کل اچانک میری پروفیسر سے ملاقات ہو گئی۔ اس دفعہ کافی عرصے بعد پروفیسر سے ملاقات ہوئی تھی۔ میرے وہ قارئین جو آٹھ دس سال پہلے میرے کالم پڑھتے رہے ہیں‘ وہ پروفیسر سے اچھی طرح واقف ہوں گے‘ جو اُس وقت میرے کالموں کا ایک مستقل کردار تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں پروفیسر سے بات چیت کیے بغیر بہت کم کالم لکھتا تھا۔ حالاتِ حاضرہ پر کالم لکھنے کے لیے پروفیسر میرے لیے ذہنی محرک کا کردار ادا کرتا تھا۔ ہمارے درمیان ہر طرح کے حالاتِ حاضرہ کے موضوعات زیر بحث آتے تھے۔ پروفیسر ان موضوعات پر طرح طرح کے سوال اٹھاتا تھا۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتا تھا۔ اکثر اوقات میرا بیانیہ پروفیسر سے مختلف ہوتا تھا۔ میں جب اپنے بیانیے کی بنیاد پر کالم لکھ دیتا تھاتو پروفیسر اس کالم کو تنقید کا نشانہ بناتا تھا۔ اس طرح اگلی گفتگو اور کالم کے لیے موضوعات ملتے رہتے تھے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں تک چلتا رہا‘ لیکن پھر میں نے اپنے کالم کا سٹائل بدل دیا۔ موضوعات اور طرزِ تحریر میں تھوڑی سی تبدیلی کی۔ اس کے بعد میں نے فلسفیانہ مباحث کے بجائے تاریخی حقائق پر لکھنا شروع کردیا۔ پروفیسر کو یہ تبدیلی پسند نہیں آئی اور آہستہ آہستہ میرے کالموں میں اس کی دلچسپی کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ ہمارے درمیان بحث و مباحثے کا سلسلہ تقریباً ختم ہو گیا۔ میں باقاعدگی سے کالم لکھتا رہا اور پروفیسر اپنے معاملات میں مصروف ہو گیا‘ لیکن کل پھر ایک مدت بعد پروفیسر کا فون آگیا۔ مجھے فون کی سکرین پر پروفیسر کا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ جوں ہی میں نے فون اٹھایا تو پروفیسر آداب و تسلیمات کے تکلفات میں پڑے بغیر سیدھا اصل بات پر آ گیا۔ وہ آزاد کشمیر میں جاری حالیہ احتجاج اور ہنگاموں کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ پروفیسر کا خیال تھا کہ اس احتجاج کو لے کر بہت سی غلط فہمیاں اور کنفیوژن ہے‘ جس پر گفتگو ضروری ہے۔ مجھے پروفیسر کی تجویز پسند آئی۔ میں پہلے ہی اس موضوع پر کالم لکھنے کا ارادہ باندھ چکا تھا اور اس موضوع کو لے کر بہت سے خیالات‘ جذبات اور معلومات میرے دماغ کا گھیرا کیے ہوئے تھیں۔ یہ میرے لیے اچھا موقع تھا کہ میں پروفیسر جیسے ذہین اور جہاندیدہ شخص سے اس موضوع پر گفتگو کروں اور اپنے خیالات میں موجود الجھاؤ کو سلجھانے کی کوشش کروں۔
میں نے پروفیسر کو بتایا کہ یہ احتجاج صرف آزاد کشمیر کے علاقے تک محدود نہیں‘ بلکہ یہ کسی نہ کسی شکل میں پورے پاکستان میں ہو رہا ہے۔ اس احتجاج میں صرف ایک بات مشترک ہے کہ یہ احتجاج بجلی اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ اس بات کے علاوہ اس احتجاج‘ اس کے پس منظر اور اس کی وجوہات میں بہت نمایاں فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھے بغیر اس مسئلے کو پوری گہرائی سے نہیں سمجھا جا سکتا۔پاکستان میں بجلی کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ اور اشیائے خور و نوش کی ہوش ربا قیمتوں کی وجوہات کوئی راز نہیں۔ اور اگر یہ راز تھا بھی تو اب طشت از بام ہو چکا ہے۔ بجلی میں اضافے کی وجوہات پر لاکھوں تحریریں اخبارات اور سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ عوامی اور سادہ زبان میں بھی کئی ایک وجوہات پیش کی گئی ہیں۔ ان میں ایک اہم وجہ ماضی میں پاکستان میں شدید لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے مصنوعی‘ عارضی اور ہنگامی طور پر اختیار کیے گئے طریقے ہیں۔ ان میں رینٹل کا نظام (وہ نظام جو بجلی کی لاگت میں اضافے کا باعث بنا)‘ بجلی کے ترسیل و تقسیم کے نظام میں بد انتظامی‘ رشوت‘ چوری‘ کرپشن‘ کمیشن اور دیگر کئی حربے شامل ہیں۔ بجلی کے علاوہ دیگر اشیا کی مہنگائی کی وجوہات میں آئی ایم ایف کی شرائط کا من و عن تسلیم کیا جانا ایک فیصلہ کن عنصر بنا۔ آزاد کشمیر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے اور اشیائے خور و نوش کی ہوشربا قیمتوں کے پس منظر میں مذکورہ بالا یہ تمام وجوہات تو شامل ہیں ہی لیکن ان کے علاوہ کچھ دوسری اہم اور فیصلہ کن وجوہات بھی ہیں۔
