پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے مناظر دیکھ کر مجھے کیوبا یاد آیا۔ کئی برس قبل مجھے کیوبا میں سمندری طوفان‘ سیلاب اور تیز ہواؤں کی تباہ کاریوں کا بڑے قریب سے مشاہدہ کرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ میں کیوبا ایک ایسے وقت میں پہنچا تھا جب یہ ملک ایک خوفناک سمندری طوفان کے اثرات سے نکلنے کی جدو جہد میں تھا۔ یہ سمندری طوفان ''ارما‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ یہ سمندری طوفان کیوبا کے شمالی ساحلوں سے ٹکرایا تھا۔ ہوانا شہر کے در و دیوار پر اس کے اثرات نمایاں تھے۔ ہوانا شہر کو دیکھ کر یہ اندازا لگانا مشکل نہیں تھا کہ کچھ دن پہلے اس شہر پر کیا گزری ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس شہر میں کوئی خوفناک جنگ لڑی گئی ہو۔ شہر کی بڑی حد تک صفائی کی جا چکی تھی مگر کہیں کہیں اب بھی جڑ سے اکھڑے ہوئے درخت اور گرے ہوئے بجلی کے کھمبے دکھائی دیتے تھے۔ اس طوفان نے خوفناک تباہی مچائی تھی مگر کیوبا میں زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ زیادہ تر جانی نقصان انٹیگوا اور باربوڈا جیسی آئی لینڈ ریاستوں میں ہوا تھا۔ برٹش ورجن آئی لینڈ اور بہاماس میں بھی کافی تباہی ہوئی تھی۔ یہ طوفان امریکہ کے ساحلوں سے بھی ٹکرایا تھا‘ اور یہاں تقریباً دس جانیں ضائع ہوئی تھیں۔ کیوبا میں کم جانی نقصان کی وجہ یہ تھی کہ کیوبا اس طرح کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی لمبی تاریخ اور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں پر طوفان سے پہلے اور طوفان کے دوران ایسے بر وقت اقدامات کیے جاتے ہیں‘ جن کی وجہ سے جانی نقصان کم ہوتا ہے۔ ارما کیوبا کی تاریخ کا ایک بڑا طوفان تھا۔ 1924ء کے بعد پہلی بار اس کو کیٹیگری پانچ طوفان قرار دیا گیا تھا۔ اس طوفان کے دوران کیوبا کے بعض علاقوں میں دو دن تک دو سو ستر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفانی ہوائیں چلتی رہی۔ کئی شہر پانی سے بھرے رہے۔ ان حالات میں یہاں جانی نقصان کا کم ہونا کوئی محض اتفاق یا خوش بختی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ حکومت نے اس کا بندوبست کیا تھا۔ اس طوفان کی تباہی سے بچنے کے لیے حکام نے طوفان سے پہلے ہی ایک ملین سے زائد لوگوں کو حفظ ما تقدم کے طور پر دوسری محفوظ جگہوں پر منتقل کر دیا تھا۔ جانی نقصان کے حوالے سے متضاد خبریں تھیں۔ عالمی میڈیا کا ایک حصہ کیوبا میں دس اموات رپورٹ کر رہا تھا۔ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ ایک دو افراد سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ دوسری طرف املاک اور مالی نقصان کی شرح حیرت انگیز طور پر بلند تھی‘ جس کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل تھا کہ جانی نقصان اس قدر کم کیونکر ہوا ہوگا۔ تیز ہواؤں‘ طوفانی بارش اور سیلاب نے مجموعی طور پر ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زائد عمارتوں کو نقصان پہنچایا تھا۔ 14 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے اور تقریباً 16 ہزار کو جزوی نقصان پہنچا تھا۔ ایک ہزار کے قریب صحت کے مراکز‘ دو ہزار تعلیمی ادارے‘ سینکڑوں فارم اور تقریباً 90 ہزار ہیکٹر زرعی زمین اس طوفان کی نذر ہو گئی تھی۔ کیوبا کی تاریخ کے اس بد ترین طوفان میں اگر جانی نقصان نہ ہونے کے برابر ہوا تو اس کی وجہ بالکل واضح تھی کہ حکومت کی توجہ انسانی جانوں کی حفاظت تھی اور وہ اس مقصد میں سو فیصد کامیاب رہی تھی۔ کیوبا کا سمندری طوفانوں‘ تیز ہواؤں اور طوفانی بارشوں سے بہت گہرا اور پرانا تعلق ہے۔ یہ ملک حالیہ تاریخ میں تقریباً چھپن سے زائد طوفانوں کے تجربے سے گزر چکا ہے۔ صرف سن 2000ء سے آج تک ان طوفانوں کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔ کیوبا میں چھ ہزار سے زائد لوگ ان طوفانوں کا شکار ہو چکے ہیں‘ ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو 1932ء کے طاقتور طوفان کا شکار ہوئے تھے۔ کیوبا کا اس طرح ہمیشہ طوفانوں میں گھرے رہنے کی وجہ اس کا محل وقوع ہے۔ کیوبا سمندر میں ایک ایسی جگہ واقع ہے جہاں گلف آف میکسیکو اور کریبین سمندر آپس میں ملتے ہیں۔ یہ ملک خط استوا کے قریب واقع ہے۔ سمندری طوفانوں کی وجہ خط استوا سے اس کی قربت اور گرم موسم ہے۔ جون سے نومبر تک کے چھ ماہ کیوبا کے لیے طوفانوں کا موسم ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان سمندری طوفانوں‘ بارشوں اور سیلابوں کا تعلق مجموعی طور پر ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ ہے۔ کیوبا کے حکام کو اس کا پورا شعور اور ادراک ہے۔ وہ بار ہا اس حقیقت کو اپنے بیانات کے ذریعے تسلیم کر چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کیوبا کی حکومت نے اس سلسلے میں ایک مشہور پلان کا اعلان کیا تھا جو ''لائف ٹاسک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ اس پروگرام کے تحت ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات کے خلاف لڑنے کا اعلان کیا گیا تھا‘ اس پلان میں سمندری طوفانوں کی کثرت اور طاقت کو کم کرنے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ بد قسمتی سے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کیوبا کی حکومت بھی اس پلان پر عمل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ بات یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی تباہی کے باب میں دنیا کی ہر حکومت کسی نہ کسی طرح ذمہ دار ہے اور اس حوالے سے کوئی نہ کوئی مثبت کردار بھی ادا کر سکتی ہے مگر اس مسئلے کے موثر اور پائیدار حل کے لیے عالمی برداری کا یکجا ہو کر مشترکہ اقدامات کرنا ناگزیر ہے‘ جس کے بغیر اس باب میں کوئی بڑی کامیابی نہیں حاصل نہیں کی جا سکتی۔ بہر کیف قدرتی آفات خصوصاً سمندری طوفانوں اور اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کا کیوبا کے عوام کی زندگیوں سے گہرا تعلق ہے۔ ہر سال کا نصف عرصہ وہ کسی نہ کسی آفت کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں۔ ان قدرتی آفات کی تباہی ان کے درو دیوار پر نقش ہے۔ کیوبا کے شہروں میں آنے والا ہر نو وارد اس تباہی کے نقش در و دیوار پر دیکھتا ہے۔ ہر عمارت کے کسی نہ کسی حصے پر اس تباہی کے نشان ہوتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں نے ان طوفانوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ ہر سال کسی نہ کسی موسمی طوفان کے بعد شہر میں صفائی یا رنگ روغن کا کام ہو رہا ہوتا ہے۔ اب اس سلسلے میں حکومت جدید تقاضوں کے مطابق قانون سازی کر رہی ہے۔ اس نئے قانون کے تحت کسی بھی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ وہ سیلاب‘ تیز ہواؤں اور سمندری طوفانوں کا مقابلہ کر نے کی سکت رکھتی ہو۔ یہ وہی راستہ ہے جو جاپان نے زلزلوں کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا اور وہ آج اس کا مقابلہ کرنے میں پورے طور پر کامیاب نظر آتے ہیں۔ اسی طرح سمندر کے بیچوں بیچ آباد یہ چھوٹا سا جزیرہ بھی جدید قانون سازی اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک دن سمندری طوفانوں سے محفوظ زندگی ممکن بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ پاکستان میں سیلاب کی تباہی و بربادی کے تناظر میں ہنگامی طور پر کچھ نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک ضروری قدم اس باب میں قانون سازی ہے۔ اس قانون سازی کے تحت یہ امر یقینی بنانا ضروری ہے کہ نئی تعمیرات کسی بھی سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کی تباہ کاریوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر کی جگہ‘ اس میں استعمال ہونے والا میٹیریل‘ طرزِ تعمیر اور ٹیکنالوجی ایسی ہو جو سیلاب کا مقابلہ کر سکے تاکہ مستقبل میں کسی ایسی آفت کی صورت میں کم از کم جانی اور مالی نقصان ہو۔