گزشتہ کالم میں‘ میں نے کیوبا کی تاریخ اور تاریخی عمارتوں کا ذکر کیا تھا۔ تاریخی مقامات سے مجھے ہمیشہ گہری دلچسپی رہی ہے لیکن اس دفعہ میری ٹورسٹ گائیڈ ایلیسیا کی تاریخ پر گرفت نے میری اس دلچسپی میں اضافہ کر دیا۔ اس نے مجھے قائل کر لیا کہ مجھے کیوبا کی کم ازکم سات اہم تاریخی عمارتوں کو ضرور دیکھنا چاہیے۔ ان میں سے تین‘ چار عمارتیں تو شہر کے ایک ہی چوک میں واقع ہیں۔ جن میں انقلاب کا محل‘ ہوزے مارٹی کی یاد گار اور کیوبا کے دیو مالائی کردار چے گویرا کی یاد گار شامل ہیں۔ اس چوک میں کیوبا کی پوری تاریخ بکھری پڑی ہے اور دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اس لیے اس دن ہم سویرے سویرے ہی چوک کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس عمارت میں کئی اہم سرکاری دفاتر ہیں اور بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین اپنے اپنے دفاتر کی طرف جا رہے تھے۔ ہوزے مارٹی کے بارے میں نے کافی کچھ پڑھ رکھا تھا اور اس چوک سے گزرتے ہوئے اس کے عظیم الشان مجسمہ پر کئی بار نظر پڑی تھی۔ لیکن یہاں ایلیسیا کی تاریخ دانی ایک بار پھر میرے کام آئی۔ اس نے مجھے اس شخص کے بارے میں اتنی تفصیل سے بتایا کہ مجھے ایسا لگنے لگا کہ وہ ایک جیتے جاگتے کردار کا روپ دھار کر میرے سامنے کھڑا ہو۔ ہوزے مارٹی 28 جنوری 1853ء کو ہوانا میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار کیوبا کے عظیم ترین ہیروز اور تاریخی شخصیات میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے جو بیک وقت کیوبا کے ادب اور سیاست میں ایک دیو مالائی کردار سمجھے جاتے ہیں۔
کیوبا کے ایک عظیم شاعر اور مضمون نگار کے طور پر انہوں نے عوام میں شعور اور آگہی پھیلانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ آگے چل کر وہ ایک محب وطن سیاست دان اور پھر آخر میں ایک عظیم شہید کے طور پر کیوبا کی جدوجہد آزادی کی علامت بن گئے۔ سپین سے کیوبا کی آزادی کی جدوجہد میں ہوزے مارٹی کا نام پورے لاطینی امریکہ میں آزادی کا مترادف بن گیا۔ ایک محب وطن کے طور پر مارٹی نے کیوبا کی آزادی کی تحریک کو منظم اور متحد کیا‘ اور اس کے لیے بنفسِ نفیس لڑتے ہوئے میدانِ جنگ میں جان دے دی۔ ایک مصنف اور شاعر کے طور پر‘ وہ ایک آزاد اور متحدہ امریکہ کے موضوعات پر اپنی پُر تاثر اور سادہ تحریروں کی وجہ سے اپنے ہم عصر لوگوں میں ممتاز تھے۔ انہوں نے چھوٹی عمر میں شاعری شروع کی۔ 15سال کی عمر میں ان کی کئی نظمیں شائع ہو چکی تھیں۔ صحافت کے میدان میں قدم رکھتے ہوئے 16سال کی عمر میں انہوں نے ایک اخبار ''آزاد وطن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ 1868ء میں کیوبا میں ایک انقلابی تحریک پھوٹ پڑی۔ بطور سیاسی کارکن مارٹی اس تحریک میں کود پڑے۔ اس تحریک کے دوران انہوں نے دیگر محبِ وطن لوگوں کے ساتھ مل کر تاریخی جدوجہد کی‘ جس کی پاداش میں انہیں چھ ماہ کی قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ قید ان کا کچھ نہ بگاڑ سکی‘ اس لیے سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے 1871ء میں انہیں سپین جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی میں مارٹی نے اپنی تعلیم‘ سیاسی کام اور لکھائی جاری رکھی۔ 1874ء میں انہوں نے یونیورسٹی آف زراگوزا سے ایم اے اور قانون کی ڈگریاں حاصل کیں۔ انہوں نے اگلے چند سال فرانس‘ میکسیکو اور گوئٹے مالا میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ لکھنے میں گزارے اور بالآخر 1878ء میں وہ کیوبا واپس آئے۔
اس دوران کیوبا کے حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی؛ چنانچہ کیوبا واپسی پر مارٹی نے اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں جس کی وجہ سے ان کو 1879ء میں دوبارہ سپین جلاوطن کر دیا گیا۔ اس کے بعد وہ طویل عرصہ تک فرانس‘ وینزویلا اور امریکہ میں مقیم رہے‘ جہاں وہ کیوبا کی آزادی کی جدوجہد سے جڑے رہے اور اپنی انقلابی تحریروں کے ذریعے سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔
