گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پچاس کی دہائی کے اوائل میں جنوبی ایشیا میں امریکہ اور سوویت یونین کی دلچسپی اور مفادات بہت بڑھ گئے تھے۔ پاکستان کی سول اور ملٹری لیڈر شپ کی امریکہ کے ساتھ اتحاد کے لیے سخت کوششوں اور واشنگٹن کے طوفانی دوروں کا نتیجہ بالآخر سامنے آنا شروع ہو گیا تھا۔ اس مسئلے پر بالآخر سیکرٹری آف سٹیٹ ڈولس (John Foster Dulles)نے جنوری 1954ء اپنی فائنل رپورٹ صدر آئزن ہاور کو پیش کر دی تھی۔ رپورٹ میں ڈولس نے لکھا تھا کہ پاکستان اور ترکی ڈیفنس پیکٹ پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس پر اگرچہ بھارت کی طرف سے طوفانی قسم کے ردِ عمل کا خطرہ ہے لیکن ہم امریکہ بھارت تعلقات کو متاثر کیے بغیر اس طوفان سے گزر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو اس کے پاک امریکہ تعلقات اور پاکستان کی موجودہ امریکہ دوست حکومت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ ہم نے بھارتی دھمکیوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ اس رپورٹ کے فوراً بعد جنوری کے وسط میں صدر آئزن ہاور نے فوجی امدادی پیکیج کی منظوری دے دی۔ پیکیج کی منظوری کے فوراً بعد ترکی اور پاکستان نے آپس میں سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی تعلقات کے فروغ کے لیے اقدامات کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی امن اور سکیورٹی کے لیے مشترکہ راستے تلاش کرنے کا اعلان بھی کیا گیا‘ جس کو محمد علی بوگرا نے پوری مسلم دنیا کے اتحاد کی طرف پہلا قدم قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی بائیس فروری 1954ء کو محمد علی بوگرا نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ پاکستان نے امریکہ سے باہمی سکیورٹی سمجھوتے کے تحت فوجی امداد اور اسلحہ مانگا ہے۔ اس کے فوراً بعد چوبیس فروری کو صدر آئزن ہاور نے دہلی میں مقیم امریکی سفیر کو ذاتی طور پر نہرو کو مل کر امریکی صدر کا پیغام دینے کو کہا۔ پیغام میں نہرو کو یقین دلایا گیا کہ پاکستان امریکی اسلحہ بھارت کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ اور اگر بھارت بھی امریکہ سے فوجی امداد کے لیے کہتا ہے تو اس پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی پچیس فروری کو امریکہ نے سرکاری طور پر پاکستان کو فوجی امداد فراہم کرنے کا اعلان کر دیا۔
اپریل میں ترکی اور پاکستان نے دوستانہ تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اس معاہدے کے ذریعے دونوں ملکوں نے ڈیفنس‘ اسلحہ اور ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے تعاون کا عزم کیا۔ اس کے ساتھ ہی 19 مئی 1954ء کو پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مشترکہ دفاع کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ یہ اس میدان میں ہونے والے مختلف معاہدوں اور سمجھوتوں کے ایک طویل سلسلے کی ابتدا تھی۔ اگلے دو سالوں کے اندر پاکستان اور امریکہ نے اس قسم کے سات معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان معاہدوں میں زراعت اور ٹیکنالوجی سے لے کر ٹریڈ اور کامرس سمیت غیر عسکری استعمال کے لیے ایٹمی توانائی کے حصول کے لیے امریکہ کی ٹیکنیکل مدد کا معاہدہ بھی شامل تھا۔ شرائط کے لحاظ سے یہ تمام معاہدے انٹرنیشنل لاء کے کسی بھی زاویے سے یک طرفہ معاہدے تھے جن کے تحت پاکستان کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ امریکی اسلحہ کو اندرونی سکیورٹی اور سیلف ڈیفنس یعنی دفاعی مقصد کے علاوہ کسی بھی مقصد کے لیے استعمال نہیں کر سکتا یعنی صرف ملک کے اندر کسی قسم کی کمیونسٹ بغاوت یا ملک پر بیرونی حملے کی صورت میں اپنے تحفظ کے لیے یہ اسلحہ استعمال کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان اس اسلحے کے ذریعے کسی اور ملک پر حملہ نہیں کر سکتا تھا‘ یہ اسلحہ کسی اور ملک یا تنظیم کو منتقل نہیں کر سکتا تھا لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاہدے کے تحت پاکستان اپنی اور آزاد دنیا کی دفاعی صلاحیت کے لیے اپنی تمام افرادی قوت اور سہولتیں فراہم کرنے کا پابند تھا‘ یعنی آزاد دنیا کو اپنے دفاع کے لیے پاکستان میں اڈوں کی ضرورت پڑے تو پاکستان یہ ضرورت پوری کرنے کا پابند تھا۔ اس فوجی معاہدے سے ایک ہفتہ پہلے امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان جنوبی ایشیا‘ مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے درمیان ایک پُل ہے۔ اس کی چین اور سوویت یونین کے قریب ہزاروں میل کی سرحدیں ہیں۔ یہ کمیونسٹ کنٹرولڈ سنٹرل ایشیا کے قریب ہے‘ جس کے ساتھ اس کے نسلی اور ثقافتی رشتے ہیں‘ جو مستقبل میں امریکہ کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کے پاس بندر گاہیں اور نیول بیسز ہیں، جہاں سے خلیج فارس ، بحیرہ عرب، خلیج بنگال اور بحر ہند سے گزرتے ہوئے جہازوں کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے پاس ایئر بیسز ہیں، جہاں سے سوویت یونین پر ہوائی حملے کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے امریکی جوائنٹ چیف آف سٹاف کی1949 ء کی رپورٹ میں بھی واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ جنگ کی صورت میں امریکہ کو مغربی پاکستان میں فوجی اڈوں کی ضرورت ہو گی۔ اس معاہدے کے تحت امریکی فائدے کا ذکر کرتے ہوئے صدر آئزن ہاور نے کہا کہ ایک امریکی سپاہی پر3515 ڈالر کا خرچہ آتا ہے جبکہ ایک پاکستانی سولجر پر 485 ڈالر سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ کوئی ایسا بندوبست جس کے تحت امریکی فوجی فارن لینڈ پر اتارنے سے بچا جائے نہ صرف معاشی طور پر سود مند ہے بلکہ اس کے ذریعے امریکی فوجیوں کو جانی نقصان سے بھی بچایا جا سکتا ہے۔ اس طرح امریکیوں کا خیال تھا کہ پاکستان اور ترکی پر مشتمل اتحاد کو بتدریج خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک تک پھیلایا جائے گا، جس کے تحت ان ممالک کی فوجیں سوشلزم اور سویت یونین کے خلاف لڑائی میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں گی۔ ان ممالک کو امریکی ایئر فورس کی مکمل سپورٹ حاصل ہوگی جس کے لیے بوقت ِضرورت ان ملکوں کے اڈوں اور دیگر سہولتوں کو استعمال کیا جا سکے گا۔
دوسری طرف پاکستان میں پالیسی ساز ان معاہدوں کو اپنے لیے ایک بڑی کامیابی اور ایک بڑا موقع قرار دے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان معاہدوں کے ذریعے پاکستان مشرق وسطیٰ کے رہنما کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے اور مسلم دنیا کے لیڈر کے طور پر ابھر سکتا ہے جب کہ ان معا ہدوں سے اس کا جنوبی ایشیا میں بھارت کے حوالے سے عدم تحفظ کا احساس بھی ختم ہو جاتا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ امریکیوں نے بار بار اس بات کو واضح کیا تھا کہ پاکستان ان معاہدوں کے تحت حاصل ہونے والے اسلحے کو بھارت کے خلاف استعمال نہیں کر سکتااور بھارت کو کھلے عام یقین دلایا گیا کہ اگر پاکستان نے ایسا کرنے کو کوشش کی تو امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہو گا۔ اس کڑی اور ناپسندیدہ شرط کے باوجود امریکی اسلحے کے حصول میں کامیابی پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے باعث اطمینان تھی۔ ان کا خیال تھا کہ جہاں تک بھارت کے خلاف امریکی اسلحے کے استعمال کا تعلق ہے تو اس بات کا فیصلہ وقت اور حالات کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کا اصرار تھا کہ وقت آنے پر پاکستان یہ اسلحہ ہر صورت میں بھارت کے خلاف استعمال کرے گا۔ امریکی اس سلسلے میں دونوں ملکوں کی چوٹی کی لیڈر شپ پر اپنی پوزیشن واضح کر چکے تھے مگر اپنے طور پر امریکیوں کو بھی زیادہ یقین نہیں تھا کہ جنگ کی صورت میں پاکستان کو عملی طور پر یہ اسلحہ و بارود استعمال کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔ امریکی صدر نجی محفل میں یہ بات کہہ بھی چکے تھے۔
واقعات نے آگے چل کر کیا صورت اختیار کی‘ اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