سری لنکا کے بحران سے جن لوگوں نے انقلاب کی امید باندھ لی تھی‘ ان کو مایوسی ہوئی۔ تاریخی اعتبار سے بحران وقتاً فوقتاً انقلاب کا پیش خیمہ ضرور ثابت ہوئے ہیں مگر صرف بحران سے انقلاب نہیں آ سکتا۔ بحران محض ایک عنصر ہوتا ہے‘انقلاب کے لیے منظم انقلابی پارٹی اور شعور کے ہتھیاروں سے لیس عوام کی ضرورت ہوتی ہے۔ پارٹی عوام کی انقلاب کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اس سال موسم گرما میں سری لنکا میں معاشی بحران کی وجہ سے عوامی بغاوت برپا ہوئی۔ اس بغاوت کے نتیجے میں حکومت کا تختہ بھی الٹ دیا گیا۔ ملک کے صدر کو جلاوطن ہونا پڑا۔ یہ بغاوت مہینوں چلتی رہی۔ اس دوران عوام کی رہنمائی کرنے والوں نے صدارتی محل پر قبضہ کیا۔ سوئمنگ پول میں تیراکی سے لطف اٹھایا۔ سرکاری باورچی خانے میں کھانا کھایا۔ حکمران اشرافیہ کے پر تعیش بستر اور خواب گاہیں دیکھیں۔ ان میں سے کوئی حرکت بھی انقلابیوں والی نہیں تھی اور ان حرکات سے انقلاب کی امید عبث تھی۔ نہ عوام کو اس طرح منظم کیا گیا اور نہ ہی کوئی ایسی منظم سیاسی قوت ابھر کر سامنے آ سکی جو بحران کی اس کیفیت میں عوام کی درست رہنمائی کر سکتی۔ نئے لوگ اقتدار پر براجمان ہو گئے مگر انہوں نے نہ تو کوئی نیا پروگرام دیا اور نہ ہی کوئی ایسا کام کیا جس سے لگتا کہ وہ پچھلے حکمرانوں سے مختلف ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ سری لنکا کے ان انوکھے انقلابیوں نے پورے جنوبی ایشیا میں حکمران طبقات کے لیے خوف ضرور پیدا کر دیا۔ اس خطے کی حکمران اشرافیہ نے کولمبو میں ہونے والی افراتفری کو دیکھا اور خوف سے سوچا کہ کیا ان کو بھی اس سے ملتے جلتے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ مگر بد قسمتی سے اس خوف کے باوجود حکمران اشرافیہ نے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ پورے جنوبی ایشیا میں عوام کا طرزِفکر‘ طرزِ زندگی اور طرزِ حکمرانی ویسے کا ویسے ہی رہا۔ کسی نے اپنے پر تعیش طرزِ زندگی میں کٹوتی کرنے‘ سادگی اختیار کرنے اور عوام کے وسائل میں بچت کے لیے کسی نئی پالیسی کا عندیہ نہیں دیا۔
سری لنکا کی اس سنگین صورتحال کے کئی اسباب تھے۔ یہاں اجناس کی قیمتوں میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا تھا۔ حکمران قرضوں کے زبردست بحران کا کوئی قابلِ عزت حل نکالنے میں ناکام ہو چکے تھے۔ برسہا برس کی کر پشن‘ نا انصافی اور اقربا پروری نے سماج کو اندر سے ہلا دیا تھا۔ ان سب عوامل کے نتیجے میں ملک کی معیشت روبہ زوال تھی۔ سری لنکا کی صورتِ حال پاکستان کے لیے خاص طور قابلِ توجہ تھی۔ پاکستان کا بہت زیادہ انحصار بیرونی قرضوں پر ہے۔ یہ قرض اور اس قرض کے بڑھتے ہوئے اخراجات ملک کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ بہت سی مماثلت کے باوجود واضح فرق یہ ہے کہ سری لنکا رقبے اور آبادی کے اعتبار سے ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے۔ پاکستان رقبے کے اعتبار ایک بڑا ملک ہے اور اس میں دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ہے۔ اس کے پاس 340 بلین ڈالر کی معیشت ہے۔ ان فوائد کے باوجود اس کی مشکلات اور چیلنجز کم نہیں ہیں۔ پچھلے چھ سالوں میں پاکستان کی معاشی پیداوارمیں ریکارڈ کمی ہوئی ہے اورملکی محصولات بھی کم ہوئے ہیں۔ کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی ہے‘ زر مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوئے ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا‘ ملک میں رشوت‘ سفارش اور کرپشن میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ملک کا کل غیر ملکی قرضہ ہے‘ جو 126 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے‘ لیکن ملک اپنے پُر تعیش انتظامی اخراجات کو پورا کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ہر آنے والی حکومت قرضہ لینے کی دوڑ میں سابقہ حکومت سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہوتی ہے۔ جون میں پاکستان کی نئی حکومت نے اپنے غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے کے لیے چین سے مزید 2.3 بلین ڈالر قرض لینے میں کامیاب ہونے پر جشن منایا۔ اس نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ 6 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کو جاری رکھنے پر بات چیت جاری رکھنے اور کامیابی کی طرف پیش قدمی پر اپنے آپ کو شاباش بھی دی۔
