گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پاک امریکہ فوجی معاہدے کے لیے پچاس کی دہائی کے شروع میں ہی صورتحال پاکستان کے حق میں ہموار ہو چکی تھی۔ بقول پاکستانی پالیسی سازوں کے‘ برسوں کی سخت محنت کے بعد فصل تیار تھی اور اب مسئلہ اس کو بروقت کاٹنے کا تھا۔ مگر وہ فیصلہ کن گھڑی آ نہیں رہی تھی۔ مختلف وجوہات کی بنا پر معاملات بار بار تعطل کا شکار ہو رہے تھے۔ سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ پاکستانی فورسز کو امریکہ کے ساتھ کسی دفاعی معاہدے میں شامل ہو کر کوئی قابلِ ذکر کردار ادا کرنے کے لیے بہت بڑے وسائل کی ضرورت تھی۔ اور امریکہ کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ پاکستان کو مطلوبہ وسائل مہیا کرنے کے لیے کانگرس کی منظوری لے‘ جس کی ایک حد تھی۔ کانگرس میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی جو اس سوال پر بھارتی نقطۂ نظر کے حامی تھے اور پاکستان کے ساتھ فوجی معاہدے کے خلاف تھے۔ لیکن امریکہ کے لیے اصل پریشان کن سوال یہ تھا کہ پاکستان کو اس بندوبست میں شامل کرنے کے خلاف بھارت کا ردِ عمل کتنا سخت ہو گا اور اس سے ہونے والے نقصان پر کیسے قابو پا یا جا سکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال تھا جس پر خود امریکی رائے عامہ اور فیصلہ ساز لوگ تقسیم تھے۔ امریکہ کے پالیسی ساز اداروں میں ایک مضبوط لابی ایسی تھی جو بھارت کی قیمت پر پاکستان کو کسی ایسے پیکٹ میں شامل کرنے کے سخت خلاف تھی۔ اس سلسلے میں امریکہ کے طاقتور حلقوں میں کئی مضبوط آوازیں تھیں‘ جو وقتاً فوقتاً اٹھ رہی تھیں۔ ان میں ایک مضبوط آواز چیسٹر بول کی تھی۔ چیسٹر بول اس وقت بھارت میں امریکی سفیر تھے اور واشنگٹن میں کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔
چیسٹر بول کا خیال تھا کہ پاکستان کے ساتھ کسی ایسے معاہدے کی صورت میں بھارت کی سرکار اور عوام انتہائی شدید ردِ عمل دیں گے۔ یہ لوگ اس بات پر پکا یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ جو بھی ہتھیار پاکستان کو دے گا‘ وہ بالآخر اُنہی کے خلاف ہی استعمال ہوں گے۔ چیسٹر بول کے خیال میں پاکستان کو اس طرح کے کسی فوجی معاہدے میں شامل کرنے سے ایسے واقعات کا سلسلہ چل نکلے گا جو بالآخر جنوبی ایشیا میں سخت کشیدگی اور ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ کا باعث بن سکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوویت یونین اس بات کو سنجیدگی سے لے گا اور بھارت کو اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر فوجی امداد دے گا جس سے خطے میں امن کی صورتحال ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گی۔ اور اس سارے سلسلۂ عمل میں مشرقِ وسطیٰ میں ہمارے مطلوبہ مقاصد کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ امریکہ سے اٹھنے والی ان مخالفانہ آوازوں کے باوجود پاکستانی فیصلہ ساز اپنی کامیابی کے لیے پر امید تھے‘ انہوں نے اپنی کوششیں تیز تر کر دی تھیں۔ اسی سلسلے میں ستمبر میں ایوب خان نے واشنگٹن کا دورہ کیا۔ انہوں نے سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدے داروں کو بتایا کہ ان کے اس دورے کا صرف ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے پاکستانی فوج کے لیے امریکی اسلحہ حاصل کرنا۔ جب سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ان کو بتایا کہ اگر اسلحہ دینے کا فیصلہ کر بھی لیا جائے تو اس کے لیے ایک طویل کارروائی درکار ہوگی۔ فوجی امداد کے کسی ایسے پیکیج کے لیے صدر کی منظوری ضروری ہے مگر اس منظوری سے پہلے ڈپارٹمنٹ آف ڈیفنس کی طرف سے رپورٹ ضروری ہے جو ایک وقت طلب معاملہ ہے۔ ایوب خان اس جواب پر حیران رہ گئے۔ ان کی حیرت دیدنی تھی اور ان کو امریکی جواب پر مایوسی ہوئی۔ البتہ ڈولس نے ایوب خان کو یقین دلایا کہ اب بھارت کا ردِ عمل خواہ کچھ بھی ہو‘ پاکستان کو امداد دی جائے گی۔ ایوب خان ان یقین دہانیوں کے بعد وطن واپس لوٹ آئے لیکن کوششیں جاری رہیں‘ اس کے صرف ایک ماہ بعد ملک غلام محمد واشنگٹن پہنچ گئے۔
