"FBC" (space) message & send to 7575

جدید صوفی

مستقل عباد ت سے اپنی پاکیزگی کا احساس راسخ ہونے لگتاہے ۔ یہ تکبر ہی کا ایک پہلو ہے ، خدا کے نزدیک جو ناپسندیدہ ترین ہے ۔ مذہبی رہنمائوں او ر بعض ’’صوفیوں‘‘ میں اپنی بڑائی کا یہ پہلو با آسانی دیکھا جا سکتاہے ۔ مرید کو سکھایا جاتاہے کہ پیر صاحب خطا سے مبرّا ہیں ۔ گوجر خان کے پروفیسر احمد رفیق اختر مگر کسی کو خود پہ قربان ہوتا دیکھتے ہیں تو بتا تے ہیں :عقیدت اور جہالت کی ابتدا ایک ساتھ ہوتی ہے ۔یہ بھی کہ عقل جہاں رکتی ہے ، بت خانہ تعمیر کر لیتی ہے ۔ پروفیسر صاحب علم الاسماء کے بانی ہیں ۔ حروف کی اصل کا علم ۔ میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز واقعہ وہ تھا، جب انہیں بتایا کہ میرا ایک ذہین ہم جماعت شرجیل عارف ان سے خاصی مماثلت رکھتا ہے ۔ ’’وہ میرے جیسا نہیں ہو سکتا‘‘۔ پروفیسر صاحب نے کہاـ\"He must be taller, havier and lethargic\" لمبے قد اور سست ہونے کا اندازہ سو فیصد درست تھا ۔ یہ البتہ بتایا کہ وہ تو دبلا پتلا ہے ۔ پروفیسر صاحب نے بتایا کہ جب تک بڑھنے کی عمر ہوتی ہے ، آدمی سکّا سڑا ہی ہوتاہے ’’شادی ہو جانے دو، پھول کے کپّا ہو جائے گا‘‘۔ بغیر دیکھے ، جانے ایسا درست اندازہ یقینا بڑی بات ہے لیکن اصل کارنامہ یہ ہرگز نہیں ۔ حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ جہاں الجھن درپیش ہو ، آپ رہنمائی فرماتے ہیں ، بعد میں آنے والے کیا کریں گے ؟ فرمایا: ہر زمانہ قرآن کی اپنی تفسیر کرے گا۔ چودہ سو برس قبل انسان جانتا ہی کیا تھا۔ آج ہمیں معلوم ہے کہ سو ارب گلیکسیز میں سے ہر ایک میں ارب ہا ارب سورج جگمگا رہے ہیں ۔ بعض اوقات دل لرز اٹھتا ہے ۔ اگر جدید سائنسی تحقیق کلامِ مجید کی کسی آیت سے متصادم ہو تو کیا ہوگا؟ پروفیسر صاحب نے آغاز ہی یہاں سے کیا تھا۔ ان کا تھیسز یہ تھا کہ انسان ہزار غلطیاں کر کے بھی انسان رہتا ہے مگر خدا ایک بھی غلطی کر کے خدا کہلا نہیں سکتا۔ نوجوانی میں اس خیال سے انہوںنے قرآنِ مجید کھولا تھا کہ کسی ایک بھی آیت کو غلط ثابت کرسکیں تو ان دیکھے خدا پر ایمان لانے کی مشقت سے بچ جائیں ۔وہ ناکام رہے لیکن سچ پانے کی اس آرزو نے انہیں رہنما کر دیا۔ انسانی حیات کو ہم آدمؑ سے آغاز کرتا دیکھتے ہیں ۔ دوسری طرف ایسی انسان نما مخلوقات کی باقیات پوری صحت کے ساتھ موجود ہیں ، جن کے دماغ کہیں چھوٹے ہیں ۔ ایسے میں پروفیسر صاحب ایک آیت پڑھتے ہیں ’’زمانے میں انسان پر کتنا وقت گزرا کہ وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا‘‘ کیا آدمؑ قابلِ ذکر نہ تھے ؟ پھر ایک اور آیت کا ٹکڑا ’’پھر ہم نے چاہا کہ اس (انسان )کو آزمائیں ، تو اسے سماعت اور بصارت عطا فرمائی‘‘ اکثریت اس آیت کو بچے کی پیدائش کے تناظر میں دیکھتی ہے ۔ یہ نہیں کہ پروفیسر صاحب عقلِ کل ہیں ۔ کئی بار ان کے اندازے غلط ہوتے دیکھے ۔ مثلاً سوئس حکّام کو خط نہ لکھنے پر سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو تیس سیکنڈ کی سزا سنائی تو ابہام باقی تھا۔ پروفیسر صاحب کا اندازہ یہ تھا کہ افسر شاہی وزیر اعظم کا حکم ماننے سے انکارکر دے گی اور بالآخر انہیں مستعفی ہونا ہوگا۔ ہوا مگر یہ کہ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے کے ذریعے وزیراعظم کورخصت کیا۔ پروفیسر صاحب کو ایسا کوئی اصرار نہیں کہ ہمیشہ ان کا اندازہ درست ہوگا۔ ان کے نزدیک تودعویٰ ہوتا ہی باطل ہے ۔ 72برس کے اس رہنما سے لاکھوں آدمی ملنا چاہتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب سے ملاقات آسان نہیں ۔ ہفتے کے جن دنوں ان کا دروازہ خدا کی مخلوق کے لیے کھلتا ہے ، اپنی باری کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتاہے اور ہم عجلت پسند ہیں۔ چاہتے سب یہ ہیں کہ کسی سفارش سے پلک جھپکنے میں ان کے سامنے جا پہنچیں۔پروفیسر صاحب کے حلقہ ء اثر میں فوجی افسروں ، افسر شاہی اور اہلِ سیاست کی ایک بڑی تعداد ہے لیکن کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز کرنے والا ان کا فرزند عبداللہ محمد کتابیں اور تسبیحات فروخت کرتا ہے ۔تصوف کے سلاسل میں بعض اوقات موروثیت درآتی ہے لیکن پروفیسر صاحب کا قول ہے کہ اللہ بہتر جانتاہے کہ اس نے اپنی امانت کہاں رکھی ہے ۔ اپنے وسیع تعلقات ، معلومات اور خیرہ کن ذہانت سے وہ کوئی کاروبار کرنا چاہیں تو کروڑوں کمائیں لیکن نہیں ۔ خود پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ 90فیصد لوگ دنیاوی اغراض کے لیے ان سے ملنا چاہتے ہیں ۔ خانقاہوں کا رخ کرنے والوں میں بھی علم کے متلاشی خال ہی ہوں گے ۔ ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا۔پروفیسر صاحب سے ملاقات کے لیے نذرانہ پیش کرنا ہوتاہے اور نہ ہی سرگوشی میں بتایا جاتا ہے کہ اپنی توفیق کے مطابق… جو کالم نگار ان کا ذکر نیاز مندانہ کرتے ہیں ، ان کی غرض صرف اتنی ہے کہ ایسے صاحبِ علم سے اللہ کی مخلوق استفادہ کر سکے۔ پروفیسر صاحب میڈیکل سائنس کی جدید تحقیق سے واقف رہنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ کینسر کے علاج میں ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو چکا ہے ، جو علاج آسان بنا دے گا۔ نیک نام بہت ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں ایسے معالجوں کی بھی کمی نہیں ، روپیہ کمانے کے لیے جو ہمہ وقت نشتر اٹھائے مریض تاکتے ہیں ۔ زچگی کے دوران بعض اوقات ماں اور بچے کی جان بچانے کے لیے آپریشن ناگزیر ہوتا ہے ۔ یہ خال ہونا چاہیے لیکن وقت بچانے اور پیسہ کمانے کے لیے آج بچوں کی اکثریت آپریشن کے ذریعے دنیا میں آتی ہے۔ پروفیسر صاحب کے سامنے کوئی مریض دکھڑا روئے تو اپنے علم کے مطابق وہ اسے ڈاکٹر کا نام بتا دیتے ہیں ۔ ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناتے وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض افراد کے جسم نہیں بلکہ دماغ پہ بیماری سوار ہوتی ہے ۔ معززکالم نگار نے شاید ایسا ہی کوئی ماجرا دیکھا ہو؟ کلین شیو اور سگریٹ نوش پروفیسر احمد رفیق اختر کو صوفی کہلانے کا قطعا کوئی شوق نہیں ۔ ان کی فکر میں یقینا کچھ خامیاں بھی ہوں گی ۔ معترضین کو چاہیے کہ ادھر ادھر کی بجائے ایسے خام نکات ڈھونڈ نکالیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں