گزشتہ دنوں امریکی صدر نے پاکستان کے بارے میں ایک بیان دیا۔ سخت رد عمل کے باوجود یہ بیان پاکستانی ذ رائع ابلاغ میں زیادہ موضوعِ بحث نہیں بن سکا۔ پاکستان امریکہ تعلقات کی ایک طویل پیچیدہ تاریخ ہے‘ جس کو سمجھنے کے لیے بیسویں صدی کے دوسری‘ تیسری اور چوتھی دہائیوں کے مجموعی حالات پر ایک نظر ڈالنا لازم ہے۔
بیسویں صدی کا پہلا نصف دنیا میں عظیم اُتھل پتھل اور گہری تبدیلیوں کا دور تھا۔ نو آبادیاتی نظام کی پرانی شکل دم توڑ رہی تھی۔ ایک نئی طرز کا عالمی نظام اس کی جگہ لے رہا تھا۔ سوویت یونین ایک سپر طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ برطانیہ کا سورج غروب ہو رہا تھا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی ایک نئی طاقت کے طور پر اس کی جگہ لے رہی تھی لیکن کچھ دانشوروں کا خیال تھا کہ 1947ء میں جب ہندوستان سے نو آبادیاتی نظام کی بساط لپیٹی جارہی تھی تو اُس وقت جنوبی ایشیا میں امریکہ کے کوئی واضح سکیورٹی یا معاشی مفادات نہیں تھے۔ اور اگر تھے بھی تو اس وقت امریکہ اس کے لیے نہ تو تیار تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں اس نے کوئی پالیسی وضع کی تھی۔ ایسے دانشوروں کے خیالات سے اتفاق ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ بر صغیر سے برطانوی انخلا کے نتائج اور اثرات سے بخوبی آگاہ تھا اور اس سلسلے میں صورت حال پر گہری نظر رکھ ہوئے تھا۔ امریکہ کی اس وقت کی تاریخی اور سفارتی دستاویزات اس حقیقت کا ثبوت ہیں۔ امریکہ کی اس وقت کی جنوبی ایشیا سے متعلق دستاویزات یہ دکھاتی ہیں کہ امریکہ کو جنوبی ایشیا کے بارے میں واضح پالیسی اختیار کرنے میں چند سال ضرور لگے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں میں امریکہ یہاں کے معاملات سے لا تعلق تھا۔ امریکہ نے اکتوبر 1947ء سے ہی پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر میں ہونے والی پہلی جنگ میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی۔ جنوری 1948ء میں مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں چلے جانے کے بعد امریکہ نے عالمی فورم پر فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اس خطے میں سوویت یونین کے مفادات اور سوشلسٹ نظریات کی پیش قدمی اور خطے کی سٹرٹیجک اہمیت کے پیش نظر عملی طور پر اس کو واضح پوزیشن لینے کے عمل میں چند سال لگے لیکن یہ سفر امریکہ نے بڑی تیز رفتاری سے طے کیا۔ اگلے چند برسوں میں امریکہ اس خطے میں برطانیہ کی جگہ لے چکا تھا اور 1954ء میں اس نے پاکستان کے ساتھ دفاع کے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔ اس طرح صرف سات سال کے عرصے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ ایک انتہائی اہم ترین فوجی معاہدہ کر چکا تھا جس کا واضح مقصد خطے میں سوویت مداخلت روکنا‘ کمیونزم کے خلاف عالمی محاذ تشکیل دینا اور اپنی ضروریات کے مطابق اس خطے کی سکیورٹی کے بارے میں اقدامات کرنا شامل تھا۔ یہ معاہدہ اس بات کا اظہار تھا کہ امریکہ اس خطے کی سکیورٹی کی ذمہ داری میں شامل ہو چکا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کے لیے کیا چیز اہمیت کی حامل تھی۔ یہ بات بڑی حد تک درست ہے کہ اس وقت خطہ اپنے وسائل کے حوالے سے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ برطانیہ کے نکلتے وقت جنوبی ایشیا کے معاشی حالات نا گفتہ بہ تھے‘ یہ خطہ اس وقت امریکی منڈی‘ تجارت یا سرمایہ کاری کے لیے کوئی بڑی کشش نہیں رکھتا تھا لیکن سٹرٹیجک اعتبار سے یہ خطہ سوشلسٹ نظریات کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ کے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل تھا۔ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع امریکہ کی اس عالمی لڑائی میں اور بھی اہم تھا۔ سوویت یونین اور چین کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی تھیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے سمندر کے ذریعے رسائی اور قربت تھی۔ اس طرح امریکہ کو پاکستان کی شکل میں خلیج فارس کے قریب سوویت یونین کے خلاف ایک اہم پوسٹ نظر آ رہی تھی۔ نو آبادیاتی نظام میں توڑ پھوڑ کی وجہ سے ایشیا کا پورا خطہ ہی اس وقت ایک خاص قسم کی اہمیت اختیار کر چکا تھا۔ اس وقت برٹش ملایا‘ ڈچ انڈونیشیا اور فرنچ انڈو چائنا میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف لڑائیاں جاری تھیں۔ سیاسی اور سماجی انقلاب فلپائن‘ تھائی لینڈ اور برما کے دروازے پر دستک دے رہے تھے اور سب سے بڑھ کر چین میں چینک کیائی شیک کے زیر انتظام نظام کو انہدام کا خطرہ تھا۔
امریکہ کو دوسرا بڑا خطرہ جنوبی ایشیا کے مقامی سوشلسٹ نظریات سے تھا۔ اس وقت ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی ایک بہت بڑی قوت بن چکی تھی جس سے کئی لوگ خوف محسوس کر رہے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے فوراً بعد کمیونسٹ پارٹی نے پے در پے کامیاب ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس پارٹی کی قیادت میں کئی جگہوں پر مسلح بغاوت کے واقعات بھی ہوئے تھے۔ اس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کو غیرقانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ پارٹی کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے اثاثے ضبط کر لیے گئے۔ اور پارٹی کے خلاف پوری ریاستی مشینری کو پوری قوت سے استعمال کیا جا رہا تھا۔ حکمران اشرافیہ کا خیال تھا کہ سوویت یونین کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مالی امداد کر رہا ہے اور بھارت کی غیر جانبدارانہ پالیسی کے خلاف پارٹی کو استعمال کر رہا ہے تاکہ بھارت عالمی سیاست میں غیر جانبدار پوزیشن نہ اختیار کر سکے۔ دوسری طرف آزادی کے فوراً بعد ہی پنڈت نہرو نے ماسکو کو بہت ہی خصوصی حیثیت دینے اور انتہائی خصوصی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ نہرو نے اپنی بہن وِجیا لکشمی پنڈت کو ماسکو میں اپنا سفیر مقرر کر دیا تھا لیکن سٹالن نے اس تقرری کو خاص اہمیت نہیں دی اور لکشمی پنڈت سے ملاقات ہی نہیں کی۔ البتہ ماسکو میں حاکم مسلسل نہرو کی ہمشیرہ پر زور دے رہے تھے کہ بھارت سرد جنگ میں غیر جانبداری کی پالیسی ترک کرے اور سوویت یونین کا ساتھ دے۔ اس بات کو لے کر لکشمی پنڈت اور مقامی حکام کے درمیان کئی بار تلخ کلامی بھی ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود عام تاثر یہ تھا کہ سوویت یونین بھارت کو عالمی سیاست میں اپنے قریب لانے میں کامیاب ہو رہا ہے۔ اس تاثر کے پیش نظر بھارت نے جب 1948ء میں امریکہ سے مالی امداد کی درخواست کی تو اسے مسترد کر دیا گیا۔ اس ساری صورت حال کے باوجود صدر ہیری ٹرومین اور ان کی انتظامیہ کا خیال تھا کہ جنوبی ایشیا کے معاملات میں صرف اس حد تک مداخلت کی جائے جو اس خطے میں خود مختار‘ مستحکم ریاستوں کے قیام کے لیے ضروری ہے تاکہ یہاں پر سوویت یونین کو مداخلت کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن ان ریاستوں کے لیے یہ بھی ضروری ہو کہ وہ مغرب کے بارے میں دوستانہ رویہ رکھتی ہوں اور اندرونی یا بیرونی طور پر کمیونسٹ خطرے کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہوں۔ میک موہن نے اپنی کتاب ''جنوبی ایشیا میں سرد جنگ کی امریکی پالیسی‘‘ میں اس امر کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہیری ٹرومین کی انتظامیہ کا عزم تھا کہ وہ جنوبی ایشیا میں امن‘ استحکام اور معاشی ترقی کے لیے کام کریں گے اور خطے کی تمام ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کریں گے۔ اس وقت کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور سی آئی اے کی کئی رپورٹس میں یہ پالیسیاں پیش کی گئیں جو پاکستان امریکہ کے تعلقات کی ابتدائی نوعیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں جن کا تفصیلی احوال آ ئندہ کبھی بیان کیا جائے گا۔