عام خیال یہ ہے کہ دنیا روز بروز بہتری کی طرف گامزن ہے۔ ترقی پذیر اور پسماندہ سماج ترقی یافتہ ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا میں غربت اور مصائب میں کمی آتی جا رہی ہے۔ یہ آج کا عام خیال ہے اورعام لوگوں کے علاوہ دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھی اس پر یقین رکھتی ہے۔ مگر یہ عام خیال اتنا درست بھی نہیں ہے۔ دنیا میں حقائق‘ اعداد و شمار اور اشاریے کسی اور طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اگر ان حقائق اور اعداد و شمار پر غور کیا جائے تو دنیا اس وقت شدید بحران کی زد میں ہے۔ بیشتر ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگرچہ دنیا کی کچھ صنعتی معیشتیں بظاہر اب بھی ترقی کر رہی ہیں لیکن ان میں کام کرنے والے لوگوں کی حقیقی آمدنی میں 1980ء کے بعد بمشکل اضافہ ہوا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس امریکہ جیسی معیشت میں کم ہنر مند کارکنوں کی اجرتوں میں واضح کمی آئی ہے۔ اس معاشی بدحالی کا سیاست پر گہرا اثر پڑا ہے۔ مجموعی طور پر جمہوریت اور جمہوری تصورات تباہ ہو رہے ہیں۔ فریڈم ہاؤس کے مطابق: پچھلے 17 سالوں میں کئی ممالک نے اپنی آزادیاں اور انسانی حقوق کھو دیے ہیں‘کئی ملکوں میں آمریت عروج پر نظر آتی ہے اور اس نے جمہوریت کو پسپا کر دیا ہے۔ بہت سی حکومتوں کے لیے چینی طرز کی سرمایہ داری ایک پُرکشش ماڈل بن رہی ہے۔ اکیسویں صدی اب تک مجموعی طور پرجبر‘ ہنگامہ آرائی اور جمہوری اداروں کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ان خیالات کی تائید میں ممتاز لکھاری ڈیرون (Daron Acemoglu) نے فارن پالیسی میں ان مایوس کن حالات میں لکھی گئی دو فکر انگیز کتابوں پر تبصرہ کیا ہے‘ جن کو دانشور حلقوں میں پڑھا جا رہا ہے۔ ان میں ایک کتاب''The Crisis of Democratic Capitalism‘‘ہے۔ اس کتاب میں فنانشل ٹائمز کے ماہر ِمعاشیات مارٹن وولف نے دلیل دی ہے کہ اس بدحالی کی جڑ سرمایہ داری اور لبرل جمہوریت کے درمیان تعلقات کی خرابی میں مضمر ہے۔
دوسری کتاب ''A World of Insecurity‘‘ ہے۔ اس کتاب میں ماہر اقتصادیات پرناب بردھن کا استدلال ہے کہ دنیا جس بحران سے دوچار ہے اس کو عدم مساوات کے لحاظ سے نہیں بلکہ عدم تحفظ کے لحاظ سے بہتر سمجھا جاسکتا ہے۔ملازمتوں میں کمی‘ کم ہوتی آمدنی‘ غربت‘ اور ثقافتی تبدیلی کے بارے میں معاشی اور سماجی بے چینی اس عدم تحفظ کا اظہار ہے۔ بردھن نے اپنی کتاب کا آغاز جرمن ناول نگار تھامس مان کے ایک انتباہ کے ساتھ کیا‘ جس نے 1938ء میں لکھا تھا کہ سب سے بڑی غلطی جو جمہوریت میں لوگ کر سکتے ہیں وہ ہے ''خود بھول جانا‘‘۔ اس نے خدشہ ظاہر کیا کہ معاشروں کیلئے جمہوریت کو قدر کی نگاہ سے نہ دیکھنا اور اجتماعی یادداشت سے جمہوری اداروں کی تشکیل کے مشکل عمل کو مٹا دینا خطرناک حد تک آسان ہے۔ یہ جذبات دونوں مصنفین کی طرف سے مشترکہ ہے۔ بہت سے ممالک میں لوگوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہے کہ وہ جمہوریت‘ شہریت کے فرائض اور مشترکہ خوشحالی کے مقصد کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ سیاستدان‘ پنڈت‘ اور کئی دوسرے لوگوں کو اس بات کا دکھ ہے کہ ان کے ساتھی شہری جمہوریت کے پریشان کن متبادل یا کمزور جمہوریت کو قبول کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جمہوریت مثالی یا مکمل نظام نہیں ہے‘ لیکن یہ دستیاب آپشنز میں ایک بہترین آپشن ہے‘ لہٰذا یہ جس اچھی برُی شکل میں میسر ہو‘ قبول کرنی چاہیے۔ دوسری طرف کچھ دانشور جمہوریت کی ناکامی کا الزام عوام پر ڈالتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ لوگ اتنے پختہ نہیں ہیں کہ جمہوریت کو کارآمد بنا سکیں اور اسے اپنی زندگیوں میں بہتری لانے کے لیے بروے کار لا سکیں۔ ان کے خیال میں شہری بے یقینی کے دور میں یا تواپنے اپ کو جمہوریت کا اہل ہی نہیں سمجھتے یا وہ آمریت کے لالچ کا شکار ہو چکے ہیں۔ جیسا کہ روشن خیالی کے مخالف فرانسیسی فلسفی جوزف ڈی میسترے نے اس کا زیادہ مختصر اظہار کیا کہ ''ہر قوم کو وہ حکومت ملتی ہے جس کی وہ حقدار ہوتی ہے‘‘۔ لیکن وولف اور بردھن نے یہ درست کہا ہے کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ادارے عوام کو دینے میں ناکام ہوئے ہیں‘ نہ کہ عوام اداروں کو بنانے یا ان کو چلانے میں ناکام رہے۔ دونوں مصنفین اس بحران کے حل کیلئے ریاست پر انحصار کرتے ہیں۔
