گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے قیام کے فوراً بعد امریکی پالیسی ایک تیز رفتار ارتقائی عمل سے گزری۔ مختلف مراحل سے گزر کر بالآخر 1949ء کے موسم خزاں میں یہ پالیسی واضح شکل میں سامنے آئی۔ دسمبر 1949ء میں امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل اس موضوع پر ایک جامع پالیسی پیپر رپورٹ کی شکل میں سامنے لائی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ اگر دنیا میں تیسری عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس میں جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت کی بڑی اہمیت ہو گی۔ ایشیا میں جاپان کے بعد پاکستان اور بھارت دو ایسے بڑے ملک بچتے ہیں جو سوویت یونین کے اثر سے باہر ہیں۔ اور اگر کسی طرح پاکستان اور بھارت سوویت یونین کے کیمپ میں چلے جاتے ہیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایشیا میں پاؤں رکھنے کے لیے جگہ نہیں ملے گی۔ لیکن جنوبی ایشیا میں عدم استحکام اور اس کا کھلے عام طاقت کے کسی ایک مرکز کے ساتھ منسلک نہ ہونا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ان حالات میں جنوبی ایشیا کو خصوصاً بھارت کو کمیونزم کے خلاف کوئی دفاعی فصیل یا مورچہ تصور کرنا بھی عقل مندی نہیں ہو گی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکہ کے لیے اس خطے میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ ان اڈوں کی عسکری ضرورت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا کہ امریکہ کے لیے دفاع کی پہلی لکیر جاپان اور فلپائن ہوں گے۔ دفاع کی دوسری لکیر کے طور پر فرانس کے زیر اثر ممالک یعنی ویتنام‘ کمبوڈیا اور لاؤس وغیرہ کو تصور کیا گیا۔ چونکہ اس وقت سوویت یونین اور چین ہوچی من کو ویتنام کا رہنما تسلیم کر چکے تھے۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ نے فرینچ انڈو چائنا کی فوجی اور مالی امداد شروع کر دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ تھائی لینڈ اوربرما کو بھی امداد دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس موقع پر جوائنٹ چیف آف سٹاف نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ جاپان سے لے کر انڈیا تک جنوب مشرقی ایشیا کمیونزم کے خلاف لڑائی میں ایک اہم ترین لائن آف ڈیفنس اور بڑا مور چہ ہے۔ اگر بھارت امریکہ کا اتحادی نہیں بننا چاہتا تو واشنگٹن دوسرے اتحادی تلاش کرے گا۔ یہ وہ موقع تھا جب پاکستان کے لیے نئے دروازے کھل رہے تھے۔ مئی 1949ء میں امریکہ نے پنڈت نہرو کو امریکہ کے دورے کی دعوت دے دی تھی۔ یہ پاکستان کے لیے ایک حیران کن قدم تھا‘ چونکہ پاکستانی سفارت کاروں کا خیال تھا کہ وہ امریکہ کو پاکستان کی جغرافیائی اور سٹرٹیجک اہمیت سے کما حقہ آگاہ کر چکے ہیں اور امریکہ اس بات کا قائل ہو چکا ہے کہ پاکستان خطے میں امریکی اتحادی کا کردار ادا کرنے کے لیے مناسب ملک ہے۔ کچھ تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ امریکہ کی اس دعوت پر سوویت یونین نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا اور ایک ماہ بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کو دورۂ ماسکو کی دعوت دے دی۔ لیاقت علی خان سے کہا گیا کہ وہ اکتوبر میں عین اس وقت ماسکو کا دورہ کریں جب پنڈت نہرو واشنگٹن کے دورے پر ہوں گے۔ لیاقت علی خان نے یہ دعوت قبول کر لی مگر یہ دورہ ہوا نہیں۔ کچھ دوسرے تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ سوویت یونین نے ایسی کوئی دعوت نہیں دی تھی بلکہ تہران میں روسی سفارت کاروں کے ذریعے دورے کے بندوبست کی بات چلی تھی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تھا کیونکہ دورے کے مقاصد اور تاریخوں پر اتفاق نہیں ہو رہا تھا۔ بہرحال نہرو کے دورے کے دو ماہ بعد دسمبر میں اعلان کیا گیا کہ لیاقت علی خان اگلے سال مئی میں واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔ نہرو کے دورے کے بعد کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ بھارت نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی تعاون کے خیال پر ناگواری کا اظہار کیا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ وہ جنوبی ایشیا میں ایک غیر جانبدار کردار ادا کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت نے اپنے ان تحفظات کا اظہار کیا کہ اس سلسلے میں امریکہ کا واضح جھکاؤ پاکستان کی طرف ہے۔ بھارت میں امریکی سفیر ہنڈرسن کی تحریری یادداشت کے مطابق بھارت کو شکایت تھی کہ امریکہ پس پردہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کی مدد کر رہا ہے۔ اس وقت کی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی دستاویزات کے مطابق بھارت کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے امریکہ نے کہا کہ ہم بھارت میں موجودہ غیر اشتراکی حکومت کے تسلسل کی حمایت کرتے ہیں اور ہم کمیونزم کے خلاف ہم خیال ملکوں کے ساتھ دوستی اور تعاون کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ داخلی سطح پر ہم بھارت میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے خواہاں ہیں۔ معاشی ترقی کے لیے بھارت کی صنعتی اور زرعی ترقی ضروری ہے تاکہ وہ عوام کے معیارِ زندگی کو بلند کر کے بیرونی حملوں اور خطرات کا مقابلہ کر سکے۔ ہمارا بھارت کے ساتھ اس طرح کا دوستانہ تعلق ہونا چاہیے کہ جنگ کی صورت میں بھارت رضاکارانہ طور پر ہمیں اپنی سہولیات کو استعمال کرنے کی اجازت دے سکے۔ دوسری طرف پاکستان کے بارے میں امریکی مقاصد اس سے بھی کہیں زیادہ بڑے اور حریص تھے۔ امریکہ کا خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلق کا بنیادی مقصد یہاں کی حکومت اور عوام کو امریکہ اور دوسری مغربی جمہوریتوں کے قریب لانا اور روس سے دور کرنا ہے۔ ہم پاکستان کی شکل میں ایک صحت مند ریاست دیکھنا چاہتے ہیں جو جمہوری اصولوں پر کار بند ہو۔ عالمی سطح پر ہم پاکستان اور اس کے ہمسایوں کے ساتھ پر امن تعلقات کے خواہاں ہیں اور ہم اپنے عالمی مقاصد کے لیے پاکستان کے رضا کارانہ تعاون کے خواہشمند ہیں۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے اس پالیسی بیان میں مزید کہا گیا کہ جہاں تک پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کے مسلم بلاک کی رہنمائی کی خواہش کا تعلق ہے تو پاکستان کی قیادت میں ایک مضبوط مسلم بلاک جو امریکہ سے دوستانہ تعلق رکھتا ہو‘ جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کے لیے ضروری ہے۔ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ پاکستان ایک ہمیشہ قائم رہنے اور نمو پذیر ریاست ہے اور یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ بھارت کے ساتھ اس کی دوستی یا یکجہتی کو کوئی صورت بن سکے گی۔
اس طرح تین عناصر ابھر کر سامنے آئے جن کی وجہ سے امریکہ کو پاکستان میں کشش محسوس ہوئی۔ ان میں پہلا بڑا عنصر پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع اور اس کی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کی لیڈرشپ اور قیادت کرنے کی خواہش تھی۔ امریکہ کے خیال میں پاکستان کی قیادت میں مسلم مشرق وسطیٰ بالآخر امریکہ کے لیے ایک اتحادی اور دوستانہ بلاک کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ دوسرا بڑا عنصر پاکستان کا بھارت کے بارے میں عدم اعتماد اور عدم تحفظ کا احساس تھا جو پاک بھارت تعلقات کی راہ میں حائل تھا اور اس کی موجودگی میں امریکہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ بیک وقت دوستانہ تعلقات قائم کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ تیسرا عنصر پاکستان کے کچھ رہنماؤں کا مغرب کے بارے میں خاص قسم کے نظریاتی رجحانات اور جھکاؤ تھا جس کے پس منظر میں مرکزی خیال یہ تھا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جو کمیونزم کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں یہ غلط تصور بھی عام کر دیا گیا تھا کہ اسلام اور اشتراکیت کے درمیان ایک بنیادی تضاد ہے‘ اس لیے سوویت یونین پاکستان کا ایک فطری دشمن ہے۔ اور پاکستان میں ہزاروں اسلام پسند کمیونزم کے خلاف لڑائی کے لیے بے تاب ہیں۔ ان چار عناصر نے امریکہ کو پاکستان کی طرف متوجہ کیا‘ جس کی وجہ سے مالیاتی اور فوجی تعاون پر مبنی معاہدوں کے لیے راہ ہموار ہوئی‘ جس کا احوال آئندہ کسی کالموں میں پیش کیا جائے گا۔