پاکستان میں سیاست کا کوئی بھی موسم ہو‘ معیشت کی کوئی بھی حالت ہو‘ مسندِ اقتدار پر کوئی بھی حکمران فا ئز ہو‘ اس سے قطع نظر ملک کے سیاسی مکالمے اور گفتگو میں کچھ ایسے بیانات ہوتے ہیں جو ہر حالت میں سنائی دیتے ہیں۔ ان بیانات میں ایک تسلسل ہے اور حکمران یہ بیانات اس درد مندی اور سوز سے جاری کرتے ہیں کہ عوام کے پاس ان پر یقین کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ یہ چار پانچ قسم کے بیانات ہوتے ہیں جو ہر منتخب وزیراعظم ہر حالت میں جاری کرتا ہے۔ ان بیانات کا انداز یا ان کے الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں مگر ان کے اندر چھپا پیغام ہمیشہ ایک ہی ہوتا ہے۔ اس طرح کے کچھ بیانات چند دن قبل وزیراعظم شہباز شریف نے کچھ تعمیراتی منصوبوں کے افتتاح اور شارٹ فلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دیے۔ ان میں ایک مقبول ترین بیان یہ ہے کہ ہمیں حلف اٹھاتے وقت یعنی اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے وقت معیشت کی تباہی کا اندازہ نہیں تھا۔ یہ فقرہ ان الفاظ میں صرف موجودہ وزیراعظم نے ہی نہیں ادا کیا بلکہ سابق وزیراعظم بھی یہ بیان بارہا دیتے رہے۔ وہ اپنے اقتدار کے شروع دنوں میں کئی ماہ تک بڑے تسلسل سے یہ فقرہ بڑی درد مندی اور اداسی سے بیان کرتے رہے۔
یہ صرف ان دو وزرائے اعظم کی ہی بات نہیں‘ اگر آپ گزشتہ بیس برس کے دوران اُن تقاریر کا ریکارڈ نکال کر دیکھیں جو منتخب وزرائے اعظم نے اپنے اقتدار کے پہلے ایک سال کے دوران کی ہیں‘ تو آپ کو یہ بیان تھوڑے بہت فرق کے ساتھ‘ انہی الفاظ میں ہر وزیراعظم کی گفتگو میں ملے گا‘ اور کثرت سے ملے گا۔ عوام اگر اپنے رہنماؤں کے صرف اس ایک بیان کو سنجیدگی سے لیں۔ اس کو اس کی گہرائی سمیت سمجھ سکیں اور اس کے اندر چھپے ہوئے کنفیوژن اور تضاد کو تلاش کر سکیں‘ تو ا س طرح کے رہنماؤں کا سیاست میں رہنا یا دوبارہ منتخب ہو کر آنا ناممکن ہو جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے خواہش مند یا پرامید رہنما‘ ان کے مشیران‘ پارٹی لیڈرز اور ان سے ہمدردی رکھنے والے ماہرین اور دانشور اس وقت اقتدار میں موجود حکومت کی جس پالیسی کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ وہ ملک کی معاشی پالیسی اور معیشت ہوتی ہے۔ وہ جلسوں‘ جلوسوں‘ سمیناروں‘ پریس کانفرنسوں میں پورے اعداد و شمار کی روشنی میں تفصیل سے بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک کی معیشت کی حالت کیا ہے‘ عوام کے معاشی حالات کس قدر دگرگوں اور قابلِ رحم ہیں اور اگر اقتدار فی الفور ان کے حوالے نہ کیا گیا تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا‘ عوام بھوکے مر جائیں گے اور ملک میں معاشی تباہی اور بربادی کا ایک ناقابلِ حل دور شروع ہو جائے گا۔ اس وقت ان کو سارے معاشی اعداد و شمار زبانی یاد ہوتے ہیں۔ ملک کے خزانے میں کل کتنی رقم موجود ہے‘ ملک کے پاس اس وقت زرِ مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں‘ ملکی اور غیر ملکی قرضے کتنے ہیں‘ ملک کی امپورٹ ایکسپورٹ کی صورتحال کیا ہے‘ تجارت و صنعت کی حالت کیسی ہے۔ انہی اعداد و شمار کی روشنی میں وہ پورے یقین کے ساتھ یہ بتاتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہونے کے کتنے قریب ہے۔ اس لیے ڈیفا لٹ‘ دیوالیہ پن اور معاشی تباہی و بربادی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی عظیم معاشی سمجھ بوجھ کے پیش نظر ان کو اقتدار منتقل کردیا جائے۔ ان کی یہ ڈرا دینے والی تقاریر انتخابات تک جاری رہتی ہیں۔ وہ بڑی کامیابی اور مہارت سے عوام کو اس خوف میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ اگر حکومت تبدیل نہ ہوئی تو ایک خوفناک معاشی تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہوگی۔
