پاکستان اور بھارت نے تین روز قبل اپنی اپنی آزادی کا جشن منایا۔ یہ جشن گزشتہ پچھتر برسوں سے ہر سال باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سا تھ عوام کے جوش و خروش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر تقریبات سرکاری سرپرستی میں اور شہری علاقوں تک محدود ہوتی ہیں۔ گاہے غیر سرکاری تقریبات بھی ہوتی ہیں‘ جن میں زیادہ تر کاروباری اور تجارت پیشہ لوگ شامل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دیگر تقریبات کی طرح ان تقریبات کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے ایک اچھا موقع تصور کرتے ہیں۔ اس طرح کچھ دوسرے لوگ اور گروپ بھی ان تقریبات میں متحرک ہوتے ہیں جو ان تقریبات کو سوشل نیٹ ورکنگ‘ اپنے کسی فن کے اظہار‘ شاعری‘ ادب اور فنونِ لطیفہ کے فروغ اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے عوام کی بہت بڑی اکثریت شہروں سے باہر‘ دور دراز کے دیہات اور قصبوں میں رہتی ہے۔ ان پسماندہ اور در دراز دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی ہے۔ ان علاقوں میں آباد لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد پینے کے صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ صحت و تعلیم کی جن سہولتوں کو اب دنیا میں شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق تصور کیا جاتا ہے‘ وہ ان لوگوں کو میسر نہیں۔ ان علاقوں میں اعداد و شمار کے برعکس حقیقی زندگی میں شرح خواندگی بھی بہت کم ہے۔ کمیونیکیشن کے ذرائع تک لوگوں کی رسائی بہت کم ہے؛ چنانچہ عوام کی ایک بڑی تعداد کا آزادی کا جشن منانے اور ایسی دیگر سرگرمیوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ ان کو ریڈیو‘ ٹی وی یا دوسرے ذرائع ابلاغ سے اس جشن کی خبر مل جاتی ہے۔ ان ملکوں کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بسلسلۂ روزگار ملک سے باہر دیگر ممالک میں آباد ہے۔ بیرونی ممالک میں تارکینِ وطن کی مختلف تنظیموں اور انجمنوں کے زیر اہتمام یہ جشن اندرون ملک کی نسبت کہیں زیادہ زور و شور سے منائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک ایک شہر میں دس دس تقریبات ہوتی ہیں۔ ان میں زیادہ تر سرکاری سرپرستی میں ہوتی ہیں لیکن سرکاری سرپرستی کے بغیر بھی کئی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
ایسی تقریبات کا انعقاد اپنی جگہ بالکل بجا‘ مگر یہ جشن مناتے ہوئے اس بات پر بھی غور ہونا چاہیے کہ جس آزادی کا ہم جشن منا رہے ہیں وہ کیا واقعی ہمیں حاصل ہے؟ اور ظاہر ہے اس سے پہلے اس بات پر غور ہونا چاہیے کہ آزادی ہوتی کیا ہے؟ کیا آزادی کا مطلب صرف غیرملکی قبضے کا خاتمہ ہے؟ یعنی انگریزوں کا برصغیر سے نکل جانے اور اقتدار کی باگ ڈور پاکستان و بھارت کے مقامی حکمرانوں کو منتقل ہونے کے عمل کو آزادی کہا جا سکتا ہے؟ اس بات پر باشعور حلقوں میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ کسی بھی ملک سے غیرملکی قبضے کے خاتمے کو اس ملک کے عوام کی آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں‘ جب غیر ملکی تسلط کے خاتمے کے بعد مقامی قوتوں نے عوام پر ایسے نظام مسلط کیے جو غیر ملکی تسلط سے کہیں زیادہ ظالمانہ یا وحشیانہ تھے؛ چنانچہ کسی ملک کا کسی غیر ملکی تسلط سے چھٹکارا ہی آزادی نہیں بلکہ اس ملک کے عوام کا معاشی‘ سیاسی‘ سماجی اور فکری طور پر اپنی مرضی اور پسند کے مطابق زندگی گزارنے کے اختیار کو آزادی کہا جا سکتا ہے۔ کیا برصغیر سے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہاں کے عوام کو یہ اختیار مل گیا ہے؟ ان کو حقِ ملکیت اور حقِ حکمرانی حاصل ہو گئی ہے؟ وہ اپنی قسمت کے فیصلے خود کرتے ہیں؟ کوئی باشعور اور دیانت دار شخص اس سوال کا جواب ہاں میں نہیں دے سکتا۔ نہ بھارت میں‘ نہ پاکستان میں۔ دونوں ملکوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا ''یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر؍ وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ والی بات پر اتفاق ہے۔ اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی کچھ بنیادی شرائط ہیں۔ اس میں پہلی شرط یہ ہے کہ انسان معاشی طور پر آزاد ہو۔ معاشی طور پر آزاد ہوئے بغیر انسان سیاسی اور فکری طور پر آزاد نہیں ہو سکتا۔ اور ایک منصفانہ معاشی نظام قائم کیے بغیر کچھ مراعات یافتہ طبقات اپنے آپ کو آزاد تو کہہ سکتے ہیں مگر عوام معاشی طور پر آزاد نہیں ہو سکتے۔ صرف ایک منصفانہ معاشی نظام ہی عوام کو بلارشوت‘ سفارش‘ لالچ اور خوف کے روزگار کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اس ضمانت کے بعد انسان محتاجی اور لاچارگی سے باہر نکلتا ہے۔ اپنے پاؤں کے نیچے زمین محسوس کر سکتا ہے اور اپنی مرضی کے مطابق فیصلے کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ معاشی طور پر آزاد ہونے کے بعد انسان سیاسی طور پر آزاد ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر اور پسند کے مطابق ووٹ دیتا ہے۔ کوئی اسے دھونس‘ دھاندلی‘ جبر یا لالچ کے ذریعے ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اس آزادانہ رائے کے اظہار کے نتیجے میں سماج میں سیاسی آزادیاں آتی ہیں۔ شہری آزادیاں آتی ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ ملتا ہے۔ جبر سے پاک ایک آزاد سیاسی نظام قائم ہوتا ہے۔
معاشی اور سیاسی آزادیوں کے بعد انسان فکری طور پر آزاد ہوتا ہے۔ وہ خوف اور لالچ سے نکل کر آزادانہ طور پر سوچنا شروع کرتا ہے۔ ا پنی فکر کا آزادانہ اظہار کرنا شروع کرتا ہے۔ وہ مذہب اور فلسفے پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے۔ اسے یہ خوف نہیں رہتا کہ الگ طریقے سے سوچنے کی پاداش میں اسے گرفتار کر لیا جائے گا۔ فرقہ واریت کے نام پر اسے مطعون کیا جائے گا یا پھر اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اس طرح سماجی آزادی کا سوال بھی بڑا اہم سوال ہے۔ ہمارا معاشرہ سماجی فرسودگی اور پسماندگی کا شکار ہے۔ غربت اور پسماندگی کے شکار لوگ طرح طرح کی سماجی پابندیوں اور فرسودہ رسم و رواج کا شکار ہیں۔ سماج کے اندر کئی ایسے رسم و رواج موجود ہیں‘ جن کی بنیاد امتیازی سوچ پر مبنی ہے۔ طبقاتی‘ نسلی اور مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک عام سی بات ہے۔ چنانچہ عوام کی ایک بڑی اکثریت معاشی‘ سیاسی اور فکری آزادی کے تصورات کے مطابق زندگی گزارنے سے بہت دور ہے، جس کے بغیر آزادی کا کوئی تصور نہیں۔
پاکستان و بھارت میں بے شک جمہوریت ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں مگر انتخابات میں عوام کو اپنی مرضی کے آزادانہ اظہار کا موقع نہیں ملتا۔ وہ کئی دیکھی اَن دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں۔ ان کا ووٹ اس علاقے کے طاقتور اور مراعات یافتہ طبقات کی مرضی کے مطابق کاسٹ ہوتا ہے۔ جمہوریت کی مشق کے باوجود ان ممالک میں ابھی تک منصفانہ معاشی نظام نہیں ہے۔ عوام کی ایک عظیم اکثریت غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ سماج میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری ہے۔ رشوت اور اقربا پروری ہے۔ دھونس اور دھاندلی کا چلن ہے۔ ظلم و نا انصافی ہے۔ طبقاتی تقسیم اور لوٹ کھسوٹ ہے۔ ایسے سماجوں میں عام آدمی اپنی مرضی کے مطابق کچھ نہیں کر سکتا۔ اورجب تک یہ عام آدمی آزاد نہیں ہو جاتا اس وقت تک آزادی کا جشن بے معنی ہے۔ چنانچہ آزادی کا جشن منانے والوں کو یہ جشن مناتے وقت اپنے ملکوں میں معاشی و سماجی انصاف کی بات بھی کرنی چاہیے۔ عام آدمی کو اس جشن میں شامل کرنے کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے۔