گزشتہ کئی برسوں سے ملکِ عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران ہے۔ ہر گفتگوہ کا نقطۂ ماسکہ یہی مسئلہ رہا ہے اور ہر بحث کے اختتام پر اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی ہے۔ باقی تمام چھوٹے بڑے مسائل بھی کہیں نہ کہیں جا کر معاشی مسئلے سے ہی جڑتے ہیں۔ معاشی بحران کے حل کے لیے کئی منصوبے پیش کیے جاتے ہیں لیکن ان منصوبوں پر عمل کب اور کیسے ہوگا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ ملک میں فوری طور پر اقتصادی ضروریات پوری کرنے کے لیے جن چیزوں پر انحصار کیا جاتا ہے ان میں بیرونی قرضے‘ غیر ملکی امداد‘ اندرونی قرضے یا ٹیکس سمیت دیگر اندرونی وسائل شامل ہیں۔ اس لیے جوں جوں ملک کا معاشی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے توں توں اس بحث میں اضافہ ہو رہا ہے کہ پاکستان میں بیرونی قرضوں‘ امداد یا ملکی آمدن سمیت دیگر ذرائع سے جو آمدن میسر آتی ہے‘ اس کو خرچ کیسے کیا جائے۔ اس بحث کا ملک کے معاشی بحران سے گہرا تعلق ہے۔ معاشی ماہرین ملک کے خزانے کو ایک ایسے تھیلے سے تشبیہ دیتے ہیں‘ جس میں بے شمار سوراخ اور چھید ہیں۔ اس تھیلے میں آپ آئی ایم یف‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات یا چین سے جو اربوں ڈالر کا قرض یا امداد لے کر ڈالتے ہیں‘ وہ ان سوراخوں اور چھیدوں سے نکل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ دو درجن پروگراموں میں شرکت کرنے اور دوست ممالک سے کھربوں ڈالر لینے کے باوجود پاکستان کا معاشی بحران ہے کہ روز بروز مزید گہرا ہوتا جاتا ہے۔
تھیلے کے ان سوراخوں میں سب سے بڑا سوراخ وہ ہے جو ملک کے مراعات یافتہ طبقات کی طرف کھلتا ہے۔ یہ سوراخ اب اتنا نمایاں اور واضح ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے کو بھی‘ جو عام طور پر کسی ملک کے مراعات یافتہ طبقے کے مفادات کی حفاظت کرتا ہے‘ یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کو مراعات یافتہ طبقے سے ٹیکس وصول کر کے غریب طبقات پر خرچ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے اندر یہ سوچ اور شعور پہلے دن سے موجود ہے کہ ملک میں دولت کی تقسیم انتہائی ناہموار اور غیر مساوی ہے۔ ملک میں ایسی پالیسیاں اور قوانین بنائے جاتے ہیں جو مراعات یافتہ طبقے کی مراعات میں اضافے اور دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کا موجب بنتے ہیں۔ اس موضوع پر کئی عشروں سے لکھا اور بولا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کا طبقاتی شعور کافی حد تک بڑھا ہے لیکن ملک کی پالیسیوں اور قوانین میں مسلسل ایسی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں جو طبقاتی تقسیم کو مزید گہرا کر رہی ہیں اور مراعات یافتہ طبقات کی مراعات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ یہ سلسلہ اُس عرصے میں بھی جاری رہا جب ملک ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے دوچار تھا۔ حیرت انگیز طور پرگہرے بحران کے اس دور میں نہ صرف مختلف مراعات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا بلکہ خود مراعات یافتہ طبقات کی طرف سے اپنی مراعات میں اضافے کے لیے کیے جانے والے اقدامات اور مطالبات سامنے آتے رہے جسے میڈیا نے کثرت سے رپورٹ کیا۔ عام لوگ حیرت اور افسوس سے یہ سب دیکھتے رہے کیونکہ ملک کے معاشی ماہرین بحران سے نکلنے کا ایک راستہ یہ بھی بتاتے رہے ہیں کہ ملک کے مراعات یافتہ طبقات کی مراعات میں کمی کی جائے لیکن دوسری طرف عین بحران کے وسط میں مراعات یافتہ طبقات مزید مراعات کے مطالبات لے کر سامنے آتے رہے۔ اس صورت حال کی جھلک اس سال موسمِ گرما میں دکھائی دیتی رہی۔ اس کی ایک شہکار مثال ایوانِ بالا کے ممبران کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل تھا۔ اس بل کا دفاع خود چیئرمین سینیٹ نے کیا جس کے تحت سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سمیت تمام اراکین کی مراعات اور تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا۔ یہ بل اس وقت کے حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اراکین کی اکثریت سے پاس ہوا۔ اس بل کو پیش کرنے میں اور پاس کرانے میں رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دونوں اراکین کا شمار پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے لیکن پیپلز پارٹی نے حیرت زدہ عوام کو بتایا کہ وہ اس بل سے اتفاق نہیں کرتی اور اس کو قومی اسمبلی سے پاس نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ذرائع ابلاغ خصوصاً سوشل میڈیا پر اس بل پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ اس بل سے عام آدمی کو سخت صدمہ پہنچا۔ دیگر مراعات کے علاوہ مجوزہ قانون میں سینیٹ کے سابق چیئرمینوں کے لیے کم از کم 10 ملازمین کی مکمل حفاظتی تفصیلات‘ حکومت کی جانب سے ان کے گھریلو عملے کے ساتھ ساتھ خاندان کے افراد کے اسپانسر شدہ سفری انتظامات کی شقیں شامل ہیں جبکہ نئے بل کے مطابق چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کے دفاتر کے ماہانہ اخراجات 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دیے گئے ہیں۔اس بل میں کہا گیا کہ چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی۔ چیئرمین اگر کرائے کے گھر میں رہتے ہیں تو گھر کا کرایہ پانچ لاکھ روپیہ ماہانہ تک اور اگر وہ اپنے گھر میں رہتے ہیں تو انہیں ڈھائی لاکھ روپیہ کرایہ ادا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ فضائی حادثے کی صورت میں سرکار کی طرف سے ورثا کو ایک کروڑ روپیہ معاوضہ دیا جائے گا۔ اس بل کی منظوری کے لیے اس کا موازنہ چیئرمین سینیٹ نے بیرونی ترقی یافتہ ممالک سے کیا جہاں ایوان کے اراکین کی تنخواہ پانچ ہزار ڈالر ہے اور کہا کہ اس بل سے قومی خزانے پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔
یہ روداد ہے ایک ایسے ادارے کی جو ایک منتخب نمائندہ ادارہ ہے اور کسی نہ کسی شکل میں عوام کے آگے جواب دہ ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جو ادارے منتخب نہیں یا عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں‘ اپنی مرا عات کو لے کر ان کا رویہ اور طرزِ عمل کیا ہو گا۔ اسی طرح مسائل زدہ عوام کو ورطۂ حیرت میں ڈالتے ہوئے اس سال اگست میں صدرِ پاکستان نے بھی اپنی تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے وزارتِ خزانہ کے نام اپنے ایک خط میں یہ مطالبہ کرتے ہوئے لکھا کہ ان کی تنخواہ میں اضافہ دراصل قانونی تقاضا ہے چونکہ قانون کے مطابق صدرِ پاکستان کی تنخواہ ملک کے چیف جسٹس کی تنخواہ سے ایک روپیہ زیادہ ہونی چاہیے۔ یہ قانون ملک کی پارلیمنٹ نے بنایا جو منتخب ادارہ ہے۔ صدر سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ گزشتہ پانچ سال میں چیف جسٹس کی تنخواہ میں دو دفعہ اضافہ کیا گیا اور اس اضافے کی وجہ سے ان کی تنخواہ صدرِ مملکت کی تنخواہ سے بڑھ گئی۔ یہ تو بات ہے صرف تنخواہ کی لیکن اصل سوالیہ نشان تو ان مراعات پر لگایا جاتا ہے جو مختلف لوگوں کو حاصل ہیں اور کئی دفعہ ان مراعات کے معاشی نتائج تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ پنجاب کی صوبائی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے اپنے ایک اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کے گیارہ ججز کے لیے گھروں کی تعمیر کے لیے چھتیس کروڑ سے زائد کے بلاسود قرضے منظور کیے۔ یہ قرض اوسطاً ساڑھے تین کروڑ روپے فی جج بنتا ہے۔ سکیورٹی‘ خدمت گار سٹاف‘ گاڑیوں اور پٹرول کی مد میں اربوں روپے کی مراعات اس کے علاوہ ہیں۔ سرکاری اہل کاروں کے علاوہ کاروباری اور دیگر مراعات یافتہ طبقات کو کروڑوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے‘ جو اب کوئی راز نہیں ہے۔