یہ بات ہم نے تقریباً تسلیم کر لی ہے کہ جوان نسل کے لوگ ہم سے علم و دانش میں کہیں آگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جدید دور کے لوگ ہیں‘ جن کو عظیم و پیچیدہ ٹیکنالوجی یعنی سوشل میڈیا کا فائدہ حاصل ہے‘ جس تک ہمارے دور میں ہمیں رسائی نہیں تھی۔ جدید ٹیکنالوجی کی برکات اور جوان نسل تک اس کی رسائی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ لیکن کیا صرف ٹیکنالوجی تک رسائی اور اس کی سمجھ کافی ہے؟ اور کیا جدید ٹیکنالوجی سے واقفیت کا مطلب زیادہ علم و دانش ہے؟ اس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ آپ سائنس اور ٹیکنالوجی میں کس چیز کو فوکس کرتے ہیں‘ سائنس و ٹیکنالوجی کی وہ قسم یا شکل آپ کی کس سمت میں رہنمائی کرتی ہے اور آپ سائنس و ٹیکنالوجی کو کس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ آپ سائنس و ٹیکنالوجی کو علم و ادب کے فروغ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں‘ مذہب اور اخلاقیات کی تعلیم و ترویج کے لیے استعمال کر سکتے ہیں یا ایسے سماجی اور فلسفیانہ علوم کے حصول کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو علم و دانش میں اضافے کا باعث بن سکتے ہوں۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا عام ہونے کے بعد سماج میں شعر و ادب سے دلچسپی بڑھی ہے۔ شعر و شاعری کے قواعد و ضوابط اور قافیہ و ردیف سے عام آدمی کی آگہی بڑھی ہے۔ نوجوان نسل میں افسانوی ادب متعارف ہوا ہے۔ جوان نسل نے سعادت حسن منٹو اور کرشن چندر کے افسانے پڑھے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا میں ایسے شعر و ادب کی بھی بھرمار ہے جو کسی بھی اعتبار سے شعر و ادب کے بنیادی معیار اور قواعد و ضوابط پر پورا نہیں اترتا۔ جو کہیں سے بھی شعر و شاعری یا افسانہ سمیت کوئی بھی صنفِ ادب نہیں ہے مگر مصنف یا شاعر اس کو افسانہ یا شاعری منوانے پر بضد ہیں۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا کی براہِ راست عوام تک رسائی یا لکھاری اور عوام کے تعلق میں ایڈیٹر کی عدم موجودگی ہے۔ عوام کو شعر و ادب کے نام پر نجانے کس کس چیز سے روشناس کرایا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا کے اعجاز سے وہ اسے قبول کرنے پر مجبور ہیں۔
سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے سوشل میڈیا جیسے حاصلات کی اہمیت اپنی جگہ‘ مگر جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے سائے میں زندہ رہنے کے باوجود ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہمارے ہاں علم و تعلیم کے معیار میں حیرت انگیز کمی ہوئی ہے۔ اس حقیقت کا اظہار ہمیں آئے روز اپنے اردگرد نظر آ رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا ایک نمایاں اور واضح اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتا ہے اور یہ اتنا عام ہو گیا ہے کہ آبادی کی واضح اکثریت سوشل میڈیا کا ستعمال کر رہی ہے۔ اس میں ایک عام خواندہ شخص سے لے کر بڑے بڑے سکالرز تک‘ سبھی قسم کے لوگ شامل ہیں؛ تاہم سوشل میڈیا پر کچھ وقت گزارنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کا معیار پستی اور گراوٹ کی کن حدود کو چھو رہا ہے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ سوشل میڈیا پر آپ کو ایسی کوئی تحریر خال خال ہی نظر آئے گی جس میں زبان و بیان کی بے شمار غلطیاں نہ ہوں۔ اور ان غلطیوں کی اتنی کثرت ہوتی ہے کہ ان تحریروں کو پڑھنا ہی دشوار ہو جاتا ہے۔ بات اگر ٹائپو کی ہو تو شاید اس کا کوئی جواز ڈھونڈا جا سکتا ہے لیکن یہاں ٹائپو سے بہت آ گے کی بات ہو رہی ہے۔ غلط لفظ اس طور لکھے جاتے ہیں کہ یہ غلطیاں بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہوتی ہیں کہ لکھنے والے کو زبان و بیان کی بنیادی چیزوں سے بھی واقفیت نہیں ہے۔ ح اور ھ کا فرق اب لگ بھگ مٹ گیا ہے۔ مزاحمت اور مذمت ایک ہی چیز بن گئی ہیں۔ یہ صرف اردو زبان کے ساتھ ہی نہیں ہو رہا‘ ہمارے ہاں کی دیسی انگریزی میں تو غلطیوں کا شمار ہی ممکن نہیں۔ اگر آپ ایک مکمل پیراگراف یا مضمون لکھیں اور اس میں ایک آدھ غلطی نکل آئے تو شاید اس کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آپ صرف بیس تیس الفاط پر مشتمل ایک یا دو سطری تحریر لکھیں اور اس میں سے آدھے سے زیادہ الفاظ غلط ہوں تو اس سے معیارِ تعلیم پر انگلی اٹھائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ عام تحریر تو ایک طرف‘ ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کے پروفائل اور تعارف تک میں بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اگر ہم اپنے اس مؤقف کا از سر نو جائزہ لیں کہ نئی نسل چونکہ ٹیکنالوجی سے جڑی ہے‘ اس لیے وہ علم و تعلیم کے معیار میں اگلی پیڑھی سے بہتر ہے تو یہ ایک مغالطہ ہے جو جتنی جلدی دور ہو سکے‘ اتنا بہتر ہے۔
جدید ٹیکنالوجی پوری دنیا میں متعارف ہوئی مگر علم و دانش کے میدان میں اس کا غلط استعمال یا ناجائز استفادہ ہمارے جیسے معاشروں کا المیہ ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے معیارِ تعلیم بہتر ہوا ہے اور روز بروز بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے معیارِ تعلیم کا تقابل اگر ٹیکنالوجی کے استعمال سے پہلے کے دور سے کیا جائے تو لگتا ہے کہ وہ معیارِ تعلیم آج کے دور سے کہیں بہتر تھا۔ حالانکہ اس زمانے کے اعتبار سے باقی دنیا کے مقابلے میں ہمارا معیارِ تعلیم نسبتاً کافی پست تھا۔ ہمارے دور میں‘ جسے آپ ٹیکنالوجی سے کہتے ہیں‘ انتہائی سادہ تھی اور ہمارے پاس اس کی بہت ابتدائی اشکال تھیں۔ بہرحال یہ تو بات ہو رہی ہے صرف علم و دانش یا معیارِ تعلیم پر سوشل میڈیا کے اثرات کے حوالے سے‘ سوشل میڈیا کے زندگی کے دوسرے شعبہ جات پر بھی اثرات اتنے غالب ہیں کہ ان سے انکار ممکن نہیں۔ کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے سماج میں پراگندگی‘ انتشار یا اضطراب پھیل رہا ہے۔ یہ لوگ شاید ضرورت سے زیادہ اضطراب کا شکار ہیں لیکن اگر ان لوگوں سے اتفاق نہ بھی کیا جائے تو پھر بھی کم از کم یہ ماننا پڑے گا کہ سوشل میڈیا علم و تعلیم سے طالبعلموں کی توجہ ہٹانے کا باعث ضرور بنتا ہے‘ جس کا اثر مجموعی طور پر معیارِ تعلیم پر پڑنا ناگزیر ہے۔ عام سماج میں اسے توجہ ہٹانے سے بھی آگے جا کر پیداواری سرگرمیوں میں کمی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر دوسرا بڑا الزام یہ ہے کہ یہ غلط معلومات اور اطلاعات کا پھیلانے کا باعث ہے۔ یہ الزام زیادہ تر حکمران اشرافیہ کی طرف سے لگایا جاتا ہے‘ جو صرف سوشل میڈیا ہی نہیں روایتی میڈیا پر بھی اس طرح کے الزامات لگاتی رہتی ہے۔ سوشل میڈیا پر تیسرا الزام بہرحال سنگین اور سنجیدہ نوعیت ہے کہ سوشل میڈیا میں مسئلہ صرف فیک نیوز ہی نہیں بلکہ اس پر کم علمی اور جہالت پر مبنی معلومات و خیالات کا پھیلائو عام ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی نجی زندگی کے بارے میں معلومات سے لے کر بڑے پیمانے پر ڈیٹا رسائی اور اس کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کا الزام بھی سوشل میڈیا کے خلاف عام ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک سوشل میڈیا کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سماج میں ایک طرح کا سپر فیشل کنکشن پیدا کیا جا رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر چوتھا الزام یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایڈِکشن پیدا کرتا ہے۔ یہ ڈپریشن اور انزائٹی پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لوگوں کو سیلف پرموشن کی طرف مائل کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اس وقت فراڈ اور دھوکا دہی کے لیے بھی ایک عام ہتھیار بن چکا ہے اور اس کا ایک بڑا اظہار تعلیمی میدان میں ہو رہا ہے‘ یہ تمام الزامات کسی نہ کسی حد تک درست ہیں مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا کے فوائد اس کے مضمرات سے بہرحال زیادہ ہیں۔