ہمارے عہد میں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی کے ذریعے باہمی انحصار والی دنیا میں ایک سایہ دار لیکن ہمہ گیر وجود قوموں اور معاشروں پر چھایا ہوا ہے۔ عام آدمی کو اس کے وجود کا علم نہیں لیکن جو اس کا علم رکھتے ہیں وہ اسے بین الاقو امی اشرافیہ کہتے ہیں۔ یہ گروہ سرحدوں‘ ثقافتوں اور قومی وفاداریوں سے بالاتر ہے۔ دنیا کے معاشی‘ سیاسی اور ثقافتی نظاموں پر بے حد اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ یہ اشرافیہ کیا ہے؟ کون ہے؟ یہ کن لوگوں پر مشتمل ہے؟ یہ کیسے کام کرتی ہے؟ دنیا میں عام آدمی کی زندگی پر اس کے کیا اثرات ہیں؟ عام ادمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عالمی اشرافیہ کے وجود اور اس کے عام آدمی کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا علم رکھتا ہو۔
بین الاقوامی اشرافیہ سے مراد افراد کا ایک طبقہ ہے جو عالمی سطح پر بے پناہ معاشی طاقت‘ سیاسی اثر و رسوخ اور ثقافتی طاقت رکھتا ہے۔ وہ ملٹی نیشنل کارپوریشنز کے سی ای اوز‘ ہیج فنڈ منیجرز‘ بیوروکریٹس‘ بااثر میڈیا مغلز‘ ٹیکنالوجی کے دیو اور موروثی دولت مند خاندانوں کے ارکان ہیں۔ اس گروپ میں نہ صرف انتہائی امیر بلکہ پالیسی ساز‘ کنسلٹنٹ‘ ماہرینِ تعلیم اور تھنک ٹینکس بھی شامل ہیں جو عالمی رائے اور فیصلہ سازی کو تشکیل دیتے ہیں۔ قومی حدود میں محدود روایتی اشرافیہ کے برعکس بین الاقوامی اشرافیہ ایک بین الاقوامی دائرے میں کام کرتی ہے۔ وہ مشترکہ مراعات‘ خصوصی نیٹ ورکس تک رسائی اور نیو لبرل ازم کے ایک متفقہ نظریے سے جڑے ہوئے ہیں۔ آزاد منڈیوں‘ نجکاری اور کم سے کم حکومتی مداخلت پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کی مشترکہ زبان طاقت ہے اور ان کے کھیل کا میدان دنیا ہے۔
بین الاقوامی اشرافیہ مالی‘ سیاسی اور ثقافتی اداروں کے مربوط نیٹ ورکس کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے اور ایک خاص میکانزم کے ذریعے اپنے غلبے کو برقرار رکھتی ہے۔ بین الاقوامی اشرافیہ دولت اور سرمائے کی وسیع عدم مساوات پر پروان چڑھتی ہے۔ کثیر القومی کارپوریشنز‘ جن کے صدر دفاتر بڑے مالیاتی مراکز میں ہیں‘ مارکیٹوں پر غلبہ رکھتی ہیں۔ مزدوری کے طریقوں کا تعین کرتی ہیں اور مقامی معیشتوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ سرمایے کو سرحدوں کے پار منتقل کرنے کی صلاحیت کے ساتھ وہ سرمایہ کاری کے لیے بے چین حکومتوں کے لیے شرائط کا تعین کرتی ہے۔ ٹیکس کی پناہ گاہیں‘ آف شور اکاؤنٹس اور قانونی خامیاں انہیں اپنی دولت کو محفوظ رکھنے اور بڑھانے کی اجازت دیتی ہیں جبکہ عام شہریوں کو اجرتوں اور کفایت شعاری کے اقدامات کا سامنا کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
لابنگ مہم کی مالی اعانت اور سیاسی رہنماؤں تک براہِ راست رسائی کے ذریعے بین الاقوامی اشرافیہ اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پالیسیاں ان کے مفادات کی عکاسی کرتی ہوں۔ ورلڈ اکنامک فورم‘ جی 20 یا جی 7بظاہر عالمی تعاون کے پلیٹ فارم ہیں مگر اکثر اشرافیہ کے لیے اپنے ایجنڈوں کو ترتیب دینے کے لیے کام کرتے ہیں۔ تجارتی معاہدے‘ دانشورانہ املاک کے قوانین اور ڈی ریگولیشن اکثر کارپوریشنوں اور امیروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں جس سے عام شہریوں کو ایک طرف کر دیا جاتا ہے۔ اس اشرافیہ کے زیر اثر میڈیا تعلیم و تفریح پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی اشرافیہ کو بیانیہ تشکیل دینے اور اس کے لیے رضا مندی حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اکثر ایسے خیالات کو فروغ دیتا ہے جو امیروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں جیسے عالمگیریت کی ناگزیریت یا کفایت شعاری کی ضرورت۔ اشرافیہ کی یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینکس ایسے ماہرین پیدا کرتے ہیں جو جمود کو تقویت دیتے ہیں اور عدم مساوات کو ناگزیر قرار دیتے ہیں۔
