ڈالر‘ ڈالر اور ڈالر۔ پاکستان میں جس طرح ڈالر زیرِ بحث ہے‘ اس سے لگتا ہے یہ امریکی نہیں بلکہ پاکستانی کرنسی ہے۔ ہر خاص و عام اس پر بحث کر رہا ہے۔ اپنی اپنی رائے دے رہاہے ۔ ڈالر کے اتار چڑھاؤ کے اَسرار و رموز بتا رہاہے۔ اور جن لوگوں کو اس پر بحث کرنی چاہیے اور قوم کو سچ بتانا چاہیے کہ ڈالر اوپر اور روپیہ کیوں نیچے جا رہا ہے‘ وہ یہ معاملہ اللہ کے سپرد کر کے بری الزمہ ہو چکے ہیں‘ اور پر اسرار خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ماہرینِ معاشیات اور معاشی دانشوروں سے معذرت کے ساتھ عام آدمی کے استفادے کے لیے کچھ بنیادی باتیں عرض ہیں کہ ڈالر کو بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت دنیا کی سب سے اہم کرنسی کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا۔ یہ معاہدہ جولائی 1944ء میں امریکی ریاست نیو ہمپشائر میں ہوا تھا۔ جس کانفرنس میں یہ معاہدہ ہوا تھا‘ اس میں دنیا کے 44 ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ اسی کانفرنس میں عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک قائم ہوئے تھے۔ اس میں کرنسی کے تبادلے کا جو عالمی نظام قائم کیا گیا تھا‘ وہ 1971ء تک چلتا رہا۔ 1971ء میں ڈالر کے سونے سے تمام روابط منقطع کر دیے گئے‘ اس کے باوجود ڈالر دنیا کی سب سے اہم ریزرو کرنسی کے طورپر اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہا ہے۔ اس مشہور معاہدے یعنی Bretton Woods Agreement کے تحت ہی عالمی مالیاتی نظام بھی قائم کیا گیا تھا‘ جس میں بین الاقوامی تجارت اور امریکی ڈالر کا بطور بنیادی کرنسی استعمال کرتے ہوئے عالمی کیپٹل مارکیٹوں تک رسائی کے لیے قوانین‘ ادارے اور طریقۂ کار مرتب کیے گئے تھے۔
یہ نظام آج بھی کسی نہ کسی شکل میں چل رہا ہے اور امریکی ڈالر کو دنیا بھر میں مرکزی بینکوں‘ غیر ملکی کمپنیوں کے پاس یورو ڈالر فارن ڈیپازٹ اکاؤنٹس اور نوٹوں کی شکل میں رکھا جاتا ہے۔ امریکی ڈالر بنیادی طور پر ایک عالمی معیاری کرنسی مانا جاتا ہے۔ اس میں عالمی تجارت کی جاتی ہے اور اس کے ساتھ عالمی اجناس کی منڈیوں میں ادائیگیاں طے کی جاتی ہیں۔ امریکی ڈالر کئی ممالک میں سرکاری کرنسی بھی ہے اور کئی ایک ممالک میں ڈی فیکٹو کرنسی کے طور پر رائج ہے‘ جس میں فیڈرل ریزرو نوٹ گردش میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح امریکی ڈالر ایک مدت سے عالمی معیشت کی بنیاد اور بین الاقوامی تجارت اور مالیات کے لیے ریزرو کرنسی رہا ہے۔
ڈالر کی قدر کا انحصار ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اقتصادی سرگرمیوں اور آؤٹ لُک پر ہوتا ہے۔ بنیادی اور تکنیکی عوامل کے علاوہ‘ مارکیٹ کی نفسیات اور جیو پولیٹکل رسک بھی عالمی منڈی میں ڈالر کی قدر کو متاثر کرتے ہیں۔ پاکستان میں آج کل سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ڈالر اوپر اور روپیہ کیوں نیچے جا رہا ہے‘ اور ڈالر کی قدر و قیمت کا تعین کیسے ہوتا ہے۔ یہ سوال اتنا اہم ہے کہ اب پاکستان میں عام آدمی بھی اس پیچیدہ مسئلے میں دلچسپی لینا شروع ہو گیا ہے۔
ڈالر کی قیمت کے تعین میں سب سے اہم عنصر طلب اور رسد ہے۔ سادہ زبان میں اس کو اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے کہ جب امریکہ اپنی مصنوعات یا خدمات برآمد کرتا ہے‘ تو یہ ڈالر کی مانگ پیدا کرتا ہے کیونکہ صارفین کو اشیا اور خدمات کی ادائیگی ڈالر میں کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے انہیں ادائیگی کرنے کے لیے ڈالر خریدنے کے لیے اپنی کرنسی بیچ کر اپنی مقامی کرنسی کو ڈالر میں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ یہ طلب اور رسد اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب امریکی حکومت یا بڑی بڑی امریکی کارپوریشنز سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے بانڈز جاری کرتی ہیں۔ یہ بانڈز خریدنے کے لیے غیرملکی سرمایہ کاروں کو ادائیگیاں امریکی ڈالر میں کرنا پڑتی ہیں۔ اسی طرح غیر امریکی سرمایہ کاروں کو امریکی کارپوریٹ سٹاکس کو خریدنے کے لیے امریکی ڈالر کی ضرورت پڑتی ہے‘ اور اس مقصد کے لیے انہیں اپنی اپنی کرنسی بیچنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ تمام سرگرمیاں ڈالر کی زیادہ مانگ پیدا کرتی ہیں یعنی اس کی طلب بڑھتی ہے اور اس کے نتیجے میں ڈالر کی سپلائی پر دباؤ پڑتا ہے‘ جس سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان سب عوامل کے علاوہ ایک اہم ترین عنصر یہ ہوتا ہے کہ عموماً اقتصادیات کی غیریقینی کی عالمی صورتحال کے دوران امریکی ڈالر کو ایک محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے اور سرمایہ دار ڈالر خرید کر اپنا سرمایہ محفوظ کرتے ہیں۔ ڈالر کی قدر و قیمت کا مارکیٹ کی نفسیات سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ایسا تب ہوتا ہے جب امریکی معیشت کمزور ہو جاتی ہے اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے کھپت سست ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں امریکہ کوڈالر فروخت کرنا پڑتا ہے‘ جو بانڈز یا سٹاک کی فروخت سے نقد رقم کی واپسی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔
ڈالر سے جڑے دنیا بھر کے تاجروں کو ہر وقت یہ جاننے یا اندازہ کرنے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے کہ آیا ڈالر کی سپلائی ڈالر کی طلب سے زیادہ ہوگی یا کم۔ اس کا تعین کرنے کے لیے کسی بھی ایسی خبر یا واقعہ پر گہری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو ڈالر کی قدر کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس میں مختلف سرکاری اعدادوشمار کا اجرا شامل ہے‘ جیسے پے رول ڈیٹا‘ جی ڈی پی ڈیٹا اور دیگر معاشی معلومات جو تاجروں اور سرمایہ کاروں کو اس بات کا تعین کرنے میں مدد کر سکتی ہیں کہ معیشت طاقتورہے یا کمزور‘ جس سے ڈالر کی قدر و قیمت کا درست اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ عام اقتصادی رجحانات کا تعین کرنے کے لیے مارکیٹ میں بڑے کھلاڑیوں‘ جیسا کہ سرمایہ کار بینکوں اور اثاثہ جات کے انتظامی اداروں کے خیالات کو شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انتہائی سادہ زبان میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بننے والے متعدد عوامل ہیں‘ لیکن بنیادی عنصر ڈالر کی مانگ ہے۔ اگر ڈالر کی مانگ بڑھتی ہے تو اس کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر مانگ کم ہوتی ہے تو قدر بھی کم ہوتی ہے۔ ڈالر کی مانگ اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بین الاقوامی مارکیٹ میں غیرملکی شہری‘ غیرملکی مرکزی بینک یا غیر ملکی مالیاتی ادارے مزید ڈالر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ڈالر کی مانگ عام طور پر زیادہ ہوتی ہے کیونکہ یہ دنیا کی ریزرو کرنسی ہے۔ دیگر عوامل جو کسی دوسری کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ہونے یا پھر اضافہ نہ ہونے پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ ان میں افراطِ زر کی شرح‘ تجارتی خسارہ اور سیاسی استحکام شامل ہیں۔ کرنسیوں کے درمیان شرحِ مبادلہ کو متاثر کرنے والے دیگر کئی عوامل میں کرنسی ریزرو کی حیثیت‘ افراطِ زر‘ سیاسی استحکام‘ شرح سود‘ قیاس آرائیاں‘ تجارتی خسارے اور عوامی قرض وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔ مضبوط کرنسی کے مقابلے میں دوسری طرف کمزور کرنسی وہ ہوتی ہے جس کی قدر دوسری کرنسی کے مقابلے میں کم ہو جاتی ہے۔ کمزور کرنسیاں ان ملکوں کی ہوتی ہیں جن کی معاشی بنیادیں کمزور ہوتی ہیں یا غیر موثر حکومتیں ہوتی ہے۔ کمزور کرنسی اعلیٰ سطح کی عدم مساوات‘ سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی کی اعلیٰ سطح‘ عوامی قرضوں اور تجارتی خسارے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت ڈالر کے اوپر جانے اور روپے کے نیچے جانے کے پس منظر میں ان تمام عوامل کا اپنا اپنا کردار ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرائط اور ملک میں مروجہ سیاسی و معاشی عدم استحکام اور غیریقینی کی کیفیت بھی بنیادی وجوہات ہیں جو ڈالر کے بڑھنے اور روپے کے گرنے کا موجب ہیں۔