میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ ''سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور پر لکھنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے منشور کوئی نہیں پڑھتا۔ جو پڑھتا بھی ہے وہ ان کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ یہ محض اتمامِ حجت کیلئے تیار کیے جاتے ہیں۔ حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ گاہے کاپی پیسٹ اور سرقہ بازی سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ منشور پر کسی سطح پر بھی کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوتا۔ ہر جماعت کی مرکزی قیادت کے اپنے وعدے اور دعوے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف امیدواروں کے اپنے وعدے اور اعلانات ہوتے ہیں‘ لہٰذا انتخابات میں منشور کوئی نہیں دیکھتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کون ہے جو حکومت بنانے کے قابل ہے۔ لوگ ہوا کا رُخ دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی سمتوں کا تعین کرتے ہیں۔لہٰذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کی انتخابی سیاست میں منشور کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ منشور شاید آخری چیز ہے جو انتخابی نتائج پر کوئی اثر ڈال سکتا ہے۔ ملکِ عزیز میں دیگر عناصر ہیں جو ہار جیت کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔
ہماری انتخابی تاریخ میں شاید 1970ء کے انتخابات واحد انتخابات تھے جن میں انتخابی منشوروں کو اہمیت دی گئی اور انتخابی مہم کے دوران ان پر بحث کی گئی۔ اس طرح منشوروں کی روشنی میں سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اختلاف اور امتیاز کو واضح کیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انتخابات میں نظریات پر بحث ہوئی۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار سوشلزم ایک نظریے کی حیثیت سے عوامی بحث و مباحثے کا موضوع بنا۔ عوام اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ ملک میں تعلیم اور شعور تو خیر اگلی بات ہے‘ محض خواندگی ہی کو دیکھ لیا جائے تو اس کی شرح حیرت انگیز اور افسوسناک حد تک پست تھی۔بہت ہی محدود شہری طبقہ سوشلزم جیسی اجنبی اور مشکل اصطلاح سے واقف تھا۔ اخبارات تک محدود شہری طبقے کو رسائی تھی مگر اخبارات میں بھی اس طرح سنجیدہ اور سائنسی قسم کے معاشی موضوعات پر تب بھی کچھ نہیں لکھا جاتا تھا۔ اخبارات میں اس طرح کا ماحول بھی نہیں تھا‘ اگر کچھ لوگ ایسے تھے بھی جو اس طرح کے موضوعات پر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے تو ان کو موقع نہیں دیا جاتا تھا؛ چنانچہ پاکستان پیپلز پارٹی سوشلزم کو ایک نمایاں نعرے اور نظریے کے طور پر منشور میں تو لے آئی مگر اس کو عوام تک پہنچانے میں ناکام رہی۔ سوشلزم کے نام پر بڑے بڑے سوشلسٹ دانشور پیپلز پارٹی کے ساتھ شامل بھی ہو گئے اور لفظ سوشلزم زبان زد ِعام ہو گیا‘ مگر عوام کو کوئی آئیڈیا نہیں تھا کہ سوشلزم کیا ہے اور حقیقی زندگی میں اس کا کیا مطلب ہو گا بلکہ حقیقی زندگی میں سوشلزم کی شکل و صورت اور اس کے اطلاق پر تو خود دانشوروں میں سخت قسم کی کنفیوژن اور ابہام تھا اور خود سوشلزم کے پرچارکوں میں نظریاتی تقسیم کی وجہ سے بھی اختلافِ رائے تھا۔ کوئی سوویت یونین کے سوشلزم کو مثالی قرار دے رہا تھا تو کوئی ماؤازم اور جو چے نظریات کو بہت اچھا سمجھتا تھا۔ یہ نظریاتی کنفیوژن تو ایک طرف بڑا مسئلہ تھا ہی کہ اوپر سے دائیں بازو کی رجعت پسند قوتوں نے سوشلزم پر ہلہ بول دیا اور اس کو ایک اسلام مخالف نظریہ قرار دے کر لتاڑنا شروع کر دیا۔ جواب میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ بلند کیا گیا تاکہ دائیں بازو کی رجعت پسند قوتوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس سے مزید کنفیوژن پیدا ہوئی اور فائدے کے بجائے نقصان ہوا۔