بجلی کی قیمت میں نا قابلِ برداشت اضافے کی ایک بنیادی وجہ آزاد کشمیر میں پیدا کی جانے والی بجلی کی تقسیم کا ناقص نظام ہے۔ یہ نظام آئینی‘ قانونی اور اخلاقی ضابطوں اور تقاضوں سے متصادم ہے۔ تقسیم کا یہ نظام کیا ہے؟ اس سوال کا جواب عوامی زبان میں اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے کئی چھوٹے بڑے ڈیم ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ڈیمز سے چار ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ یہ بجلی پہلے مرحلے میں نیشنل گرڈ میں ٹرانسفر کی جاتی ہے۔ یہاں سے یہ بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے مختلف علاقوں میں تقسیم کی جاتی ہے‘ جن میں آزاد کشمیر بھی شامل ہے۔ اس طرح آزاد کشمیر سے پیدا ہونے والی یہ بجلی جب مختلف مراحل سے گزر کر واپس آزاد کشمیر کے عوام تک پہنچتی ہے تو اس کی قیمت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بجلی کی قیمت میں اس اضافے کی وجہ یہ ہے کہ تقسیم کے عمل کے دوران ہر سٹیک ہولڈر اس سے اپنا حصہ وصول کرتا ہے جس میں گورنمنٹ آف پاکستان‘ حکومتِ آزاد کشمیر ‘ تقسیم کارکمپنیاںشامل ہیں جبکہ کمیشن‘ لوٹ مار اور اس طویل اور غیر ضروری عمل کی لاگت بھی شامل ہے۔ اس طرح وہ بجلی جو آزاد کشمیر کے عام لوگوں کو لاگت کے اعتبار سے تین روپے فی یونٹ میں مل سکتی ہے‘ وہ ستر روپے فی یونٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کہانی میں اہم ترین بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں بہت کم بجلی استعمال کی جاتی ہے۔ اس ریاست کی کل ضرورت چار سو میگاواٹ سے بھی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزاد کشمیر میں حکمران اشرافیہ سمیت تمام لوگ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آزاد کشمیر میں الگ گرڈ سٹیشن قائم کیا جائے‘ جو مقامی سطح پر بجلی کی ضروریات پوری کرے تاکہ غیر ضروری ٹیکسوں اور لاگت سے بچا جا سکے۔
یہ تو تھا بجلی کا قصہ۔ جہاں تک سوال ہے اشیائے خورو نوش کی قیمتوں کا‘ تو ان میں سے سب سے بنیادی ضرورت یعنی آٹا آزاد کشمیر کے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جانے کی ایک وجہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور منافع خوری ضرور ہے لیکن ایک معلوم اور واضح وجہ آٹے پر روایتی طور پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں کم خوش قسمت‘ غریب اور پچھڑے لوگوں کو اس طرح کی سبسڈی کے ذریعے فاقہ کشی سے بچایا جاتا ہے۔ جب تک ان لوگوں کو آمدنی کے معقول ذرائع میسر نہ ہو جائیں‘ ان کو زندگی میں ترقی کے مساوی مواقع نہ مہیا کیے جائیں‘ اس وقت تک ان کو اس طرح کی سبسڈیز اور دیگر مراعات کے ذریعے با عزت زندگی گزارنے کے اسباب مہیا کیے جاتے ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں ان کو نیچے گرانے کے بجائے ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ ان کو تاریک بِلوں میں رہنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ آزاد کشمیر کو اس معاملے میں کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔ یہاں جس قدر غربت اور پسماندگی ہے‘ اس کے پیش نظر بجلی کی لاگت میں اضافہ نہیں کمی کی ضرورت ہے۔ سبسڈی میں کمی کے بجائے اضافے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بھی کوئی مستقل حل نہیں ہے‘ محض عارضی افاقہ ہے‘ پروفیسر نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔ مستقل حل تو بہرحال ایک منصفانہ معاشی نظام کے قیام میں ہی مضمر ہے‘ لیکن ایسا نظام قائم ہونے تک عوام کو لوٹنے اور فاقہ کشی پر مجبور کرنے کے بجائے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں عوام کی آمدن کے تناسب کے مطابق مقرر ہوں‘ جہاں اس مقصد کے لیے آمدن کم ہے‘ وہاں سبسڈی کے ذریعے غربت کے مارے لوگوں کے مصائب میں کمی لائی جائے۔