گزشتہ کالموں میں کشمیر پر مختلف فارمولوں کا ذکر کیا جا چکا ہے۔ یہ وہ فارمولے تھے‘ جن پر پاکستان کی اشرافیہ نے سرکاری اور روایتی مؤقف سے ہٹ کر غور کیا۔ ان میں سے ایک ایوب خان کا ''پاک بھارت مشترکہ دفاع‘‘ کا فارمولہ بھی تھا۔ اس فارمولے کی ایک بڑی وجہ ابھرتے ہوئے سرخ چین اور سوشل ازم کا خوف تھا۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ سوویت یونین کے بعد چین برصغیر میں توسیع پسندانہ عزائم اور سوشل ازم پھیلانے کا منصوبہ رکھتا ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دفاع ضروری ہے۔ اس وقت اس خطے میں چین کے کردار کے بارے میں پاکستان کا تاثر بہت مختلف تھا۔ 1950ء کی دہائی میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور اس نے سوویت یونین کے خلاف امریکی جاسوس پروازوں کے لیے ملک میں اڈے تک دینے کی پیشکش کی تھی۔ یہ ایک سرخ ملک‘ سوویت یونین کے خلاف‘ پاکستان کی طرف سے سوشلسٹ دشمن بلاک کا حصہ بننے کی خواہش بلکہ عزم کا کھلا اظہار تھا۔
دوسری طرف سرخ چین تھا جس کے بارے میں پاکستان کی پوزیشن مختلف نہیں تھی۔ اس وقت پاکستان کی حکمران اشرافیہ روس کی طرح چینی سوشل ازم کے خلاف بھی مغربی بلاک کے ساتھ مل کر ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار تھی۔ چین کے ساتھ پاکستان کا سرحدی تنازع بھی چل رہا تھا۔ چین اس وقت کھل کر ہنزہ اور گلگت کے کچھ حصوں پر دعویٰ کر رہا تھا۔ ایوب خان کا موقف تھا کہ کمیونسٹ چین سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ سرخ روس اور سرخ چین اور ان کی طرف سے سوشل ازم پھیلانے کے خطرے سے بچنے کے لیے ایوب خان نے جو اقدامات تجویز کیے تھے‘ ان میں مسئلہ کشمیر کا حل اور ہندوستان کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدہ شامل تھا۔ ایوب خان کی تجویز پر مشتمل دستاویزات کئی علاقائی اور عالمی مراکز میں موجود ہیں۔ جے این ڈکشٹ نے اپنی کتابIndia-Pakistan in War and Peace میں ایوب خان کے اس مشترکہ دفاعی معاہدے کی تجویز کی تفصیلات اور اس کے ارتقا کے بارے میں لکھا ہے۔ اس کتاب میں ڈکشٹ لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے 24اپریل 1959ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدے کی تجویز پیش کی۔ اس سے پہلے مارچ 1959ء میں دلائی لامہ تبت سے بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینے کے لیے آ گئے تھے۔ ڈکشٹ نے ٹوکیو میں پاکستانی سفیر محمد علی کا حوالہ دیتے ہوئے 20اپریل 1959ء کو کہا ''تبت کے مسئلے نے ایشیائی لوگوں کو ان کی خوش فہمی سے باہر نکال دیا ہے‘ ایشیاء کی آنکھیں سرخ سامراج کے خطرے کی طرف کھلنی چاہئیں‘‘۔ آگے چل کر ایوب خان نے اعلان کیا کہ پاکستان کی سرزمین میں کسی بھی چینی مداخلت کو پاکستان اپنی کمان میں پوری قوت کے ساتھ پسپا کرے گا لیکن ایوب خان کے اس جوش و خروش کے باوجود وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے ایوب خان کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ اس سال مئی میں لوک سبھا میں تقریر کرتے ہوئے نہرو نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ مشترکہ دفاع نہیں چاہتے جو تقریباً ایک قسم کا فوجی اتحاد ہے۔
نہرو کا تاثر یہ تھا کہ ایوب خان شاید مشترکہ دفاع کو جموں و کشمیر پر سمجھوتہ کرنے کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس سے پہلے 1949ء میں نہرو نے پاکستان کے ساتھ نو وار پیکٹ کی تجویز پیش کی تھی‘ جسے پاکستان نے مسترد کر دیا تھا۔ آگے چل کرایوب خان نے ستمبر 1959ء میں خود اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی مشترکہ دفاعی تجویز کے لیے ایک شرط کشمیر اور نہری پانی جیسے بڑے مسائل کا حل تھا۔ کچھ سکالرز نے یہاں تک رائے دی ہے کہ ایوب کی طرف سے تجویز کردہ مشترکہ دفاعی معاہدہ اس وقت کے ہندوستانی آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان اختلافی نکات میں سے ایک تھا۔ فروری 1963ء میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والی گفتگوکا ریکارڈ اس طرح کے مشترکہ دفاعی معاہدے کے عملی منصوبوں کو ظاہر کرتا ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے آرکائیوز کے مطابق مشترکہ دفاع کے بندوبست کے تحت اگر پاکستان لداخ کے دفاع کی ذمہ داری اٹھاتا ہے تو اس کا نتیجہ برصغیر کے حقیقی مشترکہ دفاع کی صورت میں نکلے گا یعنی پاکستان کشمیر اور لداخ پر مشتمل مغربی کنارے کا دفاع کرے گا اور ہندوستان شمال مشرقی سرحدی علاقوں کا دفاع کرے گا۔
چین کے ساتھ 1962ء کی جنگ کے نتائج دیکھنے کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے ہندوستان کو اپنی فوج کو مضبوط بنانے میں مدد کرنے کی پیشکش کی۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میکملن کی طرف سے اس وقت کے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو 13دسمبر 1962ء کو لکھے گئے خط میں ایک مشترکہ دفاعی معاہدے کے بارے میں برطانیہ کے نقطۂ نظر پر زور دیا گیا تھا۔ میکملن نے لکھا کہ ہندوستانیوں کو ایک ہمہ گیر چینی حملے کے خلاف اپنا دفاع کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بات میرے لیے واضح ہے کہ کوئی بھی دفاع صرف اس صورت میں موثر ہو سکتا ہے جب یہ مجموعی طور پر برصغیر کے دفاع کے لیے ایک مشترکہ پاک بھارت منصوبے کے طور پر ترتیب دیا گیا ہو۔ یہ مشترکہ منصوبہ کہیں زیادہ موثر ہوگا‘ اس سے فوجوں کا فضول خرچہ کم ہوگا اور ہماری یہ بڑی مشکل بھی دور کر دے گا کہ پاکستان جو ہمارا وفادار دوست اور سیٹو‘ سینٹو کا ممبر ہے‘ اس کو مشتعل کیے بغیر ہندوستانیوں کی مدد کیسے کی جائے۔ میکملن نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر کی حیثیت ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کسی بھی معاہدے کی کامیابی میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی معاہدے میں پاکستان کو واضح طور پر کشمیر کا وہ حصہ اپنے پاس رکھنا ہوگا جو اس وقت اس کے پاس ہے اور بھارت جموں اور لداخ اپنے پاس رکھنا چاہے گا۔ باقی مسئلہ رہ جاتا ہے کشمیر کی وادی کا تو ہندوستان کشمیر پر رائے شماری کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ وہ کشمیر کی وادی کے ایک خودمختار ریاست بننے پر راضی ہو جائے جس کی ضمانت ہندوستان اور پاکستان دونوں نے دی ہو۔ تاہم 1959ء کے بعد کے سالوں میں مشترکہ دفاعی معاہدے کے امکانات معدوم ہونے لگے کیونکہ پاکستان اور چین نے آپس میں تعلقات استوارکرنا شروع کر دیے اور اپنے سرحدی تنازع کو حل کرنے کی کوششیں کیں۔ مارچ 1963ء میں چین اور پاکستان نے ایک سرحدی تصفیے کا باقاعدہ آغاز کیا جس میں پاکستان نے گلگت بلتستان میں 5180 مربع کلومیٹر کا علاقہ چین کو دے دیا۔ بھارت نے اس پر شدید اعتراض اور احتجاج کیا اور اب بھی بھارت چین کو زمین کی اِس منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ دوسری طرف 1963ء کے سرحدی معاہدے کو چین پاکستان تعلقات میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے جس نے چین کو پاکستان کا سب سے مضبوط سٹریٹجک اتحادی اور ہتھیاروں کا اہم سپلائر بننے کی راہ ہموار کی۔ پاک چین تعلقات میں بنیادی تبدیلی کی ایک بڑی وجہ چین بھارت جنگ تھی۔ اس جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات سے پاکستان نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور چین کے ساتھ اپنا سرحدی تنازعہ طے کر کے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ چین کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی آنے کے ساتھ ساتھ پاک بھارت مشترکہ دفاع کا تصور کمزور ہوتا گیا اور پاکستان کو چین کی طرف سے جارحیت یا سوشل ازم کا جو فوری خطرہ محسوس ہو رہا تھا‘ وہ کم ہوگیا۔ آگے چل کر حالات نے کیا رُخ اختیار کیا اس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