ہر حکومت کا قرضوں کے بارے میں طرزِ فکر اور طرزِ بیان کچھ ایسا ہوتا ہے گویا پاکستان کے تمام مسائل کا حل قرضے کے لیے اگلے مذاکرات کی کامیابی اور اگلی قسط کی وصولی میں مضمر ہے۔ حالانکہ یہ قرضے پاکستان کے مسائل کا حل نہیں بلکہ محض تھوڑا سا وقت خریدنے کے مترادف ہیں۔ یہ پالیسی مسائل کے حل کے بجائے مسائل کو التوا میں ڈالنے اور ان سے دامن بچانے کی پالیسی ہے۔ مگر اس پر ہر نئی حکومت پورے جوش و خروش سے عمل پیرا ہوتی ہے‘ گویا کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ معاشی خود انحصاری یا مستقبل میں قرضوں سے آزاد ملک کا تصور ہی موجود نہیں۔ ہر آنے والا حکمران نئے قرضے لینے کی اپنی پالیسی یا صلاحیت تو ضرور بیان کرے گا مگر ان قرضوں سے جان چھڑانے کے لیے کوئی معقول یا قابلِ عمل فارمولا نہیں پیش کرتا اور نہ ہی کسی معقول دلیل کی روشنی میں یہ بتاتا ہے کہ ان قرضوں کی ادائیگی کیسے ہوگی۔اس کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے۔ اس کے بجائے گفتگو کا دائرہ ان قرضوں کے سود اور اخراجات کی ادائیگی تک محدود ہوتا ہے۔
قرضوں کے حوالے سے پاکستان کا دارمدار بڑی حد تک چین پر ہے۔ اسلام آباد اپنے غیر ملکی قرضوں کے تقریباً ایک چوتھائی کے لیے بیجنگ کا مقروض ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کا بنیادی ستون چین پاکستان اقتصادی راہداری میں 62 بلین ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کا وعدہ ہے جو کہ پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو بیجنگ کی وسیع انفراسٹرکچر سرمایہ کاری میں کسی واحد ملک کا سب سے بڑا پروگرام ہے‘ جسے'' بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ کے نام سے جانا ہے۔ اس انیشی ایٹو کے تحت کئی منصوبے ہیں۔ ان اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں پاکستان میں بڑے پیمانے پر انفراسٹرکچر نیٹ ورک تیار کرنا شامل ہے‘ جس میں ایک بڑی بندرگاہ‘ 7.2 بلین ڈالر کا ریلوے پروجیکٹ‘ لاہور میں دو بلین ڈالر کا میٹرو سسٹم‘ ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس جیسے درجنوں منصوبے شامل ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیا ن متعدد خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کا چین کا عزم امریکہ سمیت دیگر ذرائع سے پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور غیر ملکی امداد کی مجموعی مقدار سے زیادہ ہے۔
چینی سرمایہ کاری بہت زیادہ ہے لیکن اس کے ابھی تک نتائج سامنے نہیں آئے‘ جن کا عوام سے وعدہ کیا گیا تھا۔ ان میں سب سے بڑا اور خوش کن وعدہ مقامی آبادی کو روزگار کی فراہمی تھی لیکن ان منصوبوں سے پاکستان کے اندر مقامی روزگار کے عمل کو خاطر خواہ فروغ نہیں ہوا۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے قرضوں سے جو ملک کی تقدیر بدلنے کی باتیں ہو رہی ہیں‘ عملی طور پر اس کے امکانات بھی بہت کم ہیں۔ اس ادارے کی تمام شرائط ماننے کے باوجود اس قرضے سے وابستہ کرشماتی بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔ قرض خواہ کہیں سے ہو اور کتنا زیادہ ہو‘ یہ ملک کو درپیش مسائل کا حل نہیں۔ ان مسائل کے حل کے لیے پالیسی میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ پالیسی میں تبدیلی ہی کافی نہیں‘ملک کے اندر مروجہ مائنڈ سیٹ میں بھی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ موجودہ فرسودہ اور گلی سڑی پالیسیوں کی جگہ تازہ سوچ کے زیر اثر ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جو عوامی مفادات اور حقوق کو پیش نظر رکھ کر ترتیب دی گئی ہو۔