ڈبلیو ٹی او‘ ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ جیسے ادارے بین الاقوامی اشرافیہ کے ہتھیاروں میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ادارے عالمی استحکام اور ترقی کو فروغ دینے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں اکثر قرض دہندگان اور سرمایہ کاروں کو مقامی آبادیوں پر ترجیح دیتی ہیں۔ سٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کے پروگرام مثال کے طور پر مقروض ممالک پر سخت کفایت شعاری کے اقدامات اور سماجی تحفظ کے جال کو مسلط کرتے ہیں۔ بین الاقوامی اشرافیہ کا غلبہ عالمی عدم مساوات‘ جمہوریت اور سماجی ہم آہنگی پر گہرے اثرات رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر کووِڈ بحران کے دوران جہاں ارب پتیوں کی دولت میں اضافہ ہوا‘ وہیں اربوں لوگ غربت کے جال میں پھنس گئے۔ امیروں کے امیر ہونے کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگ اپنی روزی روٹی کھو بیٹھے۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی اشرافیہ کا اثر و رسوخ اکثر جمہوری عمل کو نقصان پہنچاتا ہے۔ شہری تیزی سے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ فیصلے بورڈ رومز میں ہوتے ہیں‘ بیلٹ باکس میں نہیں۔ دنیا بھر میں پاپولسٹ تحریکوں کا عروج اس سمجھے جانے والے حقِ رائے دہی کے خلاف ردعمل کی عکاسی کرتا ہے حالانکہ ایسی بہت سی تحریکیں اسی اشرافیہ کی طرف سے چلائی جاتی ہیں جن کی وہ مخالفت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
کارپوریشنوں کی طرف سے منافع کی ہوس اور مسلسل کوشش‘ جو اکثر بین الاقوامی اشرافیہ کی طرف سے ہوتی ہے‘ وسیع پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کا باعث بنی ہے۔ اگرچہ یہ اشرافیہ آب و ہوا کے سربراہی اجلاسوں کی میزبانی کرتی ہے اور وعدوں کا عہد مگر وہ بحران سے نمٹنے کے لیے درکار تبدیلیاں شاذ و نادر ہی کرتے ہیں۔ بین الاقوامی اشرافیہ کی طاقت کو ختم کرنے کے لیے کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے زیادہ شفافیت ضروری ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ فیصلہ کیسے کیا جاتا ہے اور اس سے کس کو فائدہ ہوتا ہے۔ دوسرا‘ ٹیکس کی پناہ گاہوں کو بند کرنے‘ سرمائے کے بہاؤ کو منظم کرنے اور محنت کے منصفانہ طریقوں کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ آخر میں‘ نچلی سطح کی تحریکیں اور اجتماعی کارروائی ایسی پالیسیوں کی وکالت کرتے ہوئے اشرافیہ کے غلبے کو چیلنج کر سکتی ہیں جو منافع پر لوگوں کو ترجیح دیتی ہیں۔ بین الاقوامی اشرافیہ ایک غیرمنتخب عالمی اشرافیہ کے طور پر کام کرتی ہے اور دنیا کو اپنے مفادات کے مطابق ڈھال رہی ہے جبکہ اکثریت کو نتائج سے دوچار ہونے کے لیے چھوڑ دیتی ہے۔ ان کی طاقت نہ تو ناگزیر ہے اور نہ ہی ناقابلِ تسخیر۔ اپنے طریقوں کو بے نقاب کرکے اور احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے عام شہری اس بین الاقوامی اشرافیہ کو چیلنج کر سکتے ہیں اور ایک زیادہ منصفانہ اور جمہوری دنیا کی طرف کام کر سکتے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ کیا تبدیلی ممکن ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا ہم اس کے لیے لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ لڑنے کی اس طاقت کے حالیہ مظاہر مقامی سطح پر مختلف ممالک میں دیکھنے میں آئے ہیں۔ اگرچہ کچھ مخصوص مفادات کے تحت مقامی سطح پر منظم ہونے والے گروہوں نے اس کو بہت زیادہ مقامی یا کہیں کہیں علاقائی رنگ دے دیا۔ حالانکہ یہ سارے مطالبات عالمگیر تھے۔ آٹا‘ چینی‘ روز مرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ ان چیزوں کے بارے میں ایجنڈے عوامی سٹیج پر ان لوگوں کی مرضی کے محتاج ہیں جو عالمی منڈیوں اور مارکیٹوں کو چلاتے ہیں۔ ان مسائل کو مقامی رنگ دینے میں کامیابی کی وجہ لیڈرشپ کی کمزوری یا نااہلی ہی کو سمجھا جا سکتا ہے یا یہ عالمی اشرافیہ کے روز بروز مضبوط ہونے اور ان کی عالمی منڈیوں پر مضبوط ہوتی گرفت کا اظہار ہے۔ عالمی اشرافیہ کی اس گرفت کو توڑنے کے لیے ایک مربوط اور منظم تحریک کی ضرورت ہے جو اس اشرافیہ کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کر سکے اور عوامی طاقت کے زور پر اس اشرافیہ کا سامنا کر سکے۔