گزشتہ ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اپریل 1953 ء میں ایک سافٹ انقلاب کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ گورنر جنرل غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الد ین کو بر خاست کر دیا اور خواجہ ناظم الدین کی جگہ امریکہ پلٹ سفارت کار محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم پاکستان بنا دیا گیا۔ اب محمد علی بوگرا بطور نئے وزیر اعظم امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اگلے لیول پر لے جانے کے لیے متحرک ہو گئے۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی ہائی پروفائل ملاقات سیکرٹری آف سٹیٹ جان فاسٹر ڈولس سے ہوئی۔ بوگرا نے مذاق ہی مذاق میں ڈولس کو بتایا کہ پاکستان میں اس بات پر ہر کوئی یقین کرتا ہے کہ مجھے امریکہ نے وزیر اعظم بنوایا ہے اور میں اس قدر امریکہ پرست ہوں کہ مجھے براہ راست امریکہ سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ڈولس نے بوگرا کی اس مذاق پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے محض قہقہہ لگانے پر اکتفا کیا۔ یہ ایک سنجیدہ مذاق تھا‘ جس کے پیچھے پاک امریکہ تعلقات کی بہت سنگین حقیقتیں پوشیدہ تھیں۔
پاک امریکہ تعلقات اور فوجی تعاون کے معاملے پر بوگرا ور ڈولس کے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ ہر ملاقات میں بوگرا نے ڈولس کو از سر نو یقین دلایا کہ کمیونزم کے خلاف اس خطے کے کسی بھی قسم کے دفاعی بندوبست میں پاکستان غیر مشروط طور پر امریکہ کے ساتھ ہے اور وہ ہر طرح کے دفاعی نظام کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔ بوگرا سے مطمئن ہونے کے بعد ڈولس نے پاکستانی فوج کے طاقتور اور پہلے مقامی آرمی چیف ایوب خان کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔ بطور آرمی چیف ایوب خان کی گفتگو کا نقطۂ ماسکہ پاکستانی فوج کی فوری ضروریات تھا۔ ان کے خیال میں یہ ضروریات پوری کرنا ناگزیر تھا‘ جس کے لیے پاکستان کسی حد تک جانے کے لیے تیار تھا۔ ایوب خان نے پاکستانی فوج کی ضروریات کو براہ راست سرد جنگ اور سوشلزم کے خلاف لڑائی کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ بوقت ضرورت فوجی افرادی قوت اور اڈے امریکیوں کو دستیاب ہوں گے اور حکومت اس باب میں امریکہ کے ساتھ ہے۔ ڈولس کو بتایا گیا کہ پاکستان کوموجودہ معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے سو ملین ڈالر کا قرض چاہیے۔ رابرٹ جے میک موہن اپنی کتاب ''The Cold War on the Periphery: The United States, India and Pakistan‘‘ میں لکھتا ہے کہ ڈولس کو بتایا گیا کہ بوگرا کی قیادت میں نئی حکومت نظریاتی پالیسی میں تبدیلیاں لا رہی ہے اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ڈولس نے کہا کہ پاکستان کی لیڈر شپ کے عقائد اور مارشل سپرٹ کمیونزم کے خلاف لڑائی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستانی لیڈرشپ کمیونزم کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ ڈولس کے پاکستان سے اگلی منزل بھارت کی طرف پرواز کرنے سے پہلے تاثرات بہت خوشگوار تھے اور اس نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور امریکہ دنیا کے مسائل اور خطے کی سیاست پر ایک صفحے پر ہیں۔ بھارت میں اس کے برعکس ڈولس کی باتوں میں وہ رجائیت پسندی نہیں تھی۔ اس نے پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مصر اور کوریا کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا۔ اس نے مشرق وسطیٰ میں ایک کمیونسٹ مخالف دفاعی اتحاد کی بات بھی کی‘ لیکن اس میں پاکستان کی شمولیت کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ اس نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ کسی ایسے اتحاد کا منصوبہ زیر غور نہیں ہے جو بھارت کے بارے میں غیر جانبدار نہ ہو۔ ان میں سے ہر موضوع پر اسے نہرو کی اختلافی رائے کا سامنا کرنا پڑا۔ واپس واشنگٹن پہنچ کر اس نے نہرو کو ایک ایسا سیاستدان قرار دیا‘ جو عالمی سیاست کے بارے میں بے عملی کا شکار ہے اور تصوراتی خیالات رکھتا ہے۔
