اقوامِ متحدہ میں 8دسمبر بروز جمعہ کو جو کارروائی عمل میں آئی اسے دنیا کے کروڑوں لوگوں نے حیرت اور افسوس سے دیکھا۔ اس دن اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی طرف سے فلسطین پر پیش کردہ قرار داد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ اس کے خلاف دنیا بھر سے ردِ عمل سامنے آیا۔ یہ ردِ عمل دلچسپ اور قابلِ غور ہے۔ ''امریکہ نے اُمتِ مسلمہ کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اب آپس کے اختلافات ختم کر کے قبلۂ اوّل اور فلسطین کی آزادی کے لیے متحد ہو جائے۔‘‘ یہ وہ بیان تھا جو امریکی ویٹو کے ردِ عمل میں مسلم دنیا کے بیشتر مذہبی و سیاسی پیشواؤں اور حکمرانوں نے دیا۔ یہ بیان پاکستان سے لے کر الجزائر تک اور مراکش سے لے کر سعودی عرب تک اسلامی دنیا کے مقامی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا۔ دنیا بھر کے کمیونسٹوں کا ردِ عمل اس سے بھی سخت تھا۔ بے شمار کمیونسٹ لیڈروں نے دنیا کو یاد دلایا کہ عالمی سامراجیت کا تاریخ کے ہر دور میں یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ مظلوم طبقات کے خلاف بالا دست طبقات کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور اسرائیل فلسطین تنازع پر اس سے کسی بہتر عمل کی توقع رکھنا بھی حماقت ہے۔ ہم کئی دہائیوں سے دنیا کو مسلسل یہ باور کرا رہے ہیں کہ فلسطین پر قبضہ عالمی سامراجیت کی سازش اور ایجنڈے کا حصہ ہے جس کے خلاف ایک عالمی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کے سوشلسٹ یک زبان ہو کر بولے کہ جب تک دنیا مشرقِ وسطیٰ میں صہیونی سازش کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہیں بنے گی‘ ظلم کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا۔ دنیا بھر کے مارکسسٹ ایک قدم اور آگے بڑھ کر بولے کہ جسے آپ اسرائیل فلسطین تنازع کہتے ہیں یہ درحقیقت سادہ الفاظ میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور ان کی قومی آزادی کا سوال ہے اور جب تک دنیا قوموں کے حقِ خود ارادیت کو غیرمشروط طور پر تسلیم نہیں کرے گی‘ اس مسئلے کا حل نکالنا ناممکن ہے۔ ٹراٹسکائیڈ کے ایک مکتبِ فکر نے ان آوازوں میں اپنی آواز ملاتے ہوئے کہا کہ فلسطین اسرائیل جنگ کو ایک عالمی طبقاتی جدوجہد کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے دنیا بھر کے محنت کشوں کا اتحاد ناگزیر ہے۔ اس طرح دنیا میں بے شمار حساس اور باضمیر آوازیں فلسطین کے حق میں بلند ہوئیں مگر انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے جو شرط رکھی وہ ''اتحاد‘‘ ہے۔ دنیا کے موجودہ حالات میں اتحاد کی یہ شرط نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی کے مترادف ہے۔ ان میں سے کچھ آوازوں کے پیچھے ایک خلوص اور جذبہ ضرور کارفرما ہے مگر جب بات زمین پر موجود تلخ حقائق کی ہوتی ہے تو ایک بالکل مختلف تصویر دکھائی دیتی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 99کے تحت آٹھ دسمبر کو سیکرٹری جنرل کی طرف سے لائی جانے والی اس قرارداد کو ویٹو کرنے کے امریکی عمل کے خلاف دنیا بھر میں جس مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا گیا‘ اس کے پس منظر میں حساسیت اور ہمدردی کے جذبات کا ایک سمندر موجزن ہے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی معاملات کے حوالے سے دنیا کی یادداشت کمزور یا گمراہ کن ہے۔ یہ یادداشت تازہ کرنے کے لیے دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 99انتہائی اہم ہے مگر یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والی کسی طاقت نے اس آرٹیکل کے تحت آنے والی قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ دنیا میں امن اور انصاف کے نام پر تشکیل شدہ اس عالمی ادارے میں یہ چلن عام رہا ہے۔ تاریخ میں دیکھا جائے تو 13جولائی 1960ء کو اقوامِ متحدہ کے اُس وقت کے سیکرٹری جنرل نے اس آرٹیکل کو پہلی بار استعمال کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ریپبلک آف کانگو نے بلجیم کی افواج کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کی افواج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا۔ سیکرٹری جنرل نے آرٹیکل 99کا سہارا لیا‘ جواب میں سکیورٹی کونسل نے قرارداد نمبر 143پاس کی جس میں بلجیم فورسز کے انخلا اور اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا لیکن نتائج زمینی حقائق کے تابع ہی رہے؛ چنانچہ خون خرابہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا گیا جس میں کانگو کا نامور لیڈر پیٹرک لوممبا مارا گیا۔ چار دسمبر 1979ء کو دنیا نے ایک بار پھر یہ تماشا دیکھا۔ اُس وقت انقلابِ ایران کے بعد ایرانی طلبہ نے تہران میں امریکی ایمبیسی پر قبضہ کر لیا اور یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے ایران کے معزول شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کو ایران کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جو اس وقت نیو یارک میں زیر علاج تھے۔ اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر کرٹ والڈاہم نے آرٹیکل 99کا سہارا لیا جس کے جواب میں سلامتی کونسل نے قرار داد پاس کر دی لیکن اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور معاملات زمینی حقائق کے مطابق ہی آگے بڑھتے رہے۔ یہ معاملہ دو سال بعد جاکر ختم ہوا۔ تیسری بار اگست 1989ء میں اقوامِ متحدہ کے پانچویں سیکرٹری جنرل جاویر ریکارڈو نے لبنان میں تصادم اور خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے اس آرٹیکل کا سہارا لیا۔ سکیورٹی کونسل نے قرارداد منظور کردی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔
اس پس منظر کے باوجود موجودہ سیکرٹری جنرل نے جن حالات میں آرٹیکل 99کا سہارا لے کر قرار داد پیش کی‘ ان پر ایک نظر ضروری ہے۔ اس باب میں دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک اسرائیل فلسطین تنازع پر اقوامِ متحدہ کے اندر امریکی کردار اور پوزیشن۔یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ ماضی میں امریکہ نے اسرائیل فلسطین تنازع پر بڑے تسلسل سے کئی قرار دادوں کو ویٹو کیا ہے۔ اس کے خلاف دنیا سے کافی ردِعمل بھی سامنے آیا کہ ایک ملک جو سکیورٹی کونسل میں ویٹو کے اختیارات رکھتا ہے اور دنیا میں امن اور سلامتی کا دعویدار ہے‘ اس کی طرف سے اسرا ئیل فلسطین تنازع پر اس طرح ویٹو کا بے محابہ استعمال ایک پریشان کن معاملہ ہے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے 2000ء کے اوائل میں ایک واضح پالیسی اختیار کی‘ اس پالیسی کو سفارتی حلقوں میں نیگرو پونٹے ڈاکرائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ڈاکرائن کے ذریعے امریکہ نے اقوامِ متحدہ میں یہ بات واضح کی کہ امریکہ اسرائیل کے خلاف ہر اُس قرار داد کو ویٹو کرے گا جس میں حماس سمیت دیگر دہشت مزاحمتی گروہوں کی مذمت نہ کی گئی ہو۔ یعنی آپ اگر اسرائیل کی مذمت کی قرارداد لانا چاہتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اس قراداد میں حماس اور اسلامی جہاد جیسی دیگر تنظیموں کی مذمت بھی شامل کریں‘ ورنہ امریکہ اس قرار داد کو ویٹو کرے گا۔ تب سے امریکہ اپنے اس اصول پر قائم رہا ہے اور اسرائیل کے لیے ایک مکمل حفاظتی شیلڈ کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن ان 20برسوں کے دوران اسلامی تنظیم سے وابستہ تمام ممالک اور فلسطین کی آزادی کے حامی دیگر ملکوں اور قوموں میں سے کسی نے بھی نیگرو پونٹے اصول کو زیر بحث لانے یا اس کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی اقدامات کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ حالانکہ فلسطین کے نام پر غزہ اور ویسٹ بینک میں متحرک اور سرگرم گروہ‘ جن پر دہشت گردی کے الزامات ہیں‘ ان کا کسی نہ کسی اسلامی ملک کے ساتھ گہرا تعلق رہا ہے۔ یہ ممالک ان گروپس کی معاشی کفالت بھی کرتے رہے ہیں اور ایسا خفیہ طریقے سے نہیں بلکہ سر عام ہوتا رہا اور بعض ممالک تو اسرائیل کے ذریعے ہی ان گروہوں کی مالی امداد کرتے رہے ہیں۔ ان گروہوں کی مالی امداد کرنے والوں میں قطر‘ سعودی عرب‘ ایران اور ترکیہ وغیرہ شامل ہیں۔ امریکہ نے ایک بار پھر نیگرو پونٹے ڈاکٹرائن کا استعمال کیا ہے جو افسوس ناک ضرور ہے مگر حیرت انگیز نہیں ہے۔