سوشلزم ایک خالص معاشی اور سیاسی نظریہ تھا جس کا کسی بھی مذہب سے کوئی مخالفانہ یا دوستانہ تعلق نہیں تھا لیکن ملک میں اسلام اور سوشلزم کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا گیا۔اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے دانشور دور کی کوڑی لائے۔ انہوں نے اسلام ہمارا دین ہے‘ سوشل ازم ہماری معیشت ہے‘ جمہوریت ہماری سیاست ہے جیسے نعرے لگائے۔ یہ نعرے بلاشبہ اپنے اندر گہری دانش سمیٹے ہوئے تھے۔ یہ ایک سیکولر سوشلسٹ جمہوریت کی طرف جانے اور ملک کی رجعت پسند قوتوں کو جواب دینے کی ایک مؤثر حکمت عملی تھی مگر پیپلز پارٹی عملی طور پر اپنی اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے میں ناکام رہی۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کے پاس بھی ایسے منشور تھے جن میں بڑے نظریات اور نعرے شامل کیے گئے تھے۔ سوشلزم کے علاوہ نیشنل ازم بھی ان انتخابات میں ایک اہم فیکٹر بن کر اُبھرا۔ عوامی لیگ نے نیشنل ازم کو دیگر نعروں کے ساتھ جوڑ کر پیش کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) بھی اس وقت نیشنلسٹ اور ترقی پسند نظریات کے ساتھ میدان میں موجود تھی۔ ان انتخابات میں‘ ان نظریات اور نعروں کے ساتھ عوامی لیگ‘ پیپلز پارٹی‘ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ دائیں بازو کی جن چھوٹی پارٹیوں نے اسلام کے نام پر سوشلزم کے خلاف مورچہ بنا لیا تھا انہوں نے انتخابات میں تو کوئی قابلِ ذکر کامیابی نہیں حاصل کی؛ تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر سوشلزم کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا جس نے آگے چل کر پاکستان کی سیاست پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان انتخابات میں نظریات کے علاوہ شخصیات نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو‘ شیخ مجیب الرحمن‘ ولی خان اور میر غوث بخش بزنجو جیسے سیاستدان اُبھر کر سامنے آئے اور عوام میں بہت مقبولیت حاصل کی۔ لیکن خاص بات یہ تھی کہ وہ لوگ اپنی شخصیت کے ساتھ ساتھ نظریات کو بھی سامنے لائے جو اُن کی ذات کی پہچان بن گئے۔ غالباً یہ تاریخ کا واحد موقع تھا جب ملک میں انتخابات بھی شفاف ہوئے اور انتخابی عمل کے نتیجے میں کچھ بڑی شخصیات اور نظریات بھی اُبھر کر سامنے آئے۔ اس کے بعد کا سارا سفرزوال کا سفر ہے۔ اس سفر کے دوران نظریات آہستہ آہستہ پیچھے ہٹتے گئے اور ان کی جگہ ایسی شخصیات نے لینا شروع کی جن میں سے اکثر کو نہ تو نظریات کا کوئی خاص ادراک یا شعور تھا اور نہ ہی وہ اس میں دلچسپی رکھتے تھے؛ چنانچہ اس سلسلۂ عمل میں آگے چل کر سوشلزم اور اسلام دونوں کو استعمال اور بدنام کیا گیا۔ نظامِ اسلام‘ نفاذِ اسلام اور اسلام کو خطرہ ہے جیسے نعرے مقبول ہوئے‘ جن کے بل پر ضیاء الحق جیسے حکمران آگے آئے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ زیادہ پرانا یا دُور کا قصہ نہیں بلکہ ایک طرح سے آج کی کہانی ہے‘ مگر اس کہانی نے کچھ زیادہ ہی دردناک موڑ لے لیا۔ کیسے کیسے لیڈر عوام پر مسلط ہو گئے۔ نظریات خواہ وہ سوشلزم ہو‘ اسلام ہو‘ سرمایہ داری ہو یا نیو لبرل ازم‘ ان کے بارے میں گفتگو ہونا ہی بند ہو گئی۔ اس کی جگہ لیڈروں کی ذاتی خوبیوں اور خامیوں کی بحث نے لے لی بلکہ زیادہ تر انتخابات دوسروں کی خامیوں‘ غلطیوں اور کوتاہیوں پر لڑے جانے لگے۔ ایک طرف دولت نے اور دوسری طرف مقتدرہ نے سینٹرل سٹیج سنبھال لیا۔ یہ دونوں فیکٹر مل کر انتخابی نتائج کا تعین کرنے لگے۔ نظریات و مقبولیت کے ساتھ قبولیت پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ اب انتخابات کے نتیجے میں عوامی حالتِ زار میں تبدیلی کی امید عبث ہے۔ حالیہ عام انتخابات اور اس کے بعد مقبولیت اور قبولیت کے سنگم سے سیاست جو رخ اختیار کر رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایسے انتخابات کے نتیجے میں عوام کی حالت زار میں تبدیلی کی اُمید عبث ہے مگر جمہوریت کی ناگزیریت اس مشق کی متقاضی ہے‘‘۔
جمہوری حکومتوں کے ادوار میں سامنے آنے والے نقائص بھی صرف جمہوری عمل سے ہی درست ہو سکتے ہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران جمہوری تصورات اور جمہوری کلچر کو سخت دھچکا لگا ہے۔ جمہوریت محض ووٹ کاسٹ کرنے کا نام نہیں۔ یہ ایک طرزِ زندگی ہے‘ جس کی یہاں کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ اب سچی اور حقیقی جمہوریت کے لیے عوام کو نئے سرے سے جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا۔