اس سال موسمِ بہار میں صورتحال نے ایک نیا موڑ لیا۔ پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ قحط سالی کا شکار ہے اور لاکھوں لوگوں کی جان بچانے کے لیے اسے ایک ڈیڑھ ملین ٹن گندم کی ضرورت پڑے گی‘ جس کے لیے وہ امریکی امداد کا خواستگار ہے۔ صدر آئزن ہاور اور ڈولس کی کوششوں سے امریکی کانگرس نے فوری طور پر موسم گرما میں اس امداد کی منظوری دے دی۔ اس منظوری کے دوران جو تقاریر ہوئیں ان میں کہا گیا کہ پاکستان انہیں نظریات پر یقین رکھتا ہے جن پر ہم یقین رکھتے ہیں‘ اور یہ ملک کمیونزم کے خلاف ایک مضبوط مورچہ ہے۔ اس سے پہلے اس طرح کی امداد کی ایک بھارتی درخواست 1949 ء میں رد کر دی گئی تھی۔ اور1950 ء میں ہیری ٹرومین کی حمایت کے باوجود کانگرس نے امداد کی درخواست منظور کرنے پر بہت زیادہ وقت لگایا تھا۔ اگرچہ بھارت کو اس کا نقصان کے بجائے فائدہ ہی ہوا کہ سوویت یونین اور چین نے اس کے رد عمل میں بھارت کو کھل کر مدد فراہم کی تھی۔ بہر کیف ڈولس نے فارن ریلیشن کی کمیٹی کو بتایا کہ کمیونزم کے خلاف ترکی اور پاکستان کی شکل میں دو مضبوط مورچے بن سکتے ہیں‘ لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس پاکستان کے لیے فوجی امداد کا کوئی منصوبہ نہیں ہے‘ اس کی وجہ ہماری یہ تشویش ہے کہ پاکستان کی فوجی امداد کی وجہ سے بھارت کا رد عمل بڑا سخت ہو گا۔ جون کے مہینے میں ہی سی آئی اے نے بھی پاکستان کو فوجی امداد دینے کے سوال پر ایک جامع رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر امریکہ پاکستان کو فوجی امداد دیتا ہے تو اس پر بھارت کی طرف سے سخت قسم کا رد عمل ہو گا۔ یہ عمل کشمیر میں پاکستان کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کا باعث بنے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس طرح کی امداد دینے سے جنوبی ایشیا میں سوویت یونین کی دلچسپی بڑھ جائے گی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سلسلے میں کسی قسم کی یقین دہانی پنڈت نہرو کو مطمئن نہیں کر سکے گی‘ لیکن بہرحال چونکہ بھارت کو بھی امریکہ کی معاشی اور تکنیکی امداد کی ضرورت ہے اس لیے اس عمل سے پاکستان بھارت دشمنی بڑھنے کے امکانات کے باوجود حالات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور مشرق وسطیٰ میں اس طرح کے اقدامات سے جو فوائد مضمر ہیں‘ وہ امریکہ بھارت تعلقات کی خرابی کے نقصانات سے کئی زیادہ ہیں۔
امریکی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ مصر اور دوسری عرب ریاستوں سے امید بے کار ہے‘ وہ سوویت یونین کے خلاف کسی جنگ میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کے اپنے اندرونی حالات بہت خراب ہیں اور بطور اتحادی وہ قابلِ بھرو سا نہیں ہیں۔ متبادل کے طور پر یہ امریکہ کے بہترین مفاد میں ہو گا اگر ترکی‘ پاکستان‘ عراق اور ایران ایک دفاعی اتحاد تشکیل دیں۔ ایسا اتحاد مصر اور عرب ریاستوں کے اتحاد کی نسبت زیادہ مضبوط ہو گا اور پاکستان اس معاملے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس طرح ایک ڈرا فٹ تجویز سامنے آئی جس کو امریکی صدر نے منظور کیا۔ اس تجویز کے مطابق پہلے پاکستان اور ترکی ایک سمجھوتے پر دستخط کریں اور بعد ازاں عراق اور ایران کو اس میں شامل کیا جائے۔ اس دوران سی آئی کی مدد سے محمد مصدق کا تختہ الٹا جا چکا تھا اور ایران کی اتحاد میں شمولیت کا راستہ ہموار تھا۔ اگست 1953 ء تک شاہ کی قیادت میں ایران میں ایک ایسی مضبوط حکومت ابھر چکی تھی‘ جو خطے میں سوویت یونین کے خلاف امریکی دفاعی بندوبست میں شامل ہونے کے لیے تیار تھی۔ آگے چل کر واقعات نے جو موڑ لیا‘ اس کا ذکر آئندہ کسی کالم میں ہو گا۔