گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ دوسو کیس میں سپریم کورٹ نے مارشل لا کے نفاذ کو درست قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کو پاکستان کے عدالتی‘ سیاسی اور دانشور حلقوں میں سخت نا پسندیدگی سے دیکھا گیا۔ اس کے خلاف جہاں عوام نے ناراضی کے جذبات کا اظہار کیا‘ وہیں قانونی حلقوں کی طرف سے بھی ردِ عمل ظاہر کیا گیا‘ جس کا واضح اظہار آگے چل کر عاصمہ جیلانی بنام حکومتِ پنجاب کیس کی اپیل میں ہوا۔ اس کیس کے مرکزی کردار ملک غلام جیلانی تھے۔ وہ ایک پارلیمنٹیرین تھے۔ ان کا شمار ان سیاست دانوں میں ہوتا تھا جو آمریت اور مارشل لا کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ وہ صدر ایوب خان اور صدر یحییٰ خان کی حکمرانی اور پالیسیوں کے سخت مخالف تھے اور ملک میں جمہوری نظام کے قیام کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے ممبر تھے۔ شیخ مجیب نے اپنا چھ نکاتی فارمولا لاہور میں غلام جیلانی ہی کے گھر میں پیش کیا تھا۔
ملک غلام جیلانی کو 22 دسمبر 1971ء کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے اس حکم نامے کو ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جیلانی‘ جو بعد میں عاصمہ جہانگیر کے نام سے مشہور ہوئیں‘ نے ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس رٹ پٹیشن کی وجہ سے یہ کیس عاصمہ جیلانی بنام حکومتِ پنجاب کے نام سے مشہور ہوا۔ حکومتِ وقت نے یہ پوزیشن اختیار کی کہ مارشل لا آرڈیننس 1969ء کے تحت ہائی کورٹ کے پاس اس مقدمہ کی سماعت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس کیس میں بنچ کے سربراہ جسٹس شفیع الرحمن نے دوسو کیس کی رولنگ کا سہارا لیا۔ انہوں نے لکھا کہ مارشل لا آرڈر 1969ء جائز اور درست ہے‘ اس لیے یہ کیس ہائی کورٹ کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے۔ اسی دوران سندھ ہائی کورٹ میں بھی الطاف گوہر کی گرفتاری کے خلاف رٹ پٹیشن دائر ہوئی‘ جس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ یہ رٹ عدالت کے اختیار سے باہر ہے۔ دونوں مقدمات میں ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ ان اپیلوں میں سپریم کورٹ میں بنچ کے سربراہ جسٹس حمود الرحمن تھے۔ ان کے سامنے بنیادی اور سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ کیا 1962ء کے آئین کے آرٹیکل 98کے مطابق ہائی کورٹ کو ان گرفتاریوں کے قانونی جواز کے بارے میں سماعت کا اختیار تھا خصوصاً جبکہ مارشل لا آرڈر 1969ء کے تحت عدالتوں کے اختیارات کو محدود کر دیا گیا تھا۔ عدالت کے سامنے دوسرا بڑا سوال یہ تھا کہ دوسو بنام ریاست کیس میں جو اصول وضع کیے گئے تھے‘ کیا وہ درست ہیں؟ عدالت نے قرار دیا کہ دوسو بنام ریاست کیس میں چیف جسٹس نے کیس کا فیصلہ کچھ مفروضوں کی بنیاد پر کیا تھا۔ عدالت نے یہ فرض کر لیا تھا کہ ''لیگل پازیٹوزم‘‘ کے جس اصول کو وہ اس کیس میں استعمال کر رہے ہیں‘ وہ عالمی سطح پر اتنا تسلیم شدہ ہے کہ جدید قانون کی پوری سائنس ہی اس اصول پر کھڑی ہے۔ ان کا دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ اچانک رونما ہونے والی کوئی تبدیلی‘ جو آئین کے تحت نہ ہو‘ وہ انقلاب کے زمرے میں آتی ہے۔ خواہ یہ تبدیلی کتنی عارضی ہی کیوں نہ ہو‘ بس شرط یہ ہے کہ اس تبدیلی کی عوام نے مخالفت نہ کی ہو۔ ان کا تیسرا مفروضہ یہ تھا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ہی کسی ریاست کی اندرونی خود مختاری کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مفروضے درست نہیں تھے۔ کیلسن کی تھیوری کسی بھی اعتبار سے کوئی عالمی طور پر تسلیم شدہ تھیوری نہیں تھی اور نہ ہی اس تھیوری کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا تھا کہ عالمی قانون کسی ملک کی اندرونی خودمختاری پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کیلسن کے وضع کردہ ان اصولوں کا بھی جائزہ لیا جن کو جسٹس منیر نے دوسو کیس میں اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا تھا۔ چیف جسٹس نے واضح کیا کہ جسٹس منیر کی رائے کے برعکس کیلسن کی تھیوری عالمی سطح پر تسلیم شدہ نہیں تھی۔ دوسرا یہ کہ یہ تھیوری ماڈرن جیورس پروڈینس کا کوئی بنیادی اصول متصور نہیں ہوتی۔ یہ تھیوری کسی طرح بھی مطلق العنانیت کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ تھیوری ججوں اور وکلا کے روز مرہ کے مسائل سے متعلق نہیں ہے۔ اس تھیوری میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ جس آدمی کے پاس طاقت و اختیار ہوتا ہے‘ وہی قانون کا سر چشمہ ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہمارے پیچیدہ معاشرے میں ریاست و حکومت چلانے کے لیے ٹرسٹی کا تقرر کیا جاتا ہے۔ چونکہ ہر شہری براہِ راست حکومتی معاملات میں حصہ نہیں لے سکتا‘ اس لیے ٹرسٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ وہ عام آدمی کے فائدے کے لیے اس کی ایما پر اس کی نمائندگی کر سکیں۔ اس طرح اگر ٹرسٹی یہ ٹرسٹ توڑتا ہے یا اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کو اپنے عہدے سے ہٹانے کا اختیار بھی عوام کے پاس ہونا چاہیے۔ ریاست کے سربراہ کا انتخاب عوام کرتے ہیں اور وہ ان کو جواب دہ ہوتا ہے۔ اسی اصول کے تحت حکومت قانون کی پابند ہوتی ہے اور کوئی بھی قانون سے با لا تر نہیں ہوتا۔ ان حالات و واقعات کی روشنی میں یہ قرار دیا جاتا ہے کہ دوسو کیس میں جو اصول استعمال کیے گئے ہیں‘ ان کو کسی بھی طریقے سے اچھا قانون تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کیس کی اہم ترین بات یہی تھی کہ اس میں دوسو کیس کے فیصلے اور اس میں استعمال کیے گئے اصولوں کو رد کر دیا گیا۔ کورٹ نے اس اصول کو تفصیل سے رد کیا کہ آئین سے ماروا کسی تبدیلی کو یعنی مارشل لا کے نفاذ کو انقلاب کہا جاتا ہے اور اس انقلاب کی وجہ سے معرضِ وجود میں آنے والی نئی حکومت کی طاقت اور اختیار کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ اس اصول کو کسی طرح بھی درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس بنیاد پر ہونے والی تبدیلی کو جائز مانا جا سکتا ہے۔
اس کیس میں دوسری اہم ترین بات یہ تھی کہ عدالت نے قرار دیا کہ مارشل لا کا نفاذ خود بخود مارشل لا حکام کو یہ اختیار نہیں دے دیتا کہ وہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق ختم کریں یا آئین کو معطل کر دیں کیوں کہ خود انہوں نے بطور کمانڈر آئین سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہوتا ہے۔ اس طرح مولوی تمیزالدین کیس اور دوسو کیس میں جہاں جہاں مارشل لا کے نفاذ اور آئین کی معطلی کو درست قرار دیا وہاں اس کے برعکس عاصمہ جیلانی کیس میں ان فیصلوں اور ان میں استعمال کیے گئے اصولوں کو واضح طور رد کر دیا گیا۔ اس طرح عاصمہ جیلانی کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلا کیس قرار پایا جس میں پارلیمنٹ کی بالا دستی‘ قانون کی حکمرانی اور آئین کی برتری کے تصور کو واضح کیا گیا اور طاقت کے زور پر اقتدار پر قابض ہونے کے عمل کو غیرآئینی قرار دیا گیا۔ اس کیس میں برطانوی دور سے لے کر مارشل لا کی تاریخ کا جائزہ بھی لیا گیا۔ سپریم کورٹ نے لکھا کہ یحییٰ خان کوئی فاتح نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کوئی مفتوح علاقہ ہے‘ جس کا حکم ماننا لازم ہو اور اس کے تمام احکامات کو غیرقانونی قرار دے دیا۔ اس کیس کا فیصلہ آنے تک یحییٰ خان اقتدار سے فارغ ہو چکے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ اس کیس کے فیصلے نے طاقت ور حکمران اشرافیہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنے آپ کو آئین و قانون کے تابع سمجھیں۔ اس کے بعد ہونے والی آئین سازی اور دیگر اصلاحات میں اس کیس نے بنیادی کردار ادا کیا۔