اس اثنا میں انہوں نے بیونس آئرس سے شائع ہونے والے اس وقت کے مشہور اخبار ''لا نیشن‘‘ میں باقاعدہ کالم لکھنا شروع کر دیا۔ اس کالم کی وجہ سے وہ پورے لاطینی امریکہ میں ایک آزادی پسند انقلابی کے طور پر مشہور ہو گئے۔ کالم کے ساتھ ساتھ انہوں نے شاعری بھی جاری رکھی۔ اس وقت کی شاعری پر مشتمل ان کا شعری مجموعہ جو آزادی کے موضوع پر لکھا گیا‘ ایک گہری احساسیت اور اوریجنل شاعرانہ وژن کو ظاہر کرتا ہے۔ مارٹی کے مضامین کو بیشتر ناقدین ہسپانوی امریکی ادب میں ان کا بہت بڑا کنٹری بیوشن سمجھتے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے وہ ہسپانوی نثر میں اختراعات لائے اور امریکی اقوام کے درمیان بہتر تفہیم اور ہم آہنگی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایمرسن‘ وائٹ مین اور ہمارا امریکہ جیسے مضامین میں‘ مارٹی نے لاطینی امریکہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بارے میں اپنے اوریجنل اور تخلیقی خیالات کا اظہار کیا۔ ان کی تحریروں کو اب بھی ہسپانوی نثر کا اعلیٰ نمونہ سمجھا جاتا ہے۔ ان کی تحریریں ان کی مثالی زندگی‘ آزادی اور انصاف سے محبت اور انسانی فطرت کے بارے میں ان کی گہری سمجھ کی عکاسی کرتی ہیں۔ مارٹی کی تحریروں کے انگریزی تراجم کے مجموعے انسائیڈ دی مونسٹر‘ رائٹنگز آن دی یونائیٹڈ سٹیٹس اینڈ امیریکن امپیریل ازم‘ ہمارا امریکہ‘ رائٹنگز آن لاطینی امریکہ اور کیوبا کی جدوجہد آزادی بہت مقبول ہوئے۔
1892ء میں مارٹی کو کیوبا کی انقلابی پارٹی کا نمائندہ نامزد کیا گیا۔ نمائندہ کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ انہوں نے پارٹی کا صدر بننے یا صدر کہلانے سے انکار کر دیا تھا۔ پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے انہوں نے نیویارک شہر کو آپریشن کا مرکز بنا کر کیوبا کی آزادی کے لیے سپین کے خلاف لڑائی کے منصوبے بنانا شروع کر دیے۔ وہ 31 جنوری 1895ء کو کیوبا کے انقلابی رہنما میکسیمو گومز اور دیگر ہم وطنوں کے ہمراہ نیو یا رک سے سینٹو ڈومنگو کے لیے روانہ ہوئے۔ 11 اپریل کو کیوبا پہنچ کر انہوں نے باقاعدہ لڑائی کا آغاز کر دیا۔ مارٹی کی موت ایک ماہ بعد ڈوس ریوس کے میدانی علاقوں میں آزادی کی لڑائی کے دوران ہوئی۔ کیوبا کے عوام نے اپنے اس عظیم رہنما کی یاد میں شہر کے اس بڑے چوک میں ایک عظیم الشان یاد گار تعمیر کی۔ اس پورے چوک پر جوز مارٹی کی یاد گار چھائی ہوئی ہے‘ جس میں تین سو پچاسی فٹ اونچا ٹاور اور ان کا 59 فٹ کا مجسمہ شامل ہے۔ نیشنل لائبریری‘ بہت سی سرکاری وزارتیں اور دیگر عمارتیں پلازا کے اندر اور اس کے آس پاس واقع ہیں۔ یادگار کے پیچھے ''انقلاب کا محل‘‘ واقع ہے جو کیوبا کی حکومت اور کمیونسٹ پارٹی کی نشست ہے۔ یادگار کے بالمقابل وزارتِ داخلہ اور مواصلات کے دفاتر ہیں‘ جن کے اگلے حصے میں کیوبا کے انقلاب کے دو اہم ترین ہیروزکی یاد گاریں ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے کئی اہم ثقافتی اداروں کے دفاتر بھی اسی چوک میں ہیں۔ یہ چوک اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہاں بہت زیادہ سیاسی جلسے ہوتے رہے ہیں۔ فیڈل کاسترو ہر سال یکم مئی کے یوم مزدور اور دوسرے اہم موقعوں پر اس جگہ خطاب کرتے رہے۔ ان کو سننے کے لیے دس لاکھ سے زیادہ لوگ جمع ہوتے رہے جو کیوبا کی آبادی کے تناسب سے بہت بڑی تعداد ہے۔ پوپ جان پال دوم نے 1998ء میں اپنے پہلے دورے کے دوران‘ اور پوپ فرانسس نے 2015ء میں اسی چوک میں بڑے اجتماع کا انعقاد کیا تھا۔ ہوزے مارٹی کی یادگار پر بہت سا وقت گزارنے کے بعد ہم اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے‘ جس کا احوال پھر کبھی پیش کیا جائے گا۔