وہ عوام سے قربانی مانگتے ہیں مگر عوام تو 75سال سے قربان گاہ میں کھڑے ہیں۔ تاریخ پر اِک نظر ڈالیں تو ہر دور میں حکمران اشرافیہ عوام سے قربانی مانگتی رہی اور عوام قربانی دیتے رہے ہیں۔ ان خوابوں کی قربانی جو انہوں نے حکمران اشرافیہ کے کہنے پر دیکھے تھے۔ اپنے بچوں کی تعلیم کے خواب۔ صحت کی سہولیات سے جڑے خواب۔ غربت‘ بھوک ننگ اور جہالت سے چھٹکارے کے خواب۔ یہ قربانی در قربانی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اشرافیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان عالمی مالیاتی فنڈ کے دو درجن کے قریب پروگراموں میں شرکت کر چکا۔ ہر بار سنہرے خواب دِکھا کر عوام کو قربانی پر مجبور کیا گیا۔ آج پھر عوام سے قربانی کا کہا جا رہا ہے تاکہ تین ارب ڈالر لے کر مراعات یافتہ طبقات کے طرزِ زندگی کو برقرار رکھنے کی سبیل کی جائے۔ عوام سے کہا گیا کہ آئی ایم ایف کی شرائط مانے بغیر ہمیں تین ارب ڈالر کی یہ خطیر رقم نہیں مل سکتی اور اس رقم کے بغیر نظامِ زندگی معمول کے مطابق چل نہیں سکتا ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑیں گی لہٰذا عوام قربانی دینے کیلئے تیار ہوں۔ اب عوام ضروریاتِ زندگی کو مہنگے‘ بہت مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوں گے اور یہ عوام کی طرف سے ملک کیلئے قربانی ہوگی۔ عوام سے یہ قربانی مانگی نہیں جا رہی بلکہ انہیں محض بتایا جا رہا کہ وہ قربانی کیلئے تیار ہو جائیں کیونکہ ان کے پاس اس قربانی کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔
یہ عوام کیلئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عوام اپنے ان لاکھوں کروڑوں بچوں کی قربانی دے چکے ہیں جو کسی سکول یا درس گاہ میں قدم رکھے بغیر بڑے ہوئے۔ یہ بچے ملک کی اَن پڑھ لیبر فورس کا حصہ بن کر بے پناہ مشقت کے باوجود بھوک ننگ اور افلاس کی زندگی گزارتے رہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ ان کی نئی نسل میں سے اکثریت آج بھی وہی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ جہالت‘ غربت اور افلاس نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ عوام کیلئے یہ قربانی نئی بات نہیں۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو اس قربانی کے نتیجے میں بڑی تعداد میں علاج کی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے اس دنیا سے چل بستے ہیں یا بسترِ مرگ پر پڑے رہتے ہیں اور ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد کوکسی ہسپتال میں کوئی بستر تک میسر نہیں ہوتا جہاں وہ اپنی غربت زدہ عزتِ نفس کے ساتھ اپنا علاج کروا سکیں۔ ہسپتالوں میں وہ معالجوں اور عملے کے غیر انسانی سلوک اور جعلی ادویات کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں۔ اسی طرح عوام کو مہنگے داموں ضروریاتِ زندگی خریدنے کیلئے قربانی دینے کا بھی بہت تلخ تجربہ ہے۔ پاکستان اور اس جیسے دیگر پسماندہ اور غربت زدہ ملکوں میں ضروریاتِ زندگی سے وہ مراد نہیں ہے جو ترقی یافتہ اور کامیاب ملکوں میں لی جاتی ہے۔ ان ملکوں میں ضروریاتِ زندگی کی تعریف میں بہت کچھ آتا ہے۔ اس میں صرف روٹی‘ کپڑا اور مکان ہی نہیں‘ تعلیم‘ علاج اور زندگی میں برابری کے مواقع کی فراہمی‘ عزتِ نفس اور مساوات بھی اب زندگی کی بنیادی ضروریات میں شامل ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ‘ جمہوری اور کامیاب معاشروں میں بنیادی ضروریات کی تعریف میں آنے والی چیزوں کی فہرست میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں یہ فہرست سکڑتی جا رہی ہے۔ اب عوام کو یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ بنیادی ضروریات کی فہرست میں دو وقت کی روٹی اور سر پر چھت کا میسر ہونا ہی ہے۔ تعلیم‘ صحت اور روزگار جیسی عالمی طور پر مسلمہ ضروریات کو ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ بنیادی ضروریات تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ وہ اب دو وقت کی روٹی اور چھت کی فراہمی کو بنیادی ضرورت تسلیم کرتے ہوئے اسے ریاست کی ذمہ داری سمجھنے سے انکاری ہیں۔ حالانکہ یہ کسی بھی ریاست کی مسلمہ آئینی ذمہ داری ہے‘ جس کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں جو قانون کی بنیادی دستاویز ہے‘ اس کو بنیادی ضرورت کے طور پر ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے مگر اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے کے بجائے حکمران اشرافیہ لنگر خانے اور خیراتی کچن کھولنے کی طرف مائل ہوتی ہے تاکہ بھوکے ننگے لوگوں کی عزتِ نفس کو چور چور کر کے ان کو ذاتی اور شخصی وفاداریوں پر مجبور کیا جائے تاکہ عوام ریاست سے بنیادی ضروریات کا مطالبہ کرنے کے بجائے حکمرانوں کی سخاوت اوررحم دلی کے گیت گائیں۔ قربانی کے نام پر آئی ایم ایف کے قرض کا سارا بوجھ عوام کی طرف منتقل کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف کسی قسم کی کوئی قربانی دیے بغیر حکمران اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات آئی ایم ایف کے قرضوں کے تمام تر منفی اثرات سے بچتے ہوئے نہ صرف اپنی بے تحاشا مراعات کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ ان مراعات میں اضافہ کرتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ‘ مراعات یافتہ طبقات اور ان کے ہمنوا ماہرینِ معاشیات کے بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان اپنی تشکیل کے پہلے دن سے ہی سخت قسم کے مالی بحران اور ''نازک حالات‘‘ سے گزر رہا ہے۔ سات دہائیوں سے یہ بیانات ان الفاظ میں بار بار دہرائے جا رہے ہیں۔ اس گہرے مالی بحران اور ''نازک حالات‘‘ کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا دروازہ رہ گیا ہو جس سے کسی قسم کی مالی امداد کی امید ہوئی ہو اور اس پر دستک نہ دی گئی ہو۔ قرض اور مالی امداد مانگنے کی یہ ایک انتہائی منظم مہم رہی ہے‘ جس کے ذریعے کھربوں ڈالر کا قرض اور امداد لی گئی۔ سوال یہ ہے کہ یہ کھربوں ڈالر کہاں گئے۔ کس پر خرچ ہوئے۔ اس ملک کی انسانی ترقی اور انفراسٹرکچر کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان شعبوں میں کوئی سنجیدہ سرمایہ کاری ہوئی ہے۔ تمام معاشی اعشاریے اس کے برعکس گواہی دیتے ہیں۔ معاشی اشاریے تو صرف اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ کھربوں ڈالر مراعات یافتہ طبقات کی مراعات برقرار رکھنے اور ان مراعات میں اضافے کیلئے خرچ ہوئے ہیں۔ اس ملک کے حکمران طبقات اور نوکر شاہی کو جو سہولیات اور مراعات حاصل ہیں‘ دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک بھی اس کی خواہش تک نہیں کر سکتے۔ ان کھربوں ڈالرز کے اخراجات کی بات کرتے ہوئے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے کتنے کامیاب‘ جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک ہیں‘ جن میں حکمران طبقات اور نوکر شاہی کو وہ مراعات و سہولیات حاصل ہیں جو پاکستان میں حکمران اشرافیہ کو حاصل ہیں۔ ایسے کتنے ملک ہیں‘ جن میں حکمران اشرافیہ کے ممبران اور بیوروکریسی کو اپنے گھر آنے جانے کیلئے سرکاری گاڑیاں میسر ہیں۔ اور جہاں ہیں بھی وہاں ان گاڑیوں کی قیمت اور کلاس کیا ہے۔ دنیا میں کتنے ایسے ملک ہیں جہاں اعلیٰ سرکاری کارندوں کو ڈرائیور‘ باورچی‘ مالی اور چوکیدار دیا جاتا ہے۔ جہاں صاحب کو پانی پلانے کیلئے ایک نوکر چاہیے ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ سہولیات صرف تاحیات ہی نہیں بعد از مرگ بھی حاصل ہوتی ہیں۔ دنیا میں اس طرح کے کتنے ملک ہیں جہاں ریاست‘ حکومت اور پبلک سروس کے نام پر مراعات یافتہ طبقات کی ایک فوج ظفر موج ہوتی ہے جس کا طرزِ زندگی شہزادوں کو بھی مات کرتا ہے۔ یہ طرزِ زندگی غریب ملکوں میں صرف ٹیکس دہندگان کے پیسے سے برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کیلئے کھربوں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت پوری کرنے کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے‘ جس سے کسی امداد‘ کسی قرضے کی امید ہو۔ آئی ایم ایف کا قرض اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