔ دوسری طرف بسا اوقات برسہا برس تک اس ریاست پر بیرونی قبضہ بھی رہا ہے جس کے نتیجے میں کشمیریوں کے اندر ایک خاص قسم کے نفسیاتی رویے تشکیل پا چکے ہیں۔ اس قسم کے رویے عموماً طویل غلامی کے نتیجے میں تشکیل پاتے ہیں۔ غلامی کی نفسیات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جن قوموں میں اس طرح کی نفسیات تشکیل پا جائے ان میں خود اعتمادی اور اپنے آپ پر یقین کا عنصر بہت کم ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ زندگی کی کشتی کو دوسروں کے سپرد کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور خود اپنے آپ کو چپو تھامنے کے قابل نہیں سمجھتے۔ خود پر عدم اعتماد کے اس عمل کی وجہ سے سیاسی اور سماجی سطح پر تقسیم در تقسیم کا عمل شروع ہوتا ہے‘ جس میں لوگ چھوٹے چھوٹے سماجی و سیاسی گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ تقسیم کے اس عمل کا شکار ہونے کے بعد لوگ جو بھی کوئی مشترکہ سماجی یا سیاسی مسئلہ اٹھاتے ہیں‘ وہ ان کے باہمی اختلافات کی نذر ہو جاتا ہے۔ مشترکہ مسئلہ ہونے کے باوجود اس کے حل کے لیے جو تحریک بھی اٹھتی ہے وہ کچھ عرصے بعد دم توڑ دیتی ہے۔
حال ہی میں ایک مقبول کشمیری رہنما یاسین ملک کو بھارت میں دہشت گردی کی مالی اعانت کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے اور دیگر ملتے جلتے الزامات میں ان کے خلاف جموں کی عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ یاسین ملک دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں جہاں سے وہ اپنے مقدمات کی خود پیروی کر رہے ہیں۔ یاسین ملک کی سزا کے خلاف ریاست جموں و کشمیر کے مختلف حصوں میں جہاں بھی ان کے ہم خیال پائے جاتے ہیں وہ مختلف اوقات میں احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ ان کے کئی ہم خیال لوگ ان کی حمایت میں کچھ کرنے کے لیے بے تاب و بے چین ہیں لیکن ان کا خلوص اور بے تابی گروہ بندی کی سیاست کا شکار ہو کر دم توڑ دیتی ہے۔ اگر کوئی ایک گروہ یاسین ملک کی حمایت میں جلوس کا اعلان کرتا ہے تو دوسرا گروہ پیچھے رہ جانے کے خوف سے اور اس گروہ کی طرف سے میلہ لوٹ لے جانے کے ڈر سے اسی دن جلسے کا اعلان کر دیتا ہے۔ ایک گروہ دھرنا دینے کا علان کرتا ہے تو دوسرا گروہ بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیتا ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے گاہے بڑے پیمانے پر عوامی رائے عامہ کو منظم کرنے کا جو نایاب یا سنہری موقع پیدا ہوتا ہے‘ وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اس طرح ریاست کے لوگ بار بار موقع آنے کے باوجود اپنی جدو جہد کے ثمرات سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں اور اپنی جدو جہد کے حوالے سے ایک دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔
ریاست کے لوگوں کی ایک قابلِ ذکر تعداد بیرونی ممالک میں مقیم ہے جہاں ان کو سفارتی سطح پر قابلِ لحاظ کام کرنے کے مواقع میسر ہیں لیکن یاسین ملک کا مقدمہ لے کر وہ مخمصے کا شکار ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یاسین ملک پر جو مقدمے چل رہے ہیں وہ دہشت گردی کے الزامات کے تحت ہیں۔ ان لوگوںکا خیال ہے کہ اس وقت دہشت گردی کو لے کر دنیا میں جو ماحول بن چکا ہے اس میں سفارتی سطح پر تحریری طور پر یاسین ملک کا دفاع کرنے کے لیے ماحول زیادہ ساز گار نہیں ہے۔ اس ماحول میں جب الزامات دہشت گردی کے ہوں اور مقدمات عدالتوں میں ہوں تو اپنی بات سنانے کے لیے کسی ہمدرد کان کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے کو لے کر کوئی خبر بڑے عالمی ذرائع ابلاغ میں کم ہی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے سارا زور آزاد کشمیر کے اردو اخبارات یا سوشل میڈیا کی حد تک محدود ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان کے بڑے قومی اخبارات میں بھی اس مقدمے کو لے کر کوئی قابلِ ذکر تحریر خال خال ہی نظر آتی ہے۔ اس مقدمے کو لے کر ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکمران اشرافیہ کا ایک حصہ گاہے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ یاسین ملک کی اس آزمائش میں وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس حوالے سے وہ ان کی مکمل طور پر حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ اعلان بھی عموماً دریائے جہلم کے اس پار مقامی لوگوں کی اشک شوئی کے لیے کیا جاتا ہے جن کی بنیادی سہولتوں اور بنیادی حقوق کے سوال پر حکمران اشرافیہ اکثر اوقات ان سے تصادم کی حالت میں رہتی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ حکمران اشرافیہ محض عوام کی حساسیت یا جذباتیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہوتی ہے اور ا س کے اعلانات اور بیانات محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتے۔