آج میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ یہ کہانی قدیم بادشاہوں‘ راجوں اور مہاراجوں کی نہیں بلکہ جدید دور کے حکمرانوں کی ہے۔ مگر اس کہانی اور قدیم شہنشاہوں کی کہانی میں بہت کچھ مشترک ہے۔ ایک قدرِ مشترک اندازِ حکمرانی ہے۔ قدیم بادشاہوں کے معاون اور مشیر اُن کے درباری ہوتے تھے‘ جن کو آج کے دور میں وزیر و مشیر کہا جا سکتا ہے۔ اپنے وزیروں و مشیروں یعنی درباریوں کے تقرر کے لیے بادشاہ کئی عجیب و غریب طریقے استعمال کرتے تھے۔ مثال کے طور پر بادشاہ کو صبح جو پہلا راہ چلتا مسافر ملتا تھا اس کو دربار میں مشیر یا وزیر لگا دیا جاتا تھا۔ یہاں تک بھی کہانیاں مشہور ہیں کہ ایک بادشاہ نے گھوڑے کو وزیر مقرر کر رکھا تھا جس کو باقاعدگی سے بطور وزیر دربار میں لایا جاتا تھا۔ یہ کہانی اٹلی کے باشاہ گائیس سیزر (Gaius Caesar) کی ہے۔ یہ مشہور شہنشاہ جولیس سیزر کا چھوٹا بھائی تھا۔ اس کے گھوڑے کی وزارت پر اگرچہ تاریخ نویسوں کا اتفاق نہیں ہے لیکن اس گھوڑے کے لائف سٹائل پر سب متفق ہیں کہ یہ گھوڑا ماربل کی اصطبل میں رہتا تھا۔ ہاتھی دانت اور سونے کے برتنوں میں چارا کھاتا تھا اور اس کی خدمت کے لیے پندرہ آدمی مقرر تھے۔ بہرحال یہ بادشاہ لوگ تھے جو کسی قانون‘ ضابطے یا آئین کے پابند نہیں تھے۔ بادشاہ کی پسند‘ اس کا فرمان اور حکم ہی قانون و آئین ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ اور بادشاہتوں کا نظام ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ جمہوری نظام قائم ہوئے‘ جسے عوام یعنی جمہور کی حکمرانی کہا گیا۔ اس کے لیے آئین و قوانین تشکیل دیے گئے۔ ضابطے بنائے گئے اور حکمرانوں کی مرضی و منشا کی جگہ قانون کی حکمرانی قائم ہوئی۔ بادشاہت اور درباروں کی جگہ پارلیمانی اور صدارتی نظام قائم ہوئے۔ ان صدور اور وزرائے اعظموں کو اپنے وزیر و مشیر مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا۔ تاہم بادشاہتوں کے برعکس یہ اختیار مختلف شکلوں میں قانون‘ اخلاقیات اور ملکی وسائل کے تا بع کیا گیا۔ اس نظام میں صدر یا وزیراعظم کوئی بادشاہ نہیں کہ جتنے مرضی درباری رکھ لے۔ صدر اور وزیراعظم کو ملکی وسائل اور گنجائش کے مطابق ان عہدے داروں کا تقرر کرنا ہوتا ہے۔
آج ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کا امیر ترین اور طاقت ور ترین ملک ہے۔ یہ پولیٹکل سائنس کی ہر تعریف کے مطابق ایک ایمپائر ہے۔ ایک سپر پاور ہے۔ اس حیثیت میں یہ ناصرف اپنے ملک کے اندر بلکہ عالمی سطح پر گونا گوں مفادات کا حامل ہے۔ کئی ایک تنازعوں میں ملوث ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کے دفاع کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ اور اس وقت دنیا کے چپے چپے پر اس کے مفادات پھیلے ہوئے ہیں جن کی اس کو حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ یہ دنیا کی بڑی معیشت ہے اور اس کے پاس طاقت ور ترین افواج ہیں۔ امریکہ کے موجودہ صدرجو بائیڈن کی کابینہ کے ممبران کی تعداد 16 ہے۔ اس کابینہ میں نائب صدر کملا ہیرس اور 15 ایگزیکٹو محکموں کے سربراہان شامل ہیں۔ ان سولہ لوگوں کی مدد سے جو بائیڈن ناصرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے معاملات چلا رہا ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک کے اندرونی معاملات سے لے کر خارجہ پالیسی تک کے امور پر اثر انداز ہو رہا ہے۔دوسرے نمبر پرعوامی جمہوریہ چین آتا ہے۔ یہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت اور معیشت ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر میں یہ امریکہ کا شراکت دار ہے۔ یہ دنیا کی بڑی سپر پاور ہے جو اس وقت بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو جیسے منصوبوں کے تحت دنیا کے 148ممالک کی معیشت اور سیاست پر اثر انداز ہوتا ہے۔ عام الفاظ میں آپ اس کو دنیا کی دوسری بڑی ایمپائر کہہ سکتے ہیں۔ صدر شی جن پنگ اس ایمپائر کا انتظام سٹیٹ کونسل کے ذریعے چلاتے ہیں جس کے ممبران یعنی وزیروں کی تعداد صرف 26ہے۔ ایک نظر ہندوستان پر بھی ڈال لیجیے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے جو جلد ہی دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ اس کا وزیراعظم نریندر مودی یونین کونسل آف منسٹرز کے ذریعے اس ملک کا انتظام چلاتا ہے۔ یونین کونسل آف منسٹرز حکومتِ ہند کا پرنسپل ایگزیکٹوادارہ ہے جو ایگزیکٹو برانچ کے سینئر فیصلہ ساز ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ اس کی سربراہی وزیراعظم کرتے ہیں اور اس میں ہر ایک ایگزیکٹو حکومت کی وزارتوں کے سربراہ ہوتے ہیں۔ آج کل کونسل کی سربراہی وزیراعظم نریندر مودی کر رہے ہیں اور وزیروں کی یہ کونسل وزیراعظم سمیت 29اراکین پر مشتمل ہے۔ کونسل ہندوستان کی پارلیمنٹ کے تابع ہے۔ اس کے بعد ایک اس سے بھی چھوٹی ایگزیکٹو باڈی ہے‘ جسے مرکزی کابینہ کہا جاتا ہے۔ یہ ہندوستان میں فیصلہ سازی کا اعلیٰ ادارہ ہے۔ یہ یونین کونسل آف منسٹرز کا ایک ذیلی سیٹ ہے جو حکومت کے اہم قلمدان اور وزارتیں اپنے پاس رکھتا ہے۔ اس طرح بھارت میں صرف 29کیبنٹ منسٹرز ہیں۔ اسی طرح بڑی بڑی کامیاب مغربی جموریتوں کو دیکھ لیجیے۔ آسٹریلیا میں عموماً منسٹرز کی تعداد 20سے زائد نہیں ہوتی۔ برطانیہ میں 21منسٹرز کی تعداد پر کیپ ہے اور کینیڈا میں وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی کابینہ میں 35منسٹرز شامل ہیں جن میں سترہ خواتین اور اٹھارہ مرد ہیں۔
ان کامیاب مغربی جمہوریتوں کے ساتھ ساتھ سنگاپور اور جاپان جیسی مشرقی جمہوریتوں کو بھی دیکھ لیں۔ خود پاکستان میں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے سترہ رکنی کابینہ کے ساتھ حلف اٹھایا تھا۔ اگرچہ پاکستان کی نوخیز جمہوریت میں منسٹرز کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہی ہے لیکن سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس خطے میں ایک ایسا علاقہ بھی ہے جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ اس کو آزاد ریاست جموں و کشمیر بھی کہا جاتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں یہ ساورن حکومت نہیں بلکہ لوکل اتھارٹی ہے اور اس کو لوکل اتھارٹی کا نام اقوامِ متحدہ نے اس وقت دیا تھا جب مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ میں زیر بحث تھا۔ اس اتھارٹی کے پاس وزارتِ خارجہ‘ دفاع‘ کرنسی‘ تجارت اور مواصلات جیسے محکمے بھی نہیں ہیں۔ اس لوکل اتھارٹی کے زیر انتظام علاقے کا رقبہ ساڑھے چار ہزار مربع میل اور آبادی تقریباً 40لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یعنی یہ آبادی کے لحاظ سے ضلع راولپنڈی سے چھوٹا ہے جس کا انتظام ایک ڈپٹی کمشنر چند اسسٹنٹ کمشنرز کی مدد سے چلاتا ہے لیکن وزیروں اور مشیروں کے تقرر کے معاملے میں آزاد کشمیر کی لوکل اتھارٹی تمام بین الاقوامی ریکارڈ توڑنے کے لیے مشہور ہو چکی ہے۔ 40لاکھ کی اس آبادی کے لیے حال ہی میں موجودہ حکومت نے 29وزیر مقرر کیے ہیں جو بلا لحاظ رقبہ و آبادی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی تمام سپر پاورز اور بڑی جمہوریتوں کے وزیروں سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ 40لاکھ آبادی والے آزاد کشمیر کا سالانہ بجٹ صرف دو کھرب بتیس ارب روپے ہے جو کامیاب ملکوں کی چھوٹی سے چھوٹی میونسپلٹی کے بجٹ سے بھی کم ہے۔ اس بجٹ پر 29وزیر رکھ لیے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس سرکاری گاڑی‘ نوکر چاکر‘ ٹی اے ڈی اے اور دیگر بے شمار مراعات ہوں گی۔ ان وزیروں کا لائف سٹائل ترقی یافتہ اور کامیاب جمہوریتوں کے وزرا سے بہتر اور پروٹوکول ان سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف غربت کا یہ عالم ہے کہ عوام آٹے اور روٹی کے لیے سڑکوں پر دھرنے دیتے پھرتے ہیں۔ غریب عوام کے وسا ئل کا اس بے دردی سے استعمال تاریخ میں کسی شہنشاہ نے بھی نہ کیا ہو گا۔ 40لاکھ کی آبادی کو 29وزیروں پر تقسیم کر کے دیکھیے کہ ایک وزیر کے حصے میں کتنے افراد آتے ہیں؟