الیکشن کمیشن کا فیصلہ آگیا۔ یہ فیصلہ آنے والے دنوں میں مختلف فورمز پر زیرِ بحث رہے گا۔ مقدمے کے مدعی کا کہنا ہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی جنگ تھی اور آٹھ سالہ جدوجہد کے بعد انہوں نے اس جنگ کی ایک لڑائی جیت لی ہے۔ مگر زمین پر موجود تلخ حقائق بتاتے ہیں کہ یہ معاملہ ابھی ہار جیت سے بہت دور ہے۔ ابھی تک اس لڑائی کا صرف فورم بدلا ہے۔ اب یہ لڑائی سپریم کورٹ میں لڑی جائے گی اور عوام کے فورم پر بھی اس لڑائی میں تیزی آئے گی۔ فیصلے کے مندرجات سے عوام آگاہ ہو چکے ہیں‘ تفصیلات میں جانا بیکار ہے؛ البتہ نچوڑ یہ ہے کہ تحریک انصاف نے غیر ملکی کمپنیوں اور غیر ملکی افراد سے فنڈز وصول کیے‘ جو ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہ فنڈز امریکہ‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا اور متحدہ عرب امارات میں رجسٹرڈ کمپنیوں اور یہاں رہائش پذیر افراد سے وصول کیے گئے۔ ایسے لوگوں سے رقوم وصول کی گئیں جن پر ماضی میں مجرمانہ سرگرمیوں اور دھوکہ دہی کے الزامات تھے۔
اکیس لاکھ اکیس ہزار پانچ سو ڈالر کی رقم دبئی کی ایک کمپنی سے ایک کاروباری شخصیت عارف نقوی نے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں منتقل کی تھی۔ اس طرح پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر ایک کمپنی سے ڈونیشن وصول کی‘ جو ایک ایسے کاروباری ٹائیکون کے ذریعہ چلائی جا رہی تھی جو مجرمانہ سرگرمیوں اوردھوکہ دہی میں ملوث تھا۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ پارٹی نے جان بوجھ کرحقائق چھپائے۔ تحریک انصاف کو 2018ء سے لے کر سے 2021ء تک کافی وقت دیا گیا۔ اس سلسلے میں اگر کوئی چیز ظاہر ہونے سے رہ گئی تھی تو سامنے لا سکتے تھے۔ فیصلے کے مطابق پارٹی فنڈنگ کے ذرائع ظاہر کرنے میں ناکام رہی۔ دبئی سے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹ میں ایک ایسے شخص کی جانب سے فنڈز بھی بھیجے گئے جس کی شناخت عارف نقوی اور پی ٹی آئی دونوں نے ظاہر نہیں کی۔
فیصلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے امریکہ میں دو کمپنیاں رجسٹر کی گئیں‘ جنہوں نے پانچ لاکھ پچیس ہزار پانچ سو ڈالر اکٹھے کیے‘ لیکن یہ پیسہ وصول کرتے ہوئے انہوں نے فرد اور اداروں یا پاکستانی اور غیر پاکستانی شہریوں میں فرق نہیں کیا۔ ان دوکمپنیوں کو تین سو اکیاون کمپنیوں اور چونتیس غیرملکی شہریوں سے عطیات موصول ہوئے۔ پارٹی کے مقرر کردہ ایجنٹوں نے پاکستانی قوانین پر عمل نہیں کیا‘ جو صرف پاکستانی شہریوں سے فنڈز وصول کرنے کی اجازت دیتے ہیں‘ غیر ملکی شہریوں سے فنڈز وصول کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ چونکہ پی ٹی آئی کی جانب سے عطیہ دہندگان کی قومیت کا کوئی ڈیٹا بیس فراہم نہیں کیا گیا تھا‘ اس لیے الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کو عطیہ دہندگان کی فہرست میں موجود لوگوں کو اس بنیاد پر شناخت کرنے پر مجبور کیا گیا‘ جو پاکستانی دکھائی دیتے ہیں اور جو پاکستانی دکھائی نہیں دیتے۔
پی ٹی آئی کے پاس کینیڈا میں ایک کارپوریشن رجسٹرڈ تھی لیکن اس نے کینیڈا کے پرائیویسی قوانین میں پناہ لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ رقم کہاں سے اکٹھی کی جا رہی تھی۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر مکمل انکشاف نہ کر کے پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر حقائق چھپانے‘ غلط بیانی سے کام لینے اور جھوٹ بولنے کی کارروائیاں کیں۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ کینیڈا میں مقیم مذکورہ کارپوریشن ایک غیر ملکی کمپنی ہے جس کی طرف سے فنڈز کی منتقلی پولیٹکل پارٹیز آرڈیننس 2002ء کے تحت ممنوع ہے۔ اسی طرح کی غیر ملکی متصور ہونے والی کمپنیاں پی ٹی آئی کے ذریعے برطانیہ اور آسٹریلیا میں بھی قائم گئی تھیں‘ جنہوں نے پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس میں رقوم منتقل کیں جبکہ پاکستانی قانون غیر ملکی رجسٹرڈ کمپنیوں کو مقامی سیاسی جماعتوں کو فنڈز دینے کی اجازت نہیں دیتا۔ غیر ملکی کمپنیوں کے علاوہ پارٹی نے چونتیس غیر ملکی شہریوں سے 35 ہزار 651 ڈالر کے عطیات وصول کیے۔ پارٹی نے 13 بینک اکاؤنٹس کی ملکیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا‘ لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ اکاؤنٹس پی ٹی آئی کے نام پر کھولے گئے۔ کچھ اکاؤنٹ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے کھولے تھے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ان اکاؤنٹس سے انکار کے باوجود رقم بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی جا رہی تھی۔ پارٹی یعنی مقدمے کا جواب دہندہ پوری طرح سے اس صورتحال سے باخبر تھا اس لیے اکاؤنٹس کی ملکیت سے انکار کے موقف کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پی ٹی آئی ان اکاؤنٹس کو ظاہر کرنے میں ناکام رہی‘ جو پارٹی کی سینئر قیادت کے ذریعے چلائے جا رہے تھے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس بات کی تصدیق کے لیے فارم ون جمع کرایا کہ پارٹی پاکستانی قوانین کے مطابق چل رہی ہے لیکن الیکشن کمیشن اپنے سامنے دستیاب ریکارڈ کی بنیاد پر یہ ماننے پر مجبور تھا کہ مسٹر عمران خان پاکستانی قوانین کے تحت اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے اور یہ کہ ان کی طرف سے جمع کرائی گئی گزارشات انتہائی غلط تھیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 17 کی ذیلی دفعہ تین کے مطابق ہر سیاسی پارٹی قانون کے مطابق اپنے فنڈز کے ذرائع بتانے کی پابند ہے۔ اسی طرح پاکستان پولیٹکل پارٹیز آرڈیننس کے آرٹیکل چھ کی ذیلی دفعہ تین کے تحت یہ واضح ہے کہ کسی بھی غیر ملکی حکومت‘ ملٹی نیشنل‘ لوکل کمپنی‘ پرائیویٹ کمپنی‘ فرم‘ تجارتی یا پیشہ ورانہ انجمن کی طرف سے فنڈنگ ممنوع ہے اور پارٹیاں صرف افراد سے فنڈز وصول کر سکتی ہیں۔ اس طرح اس مسئلے پر پاکستانی قانون بالکل واضح ہے۔
فیصلے پر پارٹی کی طرف سے کئی طرح کا ردعمل آیا ہے۔ پارٹی نے دو قسم کی پٹیشن فائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک پٹیشن توہین عدالت کی ہوگی جس کے مطابق الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ نواز اور پی پی پی کے فنڈنگ کیس کا فیصلہ نہیں کیا‘ جو بقول ان کے عدالتی احکامات کے مطابق ضروری تھا۔ دوسری پٹیشن کے تحت پورے فیصلے کو ہی چیلنج کیا جائے گا‘ جس میں قانون اور حقائق میں موجود کمزوریوں اور تضادات کو بنیاد بنایا جائے گا۔ دوسری طرف حکومت کے پاس اپنے آپشنز ہیں‘ جس میں آئینی طریقہ کار کے مطابق سپریم کورٹ کے ذریعے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا شامل ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اس کا فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ ممنوعہ فنڈنگ کیس پر الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کو ڈیکلریشن بھیجا جائے گا۔ لیکن جہاں تک عوام اور سیاست دانوں کے رد عمل کی بات ہے تو کافی حیرت انگیز ہے۔ فیصلے پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کسی قسم کی شرمندگی کا اظہار نہیں کیا۔ اپنے خلاف آنے والے اس فیصلے کو اس طرح بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے یہ ان کی فتح ہو۔ اس میں دو قسم کا مؤقف عام ہے۔ ایک یہ کہ اس فیصلے کی نہ تو کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اس کی وجہ سے پارٹی اور اس کے رہنما کی سیاسی حیثیت پر کوئی خاطر خواہ اثر پڑ سکتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ ایک معمولی کیس کا گمراہ کن فیصلہ ہے جو الیکشن کمیشن کے بغض اور دشمنی کا مظہر ہے‘ جس کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کے خلاف لڑا جائے گا۔
اس فیصلے پر بے شمار قانونی سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں‘ جن کی وجہ سے یہ فیصلہ کسی اعلیٰ عدالت کے معیار پر پورا نہیں اترتا‘ مگر اخلاقی طور پر یہ اس پارٹی کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جس کا رہنما سیاست میں اصول‘ اخلاقیات اور شفافیت پر بہت زیادہ زور دیتا ہو اور ملک میں مالی بد عنوانیوں کے خاتمے کا داعی ہو۔ البتہ اس فیصلے کی بنیاد پر پارٹی کو سیاست سے باہر نکالنے کی گنجائش بہت کم ہے۔ اس طرح کے کسی اقدام کے بہت منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