گزشتہ کالم میں ان فارمولوں کا ذکر کیا تھا جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت میں وقتاً فوقتاً زیر بحث رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ گو کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنے بنیادی مؤقف پر ہمیشہ قائم رہا ہے‘لیکن پاکستان کے کچھ طاقتور حکمرانوں نے اس روایتی مؤقف سے ہٹ کر ''آوٹ آف باکس‘‘ حل تلاش کرنے کی کئی کوششیں بھی کیں۔ ان میں جنرل ایوب خان سر فہرست تھے۔ ایوب خان کے دور میں شاید مسئلہ کشمیر پر سب سے زیادہ فارمولے زیر بحث آئے۔1964 ء میں جب کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ پنڈت جواہر لال نہرو کی اشیر باد اور ایوب خان کی دعوت پر پاکستان پہنچے تو یہ مسئلہ کشمیر پر کوئی روایتی حل تلاش کرنے کے عمل کا کلائمکس تھا۔ شیخ عبدللہ کے پاس تین نئے فارمولے تھے۔ بین الاقوامی میڈیا اور خود بھارت کے طاقتور حلقوں کا کہنا تھا کہ شیخ عبداللہ ان تین فارمولوں پر نہرو سے طویل بات چیت کر چکے ہیں اور ان فارمولوں پر ان کے درمیان اتفاق رائے ہے۔ ان میں پہلا فارمولا یہ تھا کہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہcondominium بنا دیا جائے۔ یہ پہلا موقع تھا جب مسئلہ کشمیر کے تناظر میں لفظ condominium استعمال ہوا تھا۔ برصغیر میں جو انگریزی عام طور پر استعمال ہوتی ہے اس میں condominiumکا لفظ عام نہیں ہے۔ اس سے مراد ایک ایسی جائیداد ہے جو کئی لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔ یہ لوگ مل جل کر اس جائیداد کا انتظام و انصرام چلاتے ہیں‘ جس کے لیے عام طور ایک بورڈ آف ڈائریکٹرز کا انتخاب کیا جاتا ہے‘ جو اس جائیداد کے بارے میں اہم فیصلے کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ مشترکہ ملکیت کے اصول کے تحت تمام مالکان مل جل کر اس جائیداد کے اخراجات بھی برداشت کرتے ہیں اور نفع نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس اصول کے تحت کشمیر کو ایک نیم خود مختار ریاست بنایا جانا تھا‘ جس کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری پاکستان اور بھارت نے مل کر پوری کرنی تھی۔ اس منصوبے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے نیو یارک ٹائمز نے اپنی 9 مئی 1964 ء کی اشاعت میں لکھا تھا کہ '' حال ہی میں جیل سے رہا ہونے والے کشمیری رہنما شیخ محمد عبداللہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہندوستانی پاکستانی condominiumکی وکالت کر رہے ہیں۔ condominium کے اس منصوبے کے تحت‘ بھارت اور پاکستان متنازع اور منقسم ریاست جموں و کشمیر پرمشترکہ کنٹرول رکھیں گے اور اس ریاست میں شراکت دار ہوں گے۔ ٹائمز آف انڈیا نے یہ خبر شائع کی ہے اور اس خبرکی اشاعت کے بعد آج رات یہاں اس کی تصدیق انتہائی معتبر اتھارٹی نے کی ہے۔ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا condominium پوری ریاست کا احاطہ کرے گا یا کچھ حصوں کو ایک یا دوسرے ملک کی خصوصی خودمختاری کے تحت چھوڑ دیا جائے گا۔ تاہم‘ مستند ذرائع نے اس بات پر زور دیا کہ یہ منصوبہ کشمیر کے ان ضروری حصوں کو دوبارہ جوڑ دے گا جو اَب جنگ بندی لائن سے منقسم ہیں۔ 1947ء میں برطانیہ کی برصغیر پر حکمرانی کے خاتمے کے بعد کشمیر پاکستانی اور ہندوستانی افواج کے درمیان لڑائی کا میدان بن گیا۔ یکم جنوری 1949ء کو اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی وجہ سے ریاست کا ایک تہائی حصہ پاکستان کے پاس آ گیا اور کشمیر کی باقی ماندہ ریاست بھارت کے پاس چلی گئی۔ جنگ بندی کے پلان کا ایک حصہ کشمیر کے مستقبل کے تعین کے لیے رائے شماری کی بات کرتا ہے لیکن بھارت نے بعد میں اعلان کیا کہ کشمیر کا وہ حصہ‘ جس پر اُس کا کنٹرول ہے‘ وہ اس کی سرزمین کا اٹوٹ حصہ ہے کیونکہ کشمیر کے مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کر دیا تھا‘ جسے بعد میں کشمیری اسمبلی نے منظور کیا تھا۔ اس لیے بھارت نے رائے شماری کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔condominium حل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دشمنی ختم ہو جائے گی۔ اس منصوبے کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھی اس پلان کی توثیق کرتے ہیں تو استصواب رائے کے بغیر ایک condominium حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ووٹ کی ضرورت پڑے بھی تو ان کا کہنا ہے کہ شیخ عبداللہ کے الفاظ اس بات کی ضمانت ہو سکتے ہیں کہ اس منصوبے کو کشمیریوں کی منظوری مل جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تجویز شیخ عبداللہ اور بھارت کے سابق گورنر جنرل چکرورتی راج گوپال اچاری کے درمیان اس ہفتے کے شروع میں مدراس میں ہونے والی بات چیت کے دوران سامنے آئی ہے۔ وزیر اعظم جواہر لال نہرو‘ جن کے ساتھ شیخ نے تب سے اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس کے لیے ''کچھ ہمدردی‘‘ ظاہر کی ہے‘ لیکن اطلاعات یہ ہیں کہ مسٹر نہرو اس تجویز کو ممکنہ حل کے طور پر دیکھنے میں ۔ہندوستانی حکومت میں عملی طور پر تنہا ہیں اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے وہ عارضی ہمدردی بھی واپس لے سکتے ہیں۔ تاہم وزیر اعظم نہرو نے کل پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ شیخ عبداللہ کے دورہ ٔپاکستان کے راستے میں کھڑے ہونا ''مناسب‘‘نہیں ہوگا۔ اس طرح کا دورہ بظاہر پاکستانی صدر محمد ایوب خان کی تجویز پر بات چیت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایک condominium کے لیے بظاہر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدے کی ضرورت ہوگی جو جموں و کشمیر کی سالمیت کی مشترکہ ذمہ داری لیں گے۔ اس طرح کا کوئی معاہدہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک پاکستان اور بھارت سرحدوں کا تعین کرنے پر متفق نہیں ہوتے۔ پاکستان‘ جس کی خارجہ پالیسی بنیادی طور پر بھارت کی دشمنی پر مبنی ہے‘ پچھلے دو سالوں میں کمیونسٹ چین کے ساتھ اس کے دوستانہ تعلقات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے 1962ء میں چینی افواج کے ہندوستان کے صوبہ لداخ پر حملہ کرنے کے فوراً بعد چین اور پاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کے درمیان سرحد پر تصفیہ اور معاہدہ کیا۔ بھارت نے اس معاہدے پر احتجاج کیا کیونکہ اس میں شامل علاقے پر بھارت کا دعویٰ تھا‘ لیکنcondominium معاہدے کے لیے ممکنہ طور پر اس سرحدی تصفیہ کے لیے بھارتی منظوری کی ضرورت ہوگی۔ شیخ عبداللہ نے کہا ہے کہ کشمیر میں دونوں ملکوں کی شراکت داری کا سوال برصغیر کی ان دو مخالف قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کے قیام کے لیے ثانوی حیثیت رکھتا تھا‘ اورcondominium کی تجویز کو اسی سوچ کے نتیجے میں دیکھا جاتا ہے۔ تاہمcondominium کے حامی تسلیم کرتے ہیں کہ اس منصوبے میں سنگین رکاوٹیں ہیں۔ ہندوستانی بائیں بازو والے‘ جو ماسکو کے ہمدرد ہیں اور ہندوستانی دائیں بازو کے ہندو انتہا پسند ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مخالفت میں متحد ہو گئے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہیے کہ سوویت یونین جس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیریوں کے استصواب رائے کے مطالبے کی حالیہ قراردادوں کو ویٹو کرکے بھارت کی حمایت کی ہے‘ نے شیخ عبداللہ کی 10 سال قید کے بعد گزشتہ ماہ ان کی رہائی کے حوالے سے سخت مؤقف اپنایا۔ بتایا جاتا ہے کہ ماسکو نے محسوس کیا کہ کم از کم سوویت یونین کو اطلاع دیے بغیر یہ اقدام نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ دسری طرف دائیں بازو کی ہندو تنظیموں نے شیخ عبداللہ سے مشاورت کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ انہوں نے ''عبد اللہ کو پھانسی دو‘‘ کا نعرہ استعمال کیا ہے اور خنجروں اور سواستیکا سے سجے جھنڈے لگائے ہیں‘‘۔
آگے چل کر واقعات نے کیا رخ اختیار کیا اوران فارمولوں کا کیا بنا ‘اس کا احوال آئندہ کالم میں پیش کیا جائے گا۔