گزشتہ دنوں یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے کابل کو ایک خط لکھا ہے۔خبروں کے مطابق ایک صفحے کے اس رسمی خط میں فارن آفس نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ مولانا مسعود اظہر کو تلاش کرکے گرفتار کرے۔یہ خبر پڑوسی ملک سے پاکستان کو لاحق سلامتی کے خدشات سے جڑے ایک اور مطالبے کو واضح کرتی ہے۔ افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کو گرے ایک برس سے زائد ہو گیا ہے۔ اس موقع پر امریکی فوجی دستوں اور شہریوں کے ساتھ ساتھ تقریباً ایک لاکھ کے قریب افغانوں کا ذلت آمیز انخلا واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے لیے ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ تب سے ملک پر طالبان کی حکومت ہے۔ اگرچہ پورے ملک میں تشدد کی سطحوں میں ڈرامائی طور پر کمی ضرور آئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق‘ میڈیا کی آزادی اور ان لوگوں کی حفاظت میں بھی کمی آئی ہے جنہوں نے معزول حکومت کی حمایت کی تھی یا جو طالبان کے نظریات اور طرزِ حکمرانی سے اتفاق نہیں کرتے۔افغانستان کی طالبان ریاست کے بارے میں سوالات کی بھرمار ہے۔ کیا عالمی برادری کو اب طالبان کو تسلیم کر لینا چاہیے؟ کیا طالبان نے عالمی برادری کے مطالبات اور خواہشات کے مطابق خود میں اعتدال پسند ی لانے کی کوئی کوشش کی ہے یا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں؟ کیا دباؤ پر مبنی سفارت کاری یا مختلف قسم کی پابندیاں انہیں ایسا کرنے پر مجبور کر سکتی ہیں؟ کیا طالبان کی عملداری میں ایک نیا بین الاقوامی خطرہ تو پروان نہیں چڑھ رہا؟
اور ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا 1978ء میں شروع ہونے والی افغان خانہ جنگی کا خاتمہ ہو گیا ہے؟ یا پھر یہ خانہ جنگی ماضی کی طرح مختلف شکلوں میں جاری ہے اور حالات کے مطابق اس میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ افغانستان کی حالیہ تاریخ کی روشنی میں چار دہائیوں تک افغانستان نے خود کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ مجاہدین ملک کی برسر اقتدار قوتوں سے دست و گریبان رہے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے وار لار ڈز ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ طالبان بنام شمالی اتحاد معرکے ہوتے رہے۔ ملکی فوج بھی طالبان سے لڑتی رہی۔ اس عمل میں 20 لاکھ سے زیادہ افغان ہلاک یا زخمی ہوئے اور 50 لاکھ سے زائد مہاجر بن گئے۔ گزشتہ سال ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا نے لڑائیوں کے اس طویل سلسلے کا وقتی طور پر خاتمہ کر دیا مگر تاریخ کے تلخ تجربات کی روشنی میں یہ خدشہ موجود ہے کہ آج جو امن کا نیا دور دکھائی دے رہا ہے‘ وہ صرف ایک مختصر وقفہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
افغانستان تاریخ کے طویل ادوار میں کبھی بھی مکمل طور پر پُرامن نہیں رہا۔ قبائلی جھگڑے‘ حکومتی جبر‘ سرحدی جھڑپیں اور خاندانی سازشیں صدیوں سے افغان زندگی کا حصہ رہی ہیں۔ حکومت کرنے کے لیے یہ ایک مشکل جگہ رہی ہے۔ قبائلی اصول کسی قبیلے کے ہر فرد کی انفرادیت کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور کوئی بھی حکومت‘ بشمول بادشاہت جو 1747ء سے 1973ء تک ملک میں قائم رہی‘ کبھی بھی ملک کے سینکڑوں قبائل اور ان کے ذیلی قبائل کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ مذہبی رہنما‘ علما اور جج بھی معاشرے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ افغانوں پر ظلم کرنے کی بادشاہت کی کوششوں کو قبائل اور مذہبی رہنماؤں نے بڑی حد تک روک دیا تھا۔ اور انیسویں صدی کے برطانوی حملے اور قبضے کے بعد تقریباً ایک صدی تک کسی بڑے غیرملکی حملے نے افغانستان کے اندر موجود اس توازن کو خراب نہیں کیا تھا۔
