1988ء میں جنرل محمد ضیاء الحق کے قتل سے لے کر 1996 ء تک چار انتخابات منعقد ہوئے ۔ دو مرتبہ پیپلز پارٹی اور دو بار نون لیگ کامیاب ہوئی۔ چاروں حکومتیں منہ کے بل گریں۔ اگرچہ اپنی اپنی بساط کے مطابق فریقین نے دھاندلی کی اورکم از کم ایک دفعہ خفیہ ادارے بھی متحرک رہے لیکن نتائج اس کے سوااور کیا ہوتے ؟ دو میں سے کسی ایک ہی کو عوام نے منتخب کرنا تھا۔ ایک کو بھگتنے کے بعد وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے دوسرے کی طرف لپکتے ۔دیکھا جائے توجعلی ووٹوں کے باوجود 2008ء کے این آر او زدہ الیکشن کے نتائج بھی عوامی امنگوں کے ترجمان تھے۔بظاہر دیو قامت نظر آتی قاف لیگ نا مقبول تھی ۔بے نظیر بھٹو نے این ا ٓر او کر لیا اس لیے عوام کی نظر میں مسلم لیگ کے صدر تب مظلوم تھے ۔ بے نظیر شہید نہ ہوتیں تو نون لیگ جیت ہی گئی تھی۔ اب کیا ہوگا؟ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے بارے میں کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن تحریکِ انصاف کے بارے میں کیا کہیے، جس کا کوئی ماضی ہی نہیں ۔ اس سے قبل تحریکِ انصاف نہیں ، عمران خان تنہا میدان میں اترتے تھے۔پی ٹی آئی نے ابھی تک اپنی قوت ثابت نہیں کی لیکن یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ جیت نہیں سکتی۔ 70ء میں پیپلز پارٹی کی صورتِ حال بھی یہی تھی۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ دائیں بازو کا ووٹ نون لیگ اور تحریکِ انصاف کے درمیان تقسیم ہونا ہے ۔ پیپلز پارٹی اب اس درجہ نامقبول ہے کہ اس تقسیم کا کوئی فائدہ اٹھا نہ پائے گی ۔ کم از کم سندھ ایک ایسا صوبہ ہے جس میں مختلف جماعتوں کی ممکنہ کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی یہاں سے اس بنیاد پر کامیابی سمیٹتی رہی کہ سندھیوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے اوروہ ان کے حقوق کی واحد محافظ ہے۔ حالات اب اتنے ابتر ہو چکے کہ لاڑکانہ سے کئی امیدوار وں نے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ٹھکرا دیا۔فنکشنل لیگ کی سربراہی میں قائم دس جماعتی اتحاد کی کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لیے اس میں شامل جماعتوں کا ریکارڈدیکھنا چاہیے۔ تنہا فنکشنل لیگ قومی اسمبلی کی 3، 4اورصوبائی اسمبلی کی 7، 8 نشستیں لے جاتی ہے ۔2002ء میں جمعیت علمائے اسلام ، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان متحدہ مجلسِ عمل کی صورت میں یکجا ہوئیں تو 7 قومی اور 13 صوبائی نشستیں انہوںنے جیت لی تھیں ۔ اب نون لیگ کے علاوہ 2008ء میں 3صوبائی سیٹیں حاصل کرنے والی نیشنل پیپلز پارٹی بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔یوں یہ جماعتیں 12سے 15قومی اور 25سے 30 صوبائی نشستیں لے سکتی ہیں۔ ایم کیو ایم سے بھی کچھ سیٹیں چھن سکتی ہیں کہ جماعتِ اسلامی اب ایک بڑے متحدہ محاذ کا حصہ ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی ماضی کی کارکردگی جانچنے کے لیے 2008ء کا الیکشن مناسب نہیں کہ اُسے بے نظیر کے بہیمانہ قتل کے بعد ہمدردی کا ووٹ ملا تھا۔ 2002ء میں اسے قومی اسمبلی کی 27نشستیں وہاں سے ملی تھیں ۔ اب 20، 22بھی شاید وہ لے نہ پائے ۔ صوبائی اسمبلی کی کل نشستیں 130ہیں ۔ 2002ء میں پیپلز پارٹی نے 50اور ایم کیو ایم نے28سیٹیں لی تھیں۔پیپلز پارٹی تو مشکل میں ہے ہی لیکن ایم کیو ایم کے لیے بھی اب کھل کھیلنے کے مواقع محدود ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اب 40اور ایم کیو ایم 25سے زیادہ نہ لے سکے گی۔ باقی دس جماعتی اتحاد ، آزاد امیدوار اور قوم پرست لے جائیں گے۔ اس صورت میں صوبائی حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم کا کردارفیصلہ کن ہو گا۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف، اس صوبے میں دونوں غیر اہم ہیں ؛اگرچہ وفاقی حکومت تشکیل دینے میں ان کا کردار اہم ہو سکتا ہے۔ نون لیگ کے لیے بہت سے پہلو اطمینان بخش ہیں ۔ مثلاً یہ کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی نے اسے عوام کے لیے قابلِ قبول بنا دیا ہے ، تجربہ کار اور مضبوط امیدوار اس کے پاس زیادہ ہیں ، حلقوں کی سیاست کو وہ تحریکِ انصاف سے بہت زیادہ سمجھتی ہے اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود اس کے کارکن منظم ہیں۔ شریف برادران اپنے دور میں ایٹمی دھماکوں ، موٹر وے اور ا ب ریپڈ بس کا حوالہ دیتے ہیں۔ دوسری طرف الزامات کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ دوسری طرف میڈیا کے محاذ پر اشتہارات کے ذریعے پیپلز پارٹی نے نون لیگ کو زچ کر ڈالا ہے ۔ عمران خان کوکبھی مقتدر نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن اور نا اہلی کے الزامات کا سامنا نہیں ۔سماجی خدمت کے میدان میں ان کی ساکھ اچھی ہے اور کرکٹ سے لگائو رکھنے والے اس کپتان کو والہانہ چاہتے ہیں۔ تنہا وہ شریف برادران سے زیادہ جلسوں سے خطاب کر چکا۔ عمران خان میں لچک کم ہے۔ فرمایا کہ وزیراعظم بن گیا تو صدر زرداری سے حلف نہیں لوں گا۔ آصف علی زرداری پر جتنے بھی الزامات ہوں اور ان کی حکومت کتنی بھی ناکام ہو ،وہ آئینی طریقے سے صدر بنے تھے اور انہیں ہٹانے کا طریقہ بھی آئین میں درج ہے۔ دوسرے عمران خان دہشت گردی کی جنگ سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔امریکہ واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہا ہے ۔ ایسے میں مہم جوئی پر مبنی بیانات سے احتراز بہتر ہے۔ میڈیا مہم پر قناعت کرتے صدر زرداری کا منصوبہ غالباً یہ ہے کہ الیکشن کے فوراً بعد آزاد امیدواروں اور پرانے اتحادیوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنانے کی کوشش کریں۔ یہ بظاہر ناممکن ہے۔ پانچ سال نامساعد حالات سے دوچار رہنے والی قوم پیپلز پارٹی کو کیسے گوارا کرے گی۔ ایک معلق پارلیمنٹ ہمارا انتظار کررہی ہے ۔ تب ایک دوسرے سے گالم گلوچ کرنے والے سیاستدانوں کو ساتھ بیٹھنا ہوگا۔ یہ دلچسپ اور عبرت انگیز منظر ہوگا۔