ہمارا دور بیانیوں کا دور ہے۔ ہرفرد‘ گروہ اور سیاسی جماعت کا اپنا اپنا بیانیہ ہوتا ہے۔ ملک میں خواہ کتنی ہی بڑی سیاسی جماعت کیوں نہ ہو‘ اس کا باقاعدہ تحریری آئین و منشور بھی ہو‘ ہر سطح پر لیڈر شپ بھی موجود ہو‘ جو وقتاً فوقتاً پارٹی پروگرام اور منشور بیان کرتی رہی ہو‘ مگر پھر بھی اب لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ پارٹی کا بیانیہ کیا ہے؟ یہی بات سیاسی رہنماؤں پر بھی صادر ہوتی ہے۔ جیسے حال ہی میں یہ سوال مقبولِ عام ہوا کہ میاں نواز شریف کا بیانیہ کیا ہے؟ میاں نواز شریف کو اپنے پہلے جلسۂ عام میں اس سوال کا جواب دینا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ میرا بیانیہ کیا ہے؟ میٹرو بسیں‘ اورنج ٹرین اور موٹرویز ہمارا بیانیہ ہے۔ یعنی تعمیر و ترقی‘ انفراسٹرکچر اور سہولتوں کی فراہمی کو انہوں نے اپنا بیانیہ قرار دیا۔ کوئی سیاسی پارٹی ملک میں تعمیر و ترقی یا عوامی خدمت کو اپنا بیانیہ قرار دے سکتی ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ تعمیر و ترقی یا عوامی سہولیات کی فراہمی کسی جماعت یا شخصیت کے بیانیے کا ایک حصہ تو ہو سکتا ہے مگر پورا بیانیہ نہیں ہو سکتا۔
ہماری سیاست میں بیانیہ نسبتاً ایک نئی اصطلاح ہے۔ یہ حال ہی میں ہماری سیاست میں متعارف ہوئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ اصطلاح ہماری سیاست کے لیے بالکل اجنبی تھی۔ بیشتر اصطلاحوں کی طرح بیانیہ بھی یونانی زبان کی اصطلاح ہے جس کا سادہ مطلب کہانی یا پوری بات بیان کرنا ہے۔ روایتی طور اس لفظ کا استعمال علم‘ ادب‘ آرٹ اور ڈرامہ وغیرہ میں ہوتا رہا ہے مگر حالیہ برسوں میں یہ سیاست کی ایک مقبول اصطلاح بن گئی ہے جس کا مطلب اپنے مؤقف کو تمام جزئیات اور دلائل کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ میاں نواز شریف نے گریٹر اقبال پارک کے عوامی اجتماع سے مختلف موضوعات اور مسائل پر جو اظہارِ خیال کیا ہے‘ اس کی تفصیل میں جایا جائے تو ایک بیانیہ ضرور اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ اگرچہ اس کو مکمل بیانیہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ مکمل کہانی نہیں ہے اور مکمل بیانیہ ایک مکمل کہانی ہی کا نام ہے۔
اس نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان میں آج تک کوئی سیاست دان اپنی مکمل کہانی یا مکمل بیانیہ عوام کے سامنے نہیں رکھ سکا۔ اس کی وجہ ملک کا سیاسی کلچر‘ روایات اور مختلف قوتوں کا توازن یا کبھی کبھی عدم توازن بھی رہا ہے۔ اس ماحول میں سیاست دانوں کو بہت ساری باتیں خفیہ رکھنا پڑتی ہیں یا پھر ان باتوں کو رازداری سے صرف سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کرنا پڑتا ہے۔ آدھا سچ بولنا پڑتا ہے۔ عوام کو تمام اہم معاملات سے آگاہ رکھنا تو ایک طرف‘ یہاں پارلیمان جیسے اہم ترین اور آئینی اعتبار سے مقتدر ادارے کو بھی بسا اوقات اعتماد نہیں لیا جاتا اور بہت سارے قومی مسائل پر کھلے عام بحث و مباحثے سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ بہت سارے اہم معاملات کو قومی راز قرار دیا جاتا ہے لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان معاملات میں قومی راز یا حساسیت والی کوئی بات نہیں تھی‘ بلکہ یہ ایسے معاملات تھے جن پر پارلیمان میں کھلے بحث و مباحثے کے علاوہ عوام کو بھی اعتماد میں لینا ضروری تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ یعنی عوام سے حقائق چھپائے جاتے رہے۔ جھوٹ بولا جاتا رہا یا پھر ان سے آدھا سچ بولا جاتا رہا۔ ان سب تلخ حقائق کے باوجود میاں نواز شریف کی تقریر سے بیانیہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی تقریر کے مختلف حصوں کو آپس میں جوڑ کر پڑھا یا سنا جائے تو ایک اچھا خاصا بیانیہ بن جاتا ہے۔ اس بیانیے کا پہلا اہم عنصر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں‘ ریاستی اداروں اور ستونوں کو مل کر کام کرنا ہوگا‘ اس کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ یہ بیان میاں نواز شریف کے ان سابقہ بیانات سے مختلف ہے جن کی وجہ سے ان کا مقتدر حلقوں کے ساتھ تصادم ہوا جو بالآخر ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوا۔ اُس وقت نواز شریف کا بیانیہ یہ تھا کہ تمام اداروں کو اپنی اپنی حدود و قیود کے اندر رہ کر کام کرنا چاہیے یعنی ان کے الفاظ میں ان کو اپنی ڈومین میں رہنا چاہیے۔ ڈومین میں رہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس ادارے کا آئین کے اندر جو دائرہ کار متعین کیا گیا ہے‘ وہ اس کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دے اور اس ڈومین سے باہر نکل کر سیاسی معاملات اور سیاسی فیصلہ سازی میں مداخلت نہ کرے۔ ظاہر ہے ہر ادارہ آئین کی طرف سے متعین کردہ حدود کے اندر رہ کر دوسرے اداروں سے تعاون کر سکتا ہے۔ میاں نواز شریف نے اس دفعہ جو بیانیہ دیا ہے وہ تعاون کی درخواست تو کرتا ہے مگر اپنی ڈومین میں رہنے کی تلقین نہیں کرتا اور یہ سابقہ بیانیوں اور موجودہ بیانیے میں واضح فرق کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے لیے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوتا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کی حدود میں رہتے ہوئے مل جل کر کام کریں۔ انہوں نے اپنے بیانیے میں کشکول توڑنے کی بات کی مگر اس کشکول کو توڑنے کے لیے جس روڈ میپ یا معاشی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘ اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس روڈ میپ یا ٹھوس معاشی منصوبے کے بغیر کشکول توڑنے کی بات محض ایک خواہش رہ جاتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے شاید پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کشکول توڑنے کی بات کی مگر عملی طور پر اس دور میں جو بیرونی قرضے لیے گئے‘ ان کے حجم نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ دراصل گزشتہ پچیس برسوں میں ہر حکومت کشکول توڑنے کا بیانیہ لے کر آتی رہی مگر عملی طور پر ملک کے بیرونی قرضوں میں نا قابلِ برداشت اضافے کا موجب بنتی رہی ہے۔
میاں نواز شریف کے بیانیے کی تیسری اہم بات یہ تھی کہ ہمیں ایک با وقار اور فعال خارجہ پالیسی بنانا ہو گی۔ اپنے ہمسایوں اور دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔ ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ لڑائی رکھ کر دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں بنا سکتے۔ ہمیں سب کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوں گے۔ کشمیر کے حل کے لیے با وقار تدبیر سے آگے بڑھنا ہوگا۔ اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے الگ نہ ہوتا تو آج مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان معاشی راہداری بن گئی ہوتی جس کو بھارت بھی راستہ دیتا اور پاکستان مل کر ترقی کرتا‘ لیکن ہم نے کہا کہ یہ کون لوگ ہیں مشرقی پاکستان کے رہنے والے‘ یہ تو پٹ سن اگاتے ہیں‘ یہ تو بوجھ ہیں اور اس بوجھ کو اتار کر زمین پر دے مارا۔ دیکھ لیں آج وہی مشرقی پاکستان ترقی میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہمیں یہ منظور نہیں ہے۔ یہ خارجہ پالیسی پر میاں نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ اگرچہ یہ نیا بیانیہ نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے میاں نواز شریف اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے اور ان کے ساتھ تجارت کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ عملی اقدامات بھی کیے تھے۔ اٹل بہاری واچپائی اور نریندر مودی کی لاہور آمد اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں‘ مگر ان اقدامات کو میاں نواز شریف کی کامیابیاں یا کارنامے قرار دینے کے بجائے ان کے خلاف استعمال کیا گیا جس کی وجہ سے وہ ان بڑے اقدامات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات یا تجارت کے لیے راہ ہموار نہیں کر سکے۔ اب میاں نواز شریف یہی بیانیہ بالکل نئے حالات میں لے کر سامنے آئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس بیانیے کو لے کر برصغیر میں قیامِ امن‘ مسئلہ کشمیر کے حل یا دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کے باب میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت کر سکیں گے یا نہیں؟