بیسویں صدی کے آخر میں جدیدیت کی قوتوں نے اس توازن کو بگاڑنا شروع کیا لیکن 40 سال کی خانہ جنگی کو جنم دینے والا بڑا واقعہ 1978ء کا انقلاب تھا۔ اشتراکیت پسندوں نے سابق بادشاہ کے کزن اور جانشین داؤد خان کی حکومت کا تختہ تو الٹ دیا تھا مگر اس کے باوجود ان کی عوامی حمایت کی اپنی محدودات تھیں۔ ان کی طرف سے تعلیم‘ زمین اور شادی کے بارے میں کی جانے والی اصلاحات نے قبائل‘ مذہبی رہنماؤں اور دیہی آبادی کے درمیان ردِ عمل کو جنم دیا۔ 1979ء میں‘ ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی جب سوویت یونین نے افغانستان کی حکومت کی دعوت پر وہاں اپنی فوجیں اتار دیں۔
سوویت فوجیں افغانستان میں جدید صنعتی جنگ لے کر آئیں اور ایک دہائی تک خونریزی کا ایک خوفناک عمل شروع ہوا۔ سوویت یونین کے خلاف مغربی امداد سے شروع کی جانے والی مزاحمت نے ایک بار پھر مختلف قبائل‘ نسلی برادریوں اور مذہبی رہنماؤں کو متحد کیا جو اپنے آپ کو مقدس جنگجو قرار دیتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ لوگ رائفلوں‘ راکٹوں سے چلنے والے دستی بموں اور امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے فراہم کردہ جدید ترین مواصلاتی آلات سے لیس تھے۔
1989ء میں سوویت یونین کی رخصتی نے مجاہدین کو مشترکہ دشمن کے بغیر چھوڑ دیا‘ خاص طور پر 1992ء میں افغان حکومت کے خاتمے کے بعد کسی دشمن کی عدم موجودگی میں وہ ایک دوسرے سے لڑنے لگے۔ جنگ کابل شہر میں داخل ہو گئی۔ مختلف فریقوں نے شہر کو مسمار کیا اور برادریوں کو نشانہ بنایا۔ قبائلی اور نسلی برادری کے رہنما جو مجاہدین کہلاتے تھے‘ جنگجو بن گئے۔ مغربی افواج اور طالبان کے درمیان جنگ نے افغان معاشرے کو ڈرامائی طور پر بدل دیا۔ جنگ نے معیشت کو بھی متاثر کیا۔ بہت سے افغان آمدنی کے لیے پوست کی کاشت پر انحصار کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ہی افغانوں نے اپنے پہلے آزاد انتخابات کا تجربہ کیا۔ ایک پارلیمنٹ قائم کی جس کے پاس پہلی بار حقیقی طاقت تھی مگر یہ اس پیمانے پر عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہی جو جمہوریت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ آخر کار جمہوریت بھی قبائلی جھگڑوں اور تشدد کی نذر ہو کر ہار گئی۔
امریکی انخلا کے ایک سال بعد بھی یہ بات پورے یقین سے کہنا مشکل ہے کہ آیا افغانستان میں استحکام کی کوئی نئی شکل آئی ہے۔ یا دور دور تک اس کے کوئی آثار موجود ہیں۔ جو طرزِ سیاست طا لبان نے اپنایا ہوا ہے‘ اس سے لگتا ہے کہ طالبان بھی اپنے خاتمے کا خود ہی سبب بن سکتے ہیں۔ طالبان اپنے اندر ابھرتے ہوئے شدت پسند رجحانات پر قابو پانے میں ناکام ہو سکتے ہیں۔ نوجوان اپنی زندگیوں میں معنی کی تلاش کے لیے شہادت کی طرف دیکھنا جاری رکھ سکتے ہیں۔ غربت‘ بے روز گاری اور مایوسی سے بے چین نوجوان نئے اہداف تلاش کر سکتے ہیں۔ یہ اہداف افغانستان کے اندر بھی اتنے ہی ہیں جتنے بیرونِ ملک۔ 2021ء کے آخر میں‘ یہ کہا جاتا تھا کہ ملا ہبۃ اللہ اور طالبان حکومت کے نائب رہنما سراج الدین حقانی نے خود کش بم دھماکوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک نئی پالیسی پر چلنے کا عزم ظاہر کیا ہے اور افغانستان ایک پُرامن سماج کی طرف لوٹ رہا ہے۔ لیکن القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی‘ جہاں وہ جولائی میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے‘ پُرامن افغانستان کے تصور کو چیلنج کر رہی ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں میں مختلف الخیال لوگوں کی عمل داری ہے‘ جو اپنے اپنے نظریات اور سوجھ بوجھ کے مطابق اپنے اپنے علاقوں میں حکمران ہیں۔ وہ کس کو پنا دے رہے ہیں اور کس کی سرکوبی کر رہے ہیں‘ یہ ان پر منحصر ہے۔ ان حالات سے لگتا ہے کہ آنے والے برسوں میں افغانستان خبروں میں رہے گا اور یہ خبریں کوئی زیادہ خوشگوار نہیں ہوں گی۔