ہمارے ہاں ریاست اور حکومت میں فرق نہیں کیا جاتا۔ یہ فرق نہ کرنے سے گڈ گورننس سمیت زندگی کے ہر شعبے پر فرق پڑتا ہے۔ سب سے بڑا فرق تو یہ پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں حکومتیں اپنے آپ کو ریاست سمجھنا شروع ہو جاتی ہیں اور خود کو ریاست بنا کر پیش کرتی ہیں جس کی وجہ سے حکومتوں کی نا اہلی‘ ناقص کارکردگی‘ وسائل کی لوٹ کھسوٹ اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے حکومتی کاموں کو بھی ریاست کے ذمہ لگا دیا جاتا ہے۔ جب عوام ان حکومتی اقدامات کے خلاف ردِعمل دیتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں‘ سڑکوں پر آتے ہیں تو جواب میں ان کو ریاست کے نام پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کی تحریکوں کو کچل دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ عوام ریاست کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ایک خاص وقت میں‘ ایک خاص حکومت‘ ایک خاص حکمران طبقے اور اشرافیہ کے خلاف احتجاج کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح حکومت اپنے آپ پر تنقید کو ریاست کے خلاف تنقید قرار دے کر طاقت کے استعمال سے اپنی بقا کی جنگ لڑتی ہے۔ تاریخ میں جس طرح حکومت مخالف دانشوروں‘ مفکروں اور گاہے سیاست دانوں کو حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں ریاست دشمن‘ ملک دشمن اور غیرمحب وطن بنا کر پیش کیا جاتا رہا اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ بلکہ تاریخ میں جنتی بڑی بڑی ظلم و جبر کی داستانیں موجود ہیں وہ حکومتوں کی طرف سے ریاستوں کے نام پر مخالفین کو کچلنے‘ ان کو پابندِ سلاسل کرنے اور بسا اوقات موت کے گھاٹ اتار دینے کے واقعات پر مشتمل ہیں۔ موجودہ عہد میں لیکن جوں جوں شعور بڑھتا جا رہا ہے‘ معلومات تک رسائی اور عوام کی آپس میں کمیونیکیشن بہتر ہو رہی ہے‘ توں توں عوام ریاست اور حکومت میں فرق کرنے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں اور یہ صورتحال حکمران اشرافیہ کے لیے باعثِ پریشانی ہے۔
عوام یہ جان چکے ہیں کہ حکومت اور ریاست میں بہت بنیادی نوعیت کا فرق ہے اور حکومت اپنے آپ کو ریاست قرار دے کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی مجاز نہیں ہے۔ عوام ریاست کی بڑے بڑے فلاسفرز اور سماجی سائنسدانوں کی طرف سے متعین کی گئی تعریف کی پیچیدگیوں میں پڑے بغیر یہ جانتے ہیں کہ ریاست ایک ایسی تنظیم کا نام ہے جس کے پاس علاقہ‘ آبادی‘ اقتدارِ اعلیٰ اور حکومت ہوتی ہے۔ گویا سادہ زبان میں ریاست چار عناصر پر مشتمل ہوتی ہے اور حکومت ان میں سے محض ایک عنصر ہے۔ گویا یہ ریاست کا محض ایک حصہ ہے جو ریاست کی ایما پر اس کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ محض ایک انتظامی ڈھانچہ ہے جس کی حدود و قیود اور اختیارات کا تعین ریاست کی بنیادی دستاویز یعنی آئین میں کر دیا جاتا ہے۔ حکومتیں آئے روز بدلتی رہتی ہیں اور بدل سکتی ہیں جبکہ ریاست کی حیثیت ایک مستقل تنظیم کی ہوتی ہے‘ جب تک وہ کسی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ختم نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس حکومت کی حیثیت محض ریاست کے اہلکار کی سی ہوتی ہے۔ حکومت ریاست کے تابع ہو کر اس کے لیے کام کرتی ہے۔ ریاست کے اہلکار کے طور پر حکومت کسی ریاست کے آئین اور قانون کے نفاذ اور اس پر عملدرامد کا فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ اس طرح ایک حکومت جو بھی طاقت اور اختیارات رکھتی ہے‘ وہ ریاست اور اس کے آئین و قانون کی وجہ سے رکھتی ہے۔ آئین جو سب سے بڑا قانون ہے‘ وہ ریاست کا ہوتا ہے حکومت کا نہیں‘ حکومت کا کام تو محض اس قانون کی روشنی میں اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنا ہے جن کا واضح تعین اس بنیادی ریاستی دستاویز میں ہو چکا ہوتا ہے۔ گویا حکومت افراد کے ایک ایسے گروپ کا نام ہے جو آئین اور قانون کے تابع رہ کر ریاست کے اختیارات کا ستعمال کرتا ہے۔ افراد حکومت بناتے ہیں جو ریاست کا ایک بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔ یہ عوام ہی ہوتے ہیں جو ریاست میں آئین و قانون کی حکمرانی‘ اپنے جان و مال کے تحفظ اور روز مرہ کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے کچھ لوگوں کو حکمرانی کا مینڈیٹ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم بادشاہتوں اور مطلق العنان حکومتوں کے برعکس جدید جمہوریتوں میں منتخب نمائندوں کو حکمران کے بجائے عوام کے خادم سمجھا جاتا ہے اور حقیقی جمہوریتوں میں منتخب ہو کر سامنے آنے والے نمائندہ افراد اپنے آپ کو عوام کا خادم کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور بار بار اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خدمت گزار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری تصورات کے عام ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا میں حکمرانی کا تصور اور طریقہ کار بدل رہا ہے اور یہ خدمت گزاری کا پیشہ بنتا جا رہا ہے۔
ریاست اور حکومت میں ایک بہت بڑا فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ریاست کے اندر رہنے والی پوری آبادی ریاست کا حصہ ہوتی ہے۔ تمام لوگ ریاست کے شہری ہوتے ہیں‘ سوائے چند استثناؤں کے‘ جیسے سیاح‘ غیر ملکی اور عارضی طور پر مقیم لوگ جو شہریت کے حامل نہیں ہوتے۔ اس کے برعکس حکومت ان افراد پر مشتمل ہوتی ہے جن کو عوام اس مقصد کے لیے منتخب کرتے ہیں یا جن ریاستوں میں جمہوریت نہیں ہوتی وہاں حکومتی افراد کے انتخاب یا نامزدگی کے دیگر طریقوں سے مخصوص افراد کو حکومت کرنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔ ریاست کا سب سے بڑا نشان اس کا اقتدارِ اعلیٰ ہے۔ اقتدارِ اعلیٰ ریاست کے پاس ہوتا ہے اور حکومت ریاست کی ایما پر اس اقتدارِ اعلیٰ کو بروئے کار لاتی ہے۔ ریاست کا اقتدارِ اعلیٰ مطلق اور لامحدود ہے جبکہ حکومت کا اختیار محدود اور مشروط ہوتا ہے۔ جس علاقے پر کوئی ریاست قائم ہے وہ علاقہ ریاست کی ملکیت ہوتا ہے‘ حکومت کا نہیں۔ حکومت اس پورے علاقے پر آئین و قانون کے نفاذ کی ذمہ دار ہوتی ہے لیکن اس علاقے کی ملکیت ریاست کے پاس ہوتی ہے۔ حکومتیں ہمہ وقت بدلتی رہتی ہیں۔ یہ تبدیلی کہیں انتخاب کے ذریعے تو کہیں انقلاب کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ریاست کی حیثیت مستقل ہوتی ہے۔ ریاست و حکومت میں اس فرق کے باوجود آج بھی ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ کے کچھ ممبران اپنے آپ کو ریاست ہی سمجھتے ہیں اور اپنے آپ اور ریاست کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں۔ اس کا ایک اندازہ حال ہی میں آزاد کشمیر میں بجلی کے بلوں پر بے تحاشا ٹیکس اور مہنگائی اور آٹے جیسی بنیادی ضروریات پر سبسڈی کے خاتمے کے خلاف عوامی مظاہروں کے دوران حکومت کے طرزِ عمل سے لگایا جا سکتا ہے۔ عوام نے بجلی اور آٹے جیسی بنیادی ضروریاتِ زندگی کی اشیا کے ساتھ کرپشن‘ بد انتظامی‘ رشوت‘ کمیشن‘ اقربا پروری اور غیر منصفانہ ٹیکسوں کے خلاف کسی قسم کا قانون توڑے بغیر انتہائی پُر امن احتجاج کے دوران ایک نا قابلِ یقین استقلال اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا لیکن حکمران اشرافیہ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اپنی بنیادی ضروریات یا بنیادی حقوق کا مطالبہ کوئی ریاست مخالف سرگرمی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو غدار یا ملک دشمن قرار دے کر کچلا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ اس طرح کی سوچ اور مائنڈ سیٹ کو کسی قسم کے احتجاج‘ مظاہروں یا اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ملک میں گزشتہ چند سالوں کی سیاست میں اس کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے جس میں حکومت مخالف آوازوں کو سننے کے بجائے دبانے کی پالیسی پر عمل ہوتا دکھائی دیا اور اس مقصد کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں برتا گیا یہاں تک کہ حکومت اور ریاست کو لازم و ملزوم قرار دے کر مخالفین کے خلاف ریاستی طاقت اور اختیار کا غلط استعمال کیا جاتا رہا۔