الیکشن کے فوراً بعد اگر وہ کامیاب ہو جائیں تو ان کا لب و لہجہ بدل جاتا ہے۔ وہ بڑی معصومیت سے یہ بتانا شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کو تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملک کی معاشی حالت اس قدر خراب ہے۔ جب اقتدار ہمیں ملا تو ملک کے خزانے خالی تھے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہونے کے قریب تھے۔ وہ اپنی بے بسی اور مظلومیت کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں گویا گزشتہ حکومت نے ان کے خلاف کوئی سازش کی ہو اور اقتدار دھوکے اور سازش کے ذریعے ان کے سر تھوپ دیا ہو۔ وہ معیشت کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ عوام اپنے دکھ درد بھول کر ان کی دل جوئی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کو یاد ہی نہیں رہتا کہ ان کے مصائب کیا تھے‘ اور ان کے حل کے لیے ان کے ساتھ کیا کیا وعدے کیے گئے تھے۔ اس طرح یہ جھوٹ کا ایک طویل سلسلہ ہے جو برسہا برس سے جاری ہے۔
اس سلسلے کی دوسری بات جو سب حکمرانوں میں مشترک ہوتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ اقتدار پر فائز ہونے کے دو تین ماہ بعد یہ نو منتخب حکمران یہ دعویٰ بھی شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے۔ یہ دعویٰ بھی وزیراعظم نے حال ہی میں مذکورہ بالا تقریبات میں ہی کیا ہے۔ حکمران اشرافیہ کا یہ بیان کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ہم نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تو ملک تقریباً دیوالیہ ہو چکا تھا‘ بس رسمی اعلان کی ضرورت تھی۔ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے لیکن اس دعوے کے ثبوت میں یہ ہر گز نہیں بتاتے کہ آخر انہوں نے ایسا کیا کیا کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ کیا انہوں نے ملک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کیا۔ ملکی پیداوار یا دولت میں کوئی اضافہ کیا۔ کوئی غیرملکی قرضے معاف کروائے یا ادا کیے۔
ان کا تیسرا بڑا شاہکار بیان ان کو مزید وقت اور مہلت دینے کی التجا پر مشتمل ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے بھی انہی تقریبات میں یہ بات بھی کہی ہے کہ اگر اگلے پانچ سال مل جائیں تو غریبوں کی تقدیر بدل جائے گی۔ یہ حکمران اشرافیہ کا تیسرا بڑا مقبول بیان ہے‘ جو ہر حکمران اپنے اقتدار کے چند ماہ گزرنے کے بعد دہرانا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عموماً وہ وقت ہوتا ہے جب عوام حکمران اشرافیہ کی طرف سے کیے گئے وعدوں اور دعووں کے بارے میں دبے لفظوں میں باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارے حکمران نے وعدے تو لاکھوں نوکریوں کے کیے تھے‘ مگر ابھی تک یہ نہیں سنا کہ کسی ایک بے روز گار کو کسی نوکری کی کوئی نوید سنائی گئی ہو۔ یا کوئی ایسا منصوبہ ہی سامنے آیا ہو جس کے تحت مستقبل قریب میں کسی کو روز گار ملنے کی امید ہو۔ مفت علاج اور تعلیم کے منصوبے وقت طلب سہی‘ مگر اس میدان میں شروعات ہوں گی تو عوام وقت کا انتظار کریں گے۔ اس طرح مہنگائی میں کمی اور اس نوعیت کے دیگر مسائل کے بارے میں حکمران طبقات کے وعدے ہوتے ہیں‘ جن کو یاد رکھنے کے لیے عوام کو طویل یا مختصر حافظے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ مسائل عوام کے کندھوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ بن کر ان کو حکمرانوں کے وعدے دن رات یاد دلاتے رہتے ہیں۔
حکمران اشرافیہ کا چوتھا بڑا بیان یہ ہوتا ہے کہ عوام پریشان نہ ہوں‘ گھبرائیں مت! اسی طرز پر عوام کو تسلی دیتے ہوئے چوتھی بات وزیراعظم نے یہ فرمائی کہ عوام پریشان نہ ہوں‘ ان کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے گا۔ یہ وہ ''لائن‘‘ ہے جو اقتدار کے کچھ عرصہ بعد ہر حکمران کا تکیہ کلام بن جاتی ہے‘ اور پھر اگلے پانچ سال تک عوام کو یہ فقرہ مختلف الفاظ اور انداز میں سننا پڑتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ عوام ایک فریبِ مسلسل کا شکار ہیں جس کا ازالہ اب ضروری ہو چکا ہے۔