حسِ ظرافت رکھنے والا کوئی بھی شخص ہماری سیاست پر ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ ہماری سیاست ٹریجڈیز سے بھری ہوئی ہے اور ٹریجڈیز میں مزاح کا پہلو بہت ہی کم ہوتا ہے‘ لیکن حسِ ظرافت رکھنے والے ٹریجڈیز میں بھی مزاح کا پہلو ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ہماری سیاست کا سٹیج بہت وسیع ہے۔ اس پر ہمہ وقت طرح طرح کے ڈرامے چلتے رہتے ہیں۔ ان ڈراموں سے کئی قسم کے کریکٹر جڑے ہوتے ہیں جو اپنی ضروریات کے مطابق کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ سیاسی ڈرامہ کبھی مزاحیہ اور کبھی المناک شکل اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس صورتحال کی ایک جھلک ابھی حال ہی میں ہمیں آزاد کشمیر میں چلنے والی تحریک میں نظر آئی۔ شروع میں یہ ایک پُر امن تحریک تھی لیکن بعد ازاں اس میں تشدد کا عنصر بھی شامل ہو گیا جس کی وجہ سے تین لوگ جاں بحق ہو گئے‘ جس کا شہریوں اور حکومت‘ سب کو بہت افسوس ہے۔ شہریوں کی طرف سے یہ مطالبہ اب بھی جاری ہے کہ ہلاکتوں کے حوالے سے اصل حقائق سامنے لائے جائیں اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ یہ بہت ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کو رونما ہونے سے روکا جا سکے۔
دوسری طرف اس تحریک کا مزاحیہ پہلو یہ تھا کہ اس کی وجہ سے سیاستدانوں‘ سیاسی جماعتوں اور کچھ منتخب نمائندوں کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ یہ لوگ اس تحریک کی وجہ سے شدید قسم کی افراتفری اور کنفیوژن کا شکار ہو گئے۔ عوامی مطالبات تحریک کے ابتدائی مراحل میں سیاسی جماعتوں کے علاقائی رہنما بھی نہ صرف اس تحریک میں شامل تھے بلکہ انہوں نے تحریک کے مطالبات بھی جائز قرار دیتے ہوئے ان سے اتفاق کیا تھا اور ان کے کارکن بھی تحریک کی اولین صفوں میں شامل ہو گئے‘ مگر روایتی سیاستدان ہونے کی وجہ سے وہ اس عوامی تحریک کی شدت اور رفتار کا ساتھ نہ دے سکے۔ جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی‘ سیاسی جماعتوں کے کارکنان پیچھے ہٹتے گئے اور بالآخر اس تحریک سے علیحدہ ہو گئے۔ جس قسم کی سیاست کے یہ لوگ عادی ہیں اس میں کسی بڑے مقبول رہنما کے نام پر سٹیج لگا کر عوام کو اکٹھا کیا جاتا ہے‘ جہاں ان لوگوں کو انجمنِ ستائش باہمی کی طرز پر نعروں اور تالیوں کی گونج میں سٹیج پر بلایا جاتا ہے۔ مغلیہ شہنشاہوں سے بڑھ کر ان کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ سارا سلسلہ ان لوگوں کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ ظاہر ہے ایسا اس عوامی تحریک میں ممکن نہیں تھا۔ اس تحریک کے پیچھے اصل ڈرائیونگ فورس ایسے کارکن قسم کے لوگ تھے جو زندگی کا بیشتر حصہ انہی سڑکوں پر اور گلیوں میں جدوجہد اور مزاحمت میں گزار چکے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ بھی خود ستائشی اور خبطِ عظمت کے جراثیم سے پاک نہیں لیکن تجربے سے وہ اتنا ضرور سیکھ چکے ہیں کہ بڑے مقصد کے لیے وقتی طور پر پچھلی صفوں میں جانے میں کوئی حرج نہیں۔ ان میں سے کچھ نے دل پر بڑا بھاری پتھر رکھ کر ایسا فیصلہ لیا اور اس عمل کے مثبت نتائج نکلے۔ تحریک کی اگلی صفوں میں غیر معروف اور غیر شناسا چہرے نظر آئے‘ تاہم یہ تحریک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی۔
روایتی سیاستدانوں کی اس تحریک سے باہر ہونے کی وجہ اس تحریک کی شدت اور رفتار تھی جو ان کے طرزِ سیاست سے میل نہیں کھاتی تھی۔ یہ لوگ اس تحریک کا حصہ ہونے کے باوجود اس تحریک میں عملی طور پر سرگرم عوام کے لیے غیرمتعلقہ ہو چکے تھے‘ چنانچہ ان کی حیثیت ایک اجنبی یا تماش بین سے زیادہ نہیں تھی۔ ان حالات میں ان لوگوں نے پہلے تحریک سے لا تعلقی کا اعلان کیا پھر مزید دباؤ کا شکار ہو کر تحریک کی باقاعدہ مخالفت شروع کر دی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس صورتحال کا نظریاتی جواز ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ یہ جواز ڈھونڈنا مشکل تھا کیونکہ تحریک کے مطالبات‘ نظریات اور خیالات وہی تھے‘ جو پہلے دن تھے اور جن کو تسلیم کر کے یہ لوگ تحریک میں شامل ہوئے تھے۔ اس طرح یہ لوگ عوام کے منتخب نمائندے‘ ہمدرد اور رہنما ہونے کے دعوے کے باوجود اُن کا ساتھ دینے کے بجائے ان کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد جو کردار انہوں نے ادا کرنا شروع کیا وہ فلمی دنیا کے بڑے سے بڑے ادا کار کو بھی پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ انہوں نے عوامی مطالبات تسلیم ہونے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا مگر ساتھ ہی تحریک کو کسی غیرملکی سازش کا نتیجہ بھی قرار دیتے نظر آئے۔ انہوں نے بلاواسطہ مطالبات کی منظوری کا کریڈٹ لینے کی بھی کوشش کی اور یہ بھی کہا کہ مطالبات کی منظوری میں تحریک کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اصل کردار انہی سیاستدانوں کا ہے۔ اس حوالے سے صدرِ مملکت کا کردار اہم ہے جنہوں نے بروقت تمام سٹیک ہولڈرز کو ایوانِ صدر میں بلایا اور عوامی مطالبات پر دو ٹوک بحث کی۔ دوسرا بڑا کردار وفاقی حکومت کا ہے جس نے آزاد کشمیر کے لیے 23 ارب روپے کا فنڈ فوری جاری کر دیا۔ تیسرا بڑا کردار حکومتِ آزاد کشمیر کا ہے جس نے راتوں رات ان مطالبات کی منظوری کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا۔ مقامی سیاسی قیادت نے ایک سال تک چلنے والی عوامی تحریک کا سارا کریڈٹ حکمران اشرافیہ کو دے دیا۔ اس بات کو عوام تک لے جانے کے لیے آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں ریلیوں کا اہتمام کیا گیا‘ مگر عوام نے ان ریلیوں کو نظر انداز بلکہ مسترد کر دیا جس کی غمازی ان تصاویر اور وڈیوز سے ہوتی ہے جو منتظمین نے خود جاری کی ہیں۔
یہ روایتی سیاستدانوں اور منتخب نمائندوں کے لیے بہت ہی مایوس کن صورتحال ہے۔ اب انہوں اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے روایتی ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیے ہیں۔ ان ہتھکنڈوں میں قبیلے اور برادری کے نام پر لوگوں کی تقسیم‘ تحریک کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور اس سارے عمل کے پیچھے کوئی غیرملکی خفیہ ہاتھ ثابت کرنا شامل ہے۔ شنید ہے کہ اس مقصد کے لیے نظریاتی محاذ پر یہ طے کیا گیا ہے کہ کانفرنسوں اور ریلیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیا جائے جس میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین جیسے اُن ایشوز کو از سر نو اجاگر کیا جائے گا جن کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھنے کی وجہ سے لوگ روز مرہ کے ایشوز کو نظر انداز کر دیتے ہیں‘ اس طرح حکمران اشرافیہ کو چین کا سانس میسر آ سکے گا۔ لوگوں کی توجہ درپیش مسائل سے ہٹانے کی حکمران اشرافیہ کی یہ بہت پرانی اورکامیاب پالیسی ہے مگر گزشتہ چند برسوں سے یہ پالیسی کچھ کمزور پڑ گئی ہے۔ عوامی مطالبات تحریک کی کامیابی کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ روایتی سیاست کی دیوار میں بہت بڑی دراڑ پڑ چکی ہے لیکن ظاہر ہے یہ دیوار خود نہیں گرے گی‘ اس کو عوامی دھکے کی ضرورت ہو گی۔
آزاد کشمیر ایک جما جمایا جمہوری معاشرہ ہے۔ اس معاشرے میں ہر کام احتجاج اور ریلیوں کے ذریعے نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے جمہوری عمل کا حصہ بننے کی ضرورت ہے اور عوام کا واضح مینڈیت درکار ہے۔ عوام یہ مینڈیٹ ریفرنڈم یا کسی اور جمہوری طریقے سے بھی دے سکتے ہیں لیکن اس نظام میں تبدیلی کے لیے جمہوری عمل اور جمہوری نظام کا حصہ بننا ضروری ہے جس کے لیے کسی بڑے پلیٹ فارم‘ سیاسی پارٹی یا اتحاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ عوام کو اپنی اور ملک کی بہتری کے لیے تازہ دم‘ نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں کو ایوان میں پہنچانا ہو گا۔ اس کے بغیر نہ رجعت پسند سیاست کی دیوار گر سکتی ہے اور نہ ہی نظام میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