بردھن کا استدلال ہے کہ جدید معاشرے دولت کی زیادہ منصفانہ تقسیم کے ذریعے اس رجحان کو تبدیل کر سکتے ہیں‘ مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے‘ خاص طور پر یونیورسل بنیادی آمدنی یعنی ایک ملک کے تمام لوگوں کو ان کے ذرائع سے قطع نظر ایک باقاعدہ کم از کم رقم کی ادائیگی اور اس طرح کے دوسرے اقدامات معا ملات کو سدھار سکتے ہیں۔ وولف کے خیال میں اس کا جواب سماجی تحفظ کو مضبوط بنانے اور بہتر ملازمتوں میں سرمایہ کاری میں مضمر ہے۔ کوئی بھی مصنف ایک حل پر خاطر خواہ زور نہیں دیتا۔ ان کا خیال ہے کہ ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے تاکہ یہ کارکنوں کی ملازمتوں کو ختم کرنے کے بجائے ان کی پیداواری صلاحیت کو بہتر بنائے۔ ایسا کرنے سے ان شکایات کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی جنہوں نے بہت زیادہ عدم اطمینان کو ہوا دی ہے‘ خاص طور پرمغرب کے کھوکھلے صنعتی علاقوں میں بے چینی اور مایوسی پھیلی ہے۔ دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ موجودہ نظام انسانی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔ مگر وہ متبادل نظام پیش کرنے کے بجائے اسی نظام میں چھوٹی موٹی تبدیلی سے صورتحال میں بہتری کی امید رکھتے ہیں‘ جو تاریخی حقائق اور انسان کے اس وقت تک کے معاشی و سماجی تجربات سے متصادم ہے۔ دونوں مصنفین کسی بھی حل کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ کو بجا طور پر تسلیم کرتے ہیں: ان تمام اقدامات پر عمل درآمد مشکل ہو جائے گا اگر لوگ ان اداروں پر بھروسا کرنے سے انکار کر دیں جو اِن کی زندگیوں پر حکومت کرتے ہیں۔
دونوں کتابوں کا آغاز اس بات کی تفصیلی جانچ کے ساتھ ہوتا ہے کہ جمہوریت کیسے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی‘ بشمول وہ عوامل جن کی وجہ سے عدم مساوات‘ عدم تحفظ اور امیر اور غریب ممالک میں یکساں طور پر آبادی کے درمیان تعلق کا نقصان ہوا۔ اس کے بعد وہ وضاحت کرتے ہیں کہ یہ تناؤ برازیل‘ ہنگری‘ بھارت‘ ترکی اور امریکہ جیسی متنوع جگہوں پر آمرانہ موڑ کیوں لے گیا ہے۔لیکن ان کی وضاحتیں مختلف ہیں۔ بردھن عدم مساوات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ جیسے جیسے امیر اور غریب کے درمیان آمدنی کا فرق بڑھ گیا ہے معاشی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا ہے۔اس کا تجزیہ تازگی سے بھر پور ہے اور اسے اکثر حالیہ تعلیمی مطالعات کی حمایت حاصل ہے۔وولف ایک زیادہ نفیس اور وسیع اکاؤنٹ فراہم کرتا ہے‘ جمہوریت کے مخصوص ورژن میں ساختی کمزوریوں کو اجاگر کرتا ہے‘ جسے مغرب گزشتہ پانچ دہائیوں میں استعمال کر رہا ہے‘ حکمرانی کی ایک ایسی شکل جس نے غریب اور محنت کش طبقے کو نظر انداز کر دیا ہے۔ اس کے بجائے بہت سی جمہوریتوں نے جوش و خروش اور تیزی سے عالمگیریت‘ ڈی ریگولیشن اور دیگر انتظامات کو قبول کیا ہے‘ جنہوں نے سرمایہ کاری کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔ رہنماؤں نے دعویٰ کیا کہ یہ تبدیلیاں ہر ایک کے مفاد میں تھیں لیکن حقیقت میں سماجی سیڑھی کے نیچے لوگوں نے اخراجات برداشت کیے اور بہت کم فوائد دیکھے‘ خاص طور پر جب جمہوریتیں پیچھے پڑنے والوں کی مدد کے لیے اپنے حفاظتی جال کو مضبوط کرنے میں ناکام رہیں۔ وولف نے مشترکہ خوشحالی کے خاتمے اور جمہوریت کے بحران کے درمیان گہرے روابط کی درست نشاندہی کی ہے۔