غلام محمد کی آمد پر پاکستانی اہل کاروں نے مقامی پریس کو کمال مہارت سے استعمال کیا۔ یہاں تک کہ نیو یا رک ٹائمز نے پانچ نومبر کو اس پر ایک طویل اداریہ لکھ دیا۔ اخبار نے لکھا کہ غلام محمد کے دورے کا مقصد امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک فوجی معاہدے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔ اس اداریے کی وجہ سے سفارتی اور سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے فی الفور ایک تردیدی بیان جاری کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ان افواہوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ امریکہ پاکستان کو فوجی اڈوں کے بدلے میں اسلحہ دے رہا ہے۔ ردِعمل دینے والوں میں سب سے سخت لہجہ پنڈت نہرو کا تھا۔ انہوں نے وائٹ ہاوس کو فون کر کے کہا کہ وہ سرد جنگ کو جنوبی ایشیا میں لانے کی حماقت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک امریکہ معاہدہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گا۔ نہرو کی ہدایات کے مطابق واشنگٹن میں بھارتی سفیر جی ایل مہتا متحرک ہو گئے اور انہوں نے کسی ایسے معاہدے کے خلاف سرگرمی سے لابی شروع کر دی۔ امریکی حکام نے مہتا کو یقین دلایا کہ امریکی اسلحہ کسی صورت بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ اور پاکستان میں امریکی اڈوں کے قیام کے سلسلے میں پاکستان سے کوئی بات چیت نہیں ہو رہی۔ بھارت کے علاوہ ماسکو کا ردعمل بھی بہت سخت تھا۔ ماسکو نے پاکستان سے کہا کہ وہ ان خبروں کی وضاحت چاہتے ہیں کہ پاکستان سوویت یونین کے خلاف مشرقِ وسطیٰ کے کسی جارحانہ بلاک کا حصہ بن رہا ہے۔ اور پاکستان کی طرف سے سوویت سرحدوں کے اتنے قریب پاکستانی علاقے میں امریکہ کو فوجی اڈے دینا ایک ایسا عمل ہوگا جس سے سوویت یونین لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ یہ سوویت یونین کی سکیورٹی کا سوال ہے۔ پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے دینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وزارتِ خارجہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان سوویت یونین جیسے ملک‘ جس کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات ہیں‘ کے خلاف کوئی غیر دوستانہ قدم اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کو اڈے دینے کے خلاف پاکستان کے اندر سے بھی آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئیں‘ جن میں ملک کے قوم پرست لیڈر پیش پیش تھے۔
حکام نے خیال ظاہر کیا کہ اس طرح کی آوازوں کے پیچھے پنڈت جواہر لال نہرو کا ہاتھ ہے تاکہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرنے سے روکا جا سکے۔ اس صورت حال میں امریکی نائب صدر رچرڈ نکسن نے کراچی کا دورہ کیا۔ کراچی میں نکسن نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی لیڈر سرد جنگ کا حصہ بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ایوب خان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ایوب خان کا مسئلہ بھارت دشمنی نہیں بلکہ سرد جنگ ہے۔ وہ بھارت دشمن نہیں بلکہ کمیونسٹ دشمن ہیں۔ وہ کمیونسٹ خطرے سے بجا طور پر اگاہ ہیں اور امریکہ دوست آدمی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر امریکہ کو سوویت یونین اور سوشلزم کے خلاف پاکستان میں سہولیات اور اڈے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ آگے چل کر واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں بیان کیا جائے گا۔